نبی اکرم ﷺ کا تواضع

🖋 مفتی محمد عارف باللہ القاسمی
تواضع : ایک انسانی صفت ہے کہ جب انسان میں یہ صفت پیدا ہوجاتی ہے تو انسان خود کو دوسروں سے اعلی اور افضل وبرتر سمجھنے کے بجائے دوسروں کو بہتر و برتر سمجھتا ہے اور دوسروں کااحترام واکرام اپنا فریضہ سمجھتا ہے ۔
اسلام میں یہ صفت بہت ہی محبوب ہے اور یہ انسان کو اللہ کی قربت سے ہمکنار کرنے والی صفت ہے ، اور جب انسان اس صفت سے خود کو آراستہ کرتا ہے تو گرچہ کہ وہ خود کو دوسروں سے حقیر سمجھتا ہے لیکن اللہ اس صفت کی وجہ سے اس کو خلائق کا محبوب بناکر بلند مرتبہ پر فائز کردیتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے:
من اقتصدَ أغناهُ اللهُ، و منْ بَذَّرَ أفقرَهُ اللهُ، و منْ تواضعَ رفعهُ اللهُ، و منْ تجبر قصمهُ اللهُ (الجامع الصغیر:۸۵۰۱)
’’جوخرچ میں اعتدال (میانہ روی )کو اختیار کرتا ہے ، اللہ اسے غنی بنادیتا ہے ، جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ اس کو فقیر بنادیتا ہے ، جو تواضع (انکساری) اختیار کرتا ہے، اللہ اس کو بلندی عطافرمادیتا ہے ، اور جو ظلم زیادتی اور تکبر کرتا ہے اللہ اسے توڑدیتا ہے‘‘
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی سنا ہے:
من تواضع لله رفعهُ اللهُ، فهو في نفسِه صغيرٌ، وفي أَعْيُنِ الناسِ عظيمٌ، ومن تكبر وضعهُ اللهُ، فهو في أَعْيُنِ الناسِ صغيرٌ، وفي نفسِه كبيرٌ ؛ حتى لَهُوَ أَهْوَنُ عليهم من كَلْبٍ أو خِنْزيرٍ .(شعب الایمان للبیقہی: ۷۷۹۰)
’’جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر توا ضع اختیار کرتا ہے ، اللہ اسے بلند کردیتا ہے ، اور ایسا شخص اگرچہ کہ خود کو کم تر سمجھتا ہے ،لیکن وہ لوگوں کی نگاہ میں باعظمت ہوتا ہے ، اور جو تکبر کرتا ہے اللہ اس کو ذلیل کردیتا ہے ، چناں چہ تکبر کرنے والا شخص گرچہ کہ خود کو بڑا سمجھتا ہے لیکن وہ لوگوں کی نظر میں کم تر بلکہ خنزیر یا کتے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجاتا ہے‘‘
نبی اکرم ﷺ نے جن خوبیوں کی تعلیم دی ہے آپ کی ذات میں وہ تمام خوبیاں کامل درجہ پر موجود تھیں ، چناں چہ آپ ﷺ محبوب رب العالمین ، سید الانبیاء والمرسلین ، شاہ کونین ہونے کے باوجود اعلی درجہ کے منکسر المزاج اور متواضع تھے،اور آپ کی مجلس ، لوگوں سے آپ کی ملاقات، آپ کی نشست وبرخاست ، آپ کی گفتگو وغیرہ میں کوئی شاہانہ نخرے نہ تھے،جیسا کہ بہت سے واقعات اس پر شاہد ہیں،آپ ﷺ صحابہ کرام سے مزاح فرمایا کرتے تھے ،بلکہ کئی بار صحابہ کرام بھی آپ ﷺسے مزاح فرماتےتھے،آپﷺ تک رسائی آسان تھی، اور آپ ﷺ ہر ایک کے کام آیا کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک پاگل عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ آپ ﷺ سے مجھے ایک کام ہے ، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ بتاؤ میں تمہارے کام انجام دینے کے لئے کدھر اور کہاں چلوں؟ چناں چہ آپ ﷺ کسی راستہ پر اس کے ساتھ گئے اور اس کی ضرورت پوری کردی (مسلم: ۲۳۲۶)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے دست مبارک سے برکت لینے کی خاطر اپنے پانی میں دست مبارک ڈالنے کی درخواست کرتے تو اسے رسول اللہ ﷺ قبول کرلیتے حتی مدینہ کے خدام سخت سردی کے موسم میں پانی لے کر آجاتے اور آپ ﷺ پانی میں دست مبارک ڈال دیتے(مسلم: ۲۳۲۴)
