’نفسیاتی جنگ‘ کی برتری… 

 

ودود ساجد

 

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نفسیاتی جنگ میں حماس نے اسرائیل پر برتری حاصل کرلی ہے۔ کم و بیش 16 مہینوں کی وحشیانہ جنگ کے دوران دوسری مرتبہ ہونے والے جنگ بندی کے معاہدہ کے تحت حماس کی قید سے جتنے بھی یرغمال چھوٹ کر گئے خوش و خرم اور اچھی صحت کے ساتھ گئے لیکن اسرائیل کی جیلوں سے جتنے بھی فلسطینی قیدی واپس آئے اپنی جبینوں اور اپنے جسم و جاں پر ظلم و جبر کی درجنوں داستانیں لکھ کر لائے۔۔۔

 

سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملہ کے بعد جو جنگ شروع ہوئی تھی اس پر عارضی طور پر ایک ہفتہ کیلئے نومبر 2023 میں بریک لگا تھا۔ اس وقت حماس نے 100 سے زائد اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کردیا تھا۔ ان کے عوض 300 کے قریب فلسطینی اسرائیل کی جیلوں سے رہا ہوئے تھے۔ لیکن اس کے بعد جاری ہونے والی جنگ نے وحشیانہ ظلم و جبر کے سارے ریکارڈ توڑ دئے۔ اتنے عرصہ کے بعد اب 19 جنوری 2025 سے نافذ ہونے والی 42 روزہ جنگ بندی نے صرف فلسطینی عوام کیلئے ہی امید کی نئی شمع روشن نہیں کی ہے بلکہ اس سے اسرائیل کے عوام بھی راحت محسوس کر رہے ہیں۔ چوتھے مرحلہ میں چھوٹ کر جانے والےاسرائیلی یرغمالوں کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ دونوں طرف رہائی کے عمل سے ’انسان کی روح‘ کی کامیابی ہوئی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جنگ مستقل طور پر بند کی جائے۔

 

اس بار ایک اسرائیلی یرغمال کے بدلے 50 فلسطینی رہا ہو رہے ہیں۔ ان میں 30 وہ ہیں جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ دوسری طرف 16 مہینوں کی درندگی میں 61 ہزار سے زیادہ لوگوں کو شہید‘ ایک لاکھ سے زیادہ کو زخمی اور 90 فیصد غزہ کوتباہ و برباد کرنے کے بعد اسرائیلی فورسز اب مغربی کنارہ کے شہر ’جنین‘ اور جنین کیمپ پر حملے کر رہی ہیں۔ ان حملوں میں اب تک 40 سے زیادہ لوگ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ اسی طرح رفح میں بھی اسرائیلی فورسز نے حملے کرکے دس سے زیادہ لوگوں کو شہید اور درجنوں کو زخمی کیا ہے۔ اس کے علاوہ بے قصور فلسطینیوں کی گرفتاری بھی جاری ہے۔۔۔

 

یہاں یہ اعادہ ضروری ہے کہ فلسطین اس وقت موٹے طور پر تین حصوں میں منقسم ہے۔ مغربی کنارہ پر فتح کے سربراہ محمود عباس کا انتظام ہے جسے فلسطینی اتھارٹی کہا جاتا ہے۔ فتح اور اسرائیل کے درمیان مختلف سمجھوتوں پر اتفاق ہے۔ لیکن یہاں بھی اسرائیلی فورسز موجود ہیں۔ جس علاقہ میں بیت المقدس واقع ہے اس کا مکمل انتظام اسرائیلی فورسز کے پاس ہے۔ جبکہ غزہ پر ابھی تک حماس کی حکومت ہے اور یہاں اس نے مزاحمت کا راستہ نہیں