آپ ﷺ نے بڑوں کی تعظیم کے حوالے سے یہ تعلیم دی ہےکہ ان کے استقبال میں ان کی تعظیم کرتے ہوئے مجلس میں موجود افراد کھڑ ے ہوجائیں ، لیکن آپ ﷺ نے خود اپنے لئے اس تعظیم کو پسند نہیں فرمایا، اور اس عمل سے آپ کی ناگواری کی وجہ سے صحابہ کرام ؓ آپ کے لئے کھڑے نہیں ہوتے تھے(مسند احمد: ۱۲۳۴۵)
مجلس میں آپ ﷺاس قدر متواضع ہوا کرتے کہ صحابہ ؓ کے ساتھ مل کر بیٹھتے،چناں چہ کسی امتیاز کے نہ ہونے کی وجہ سے نو واردین آپ کو پہچان نہیں پاتے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوںنے چاہا کہ حضور اکرم ﷺ کے لئے مسند وغیرہ بنا دیں جس کی وجہ سے اجنبی شخص جب آپ کے پاس آئے تو آپ کو پہچان لے، چناں چہ ہم لوگوں نے ایک مٹی کا چبوترہ بنایا ، آپ ﷺ اس پر بیٹھتے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھتے(ابوداؤد: ۴۶۹۸)
آپ ﷺ کا یہ تواضع ہی تھا کہ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنا کرتے تھے، اور گدھے پر سوار ہوکر سفر کرلیا کرتے تھے، غزوہ خیبر میں آپﷺ گدھے پر سوار تھے ، جس کی رسی کھجوڑ کی چھال سے بنی ہوئی تھی اور جس زین پر آپ ﷺ بیٹھے تھے وہ بھی کھجور کی چھال سے بنا ہوا تھا (سنن ابن ماجہ: ۴۱۷۸) حالانکہ مالدار صحابہ جس طرح آپ ﷺپر جاں نثار تھے اور فتوحات کی وجہ سے بیت المال میں جو دولت کی کثرت تھی اس سے آپ قیمتی جوڑے زیب تن کرسکتے تھے اور اس زمانہ کے سب سے قیمتی اونٹ کو سواری بنا سکتے تھے۔
گھریلو زندگی میں آپ ﷺاس قدر متواضع تھے کہ گھر کے کام کاج میں گھر والوں کے ساتھ شریک رہتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جتنی دیر رسول اللہ ﷺ گھر میں رہتے گھر کے لوگوں کے کام انجام دینے میں مصروف رہتے، اور جب اذان ہوجاتی تو آپ چلے جاتے(بخاری: ۶۷۶)
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول منقول ہے کہ آپ ﷺ اپنے جوتے اور کپڑے خود سل لیتے، جس طرح عام لوگ اپنے گھروں میں کام کرتے ہیں آپ ﷺ بھی کیا کرتے تھے(مسند احمد: ۲۵۳۴۱)
آپ ﷺ کے تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ کی نظر میں امیر وغریب کا کوئی امتیاز نہیں تھا، اور آپ ﷺ محتاج اور غریبوں کی دعوت بھی قبول کرتے تھے اور خود آپ نے اپنے بارے میں فرمایاکہ اگر مجھے جانور کے کھر کی بھی دعوت دی جائے یا اسے ہدیہ میں پیش کیا جائے تو میں قبول کروں گا۔(بخاری: ۲۵۶۸)
اور جب کوئی شخص آپ ﷺسے بات کرنے میں گھبراتا تو اس کی گھبراہٹ کو دور کرتے اور اس کی پوری بات سنتے ، کسی کی بات سننے میں جلد بازی یا اکتاہٹ کا اظہار نہ فرماتے ، فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص آپ ﷺ سے کچھ باتیں کرنے کے لئے آپ کی مجلس میں حاضر ہوا، جب آپ ﷺسے وہ مخاطب ہوا تو ہیبت کے مارے کانپنے لگا،تو آپ ﷺ نے اس کو سمجھایا اور فرمایا کہ ڈرو مت ، میں تواسی قبیلہ قریش کی ایک خاتون کا بیٹا ہوں جس قبیلہ کے لوگ (غربت کی وجہ سے )دھوپ میں سکھایا ہوا گوشت کھاتے تھے(مستدرک حاکم: ۴۳۶۶)
اسی فتح مکہ کے موقع پر جب آپﷺ مکہ میں فاتحانہ داخل ہورہے تھے تو آپ ﷺ کے مکہ میں داخل ہونے کا انداز شاہانہ نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ مکہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک جھکارکھا تھا۔
اسی طرح آپ ﷺ کے تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ غریبوں،کمزوروں اور غلاموںکی عیادت کیا کرتے تھے،ان کے گھروں کو جایا کرتے تھے، اور جب کسی سے مصافحہ کرتے تو جب تک سامنے والا خود اپنا ہاتھ آپ ﷺکے ہاتھ سے نہ کھینچنا آپ ﷺ بھی اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ کھینچتے، جب تک بات کرنے والا خود چہرہ نہ پھیرتا آپ ﷺ بھی اس کی طرف متوجہ رہتے اور اس سے چہرہ نہ پھیرتے ، کبھی بھی آپ ﷺ کو اپنے بازو میں بیٹھے ہوئے شخص سے آگے بڑھ کربیٹھتے ہوئے اور اس کے گھٹنے سے اپنے گھٹنوں کو آگے بڑھاتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا (تاریخ دمشق لابن عساکر: ۲۲۰۹)
کمالات کی تمام تر بلندی کو پیچھے چھوڑنے اور افضل الانبیاء ہونے کی باوجود اپنے بارے میں یہ کہتے کہ کسی کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ میرے بارے میں یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں(بخاری: ۳۳۹۵) بلکہ کئی موقع پر آپ ﷺنے دیگر انبیاء کی بعض صفات کی تعریف فرمائی اور ان کو بہتر بتایا، مثلا حضرت یوسف علیہ السلام کو جب طویل عرصہ جیل میں گزارنے کےبعد رہائی کی خبر ملی تو وہ جیل سے فوراباہر نہیں آئے، بلکہ صبر و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلےاپنی انگلیاں کاٹنے والی عورتوں کے بارے میں بتاؤ، یعنی کیا اس مقدمہ میں ان کی غلطی اور میری پاکبازی ظاہر ہوئی یا نہیں؟ رسول اللہ ﷺ حضرت یوسف علیہ السلام کے اس حلم اورصبر واستقلال کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام نے جتنے دن جیل میں گزارا، اگر میں گزارا ہوتا تو میں فورا رہائی کی خبر کو قبول کرتے ہوئے باہر آجاتا(مسلم: ۱۵۱)حالانکہ خود آپ ﷺ حلم وبردباری اور صبر واستقلال کے سراپا پیکر تھے۔
بہر حال آپ افضل الانبیاء ہونے کے باوجود اپنی افضلیت کا اظہار نہیں کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی تعریف میں غلو کیا تم لوگ میرے بارے میں اس طرح غلو مت کرنا، مجھے تم اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو(صحیح بخاری : ۳۴۴۵)
یقینا آپ ﷺکی ذات خوبیوں کا حسین گلدستہ تھی اور آپﷺ اعلی صفات ، عمدہ اخلاق کے پیکر مجسم تھے۔
فَصَلَّی اللہُ عَلَی سَیِّدِنَا محمدٍ وَّعَلی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَبَارَکَ وَسَلَّم تَسْلِیْماکثیراً
Comments are closed.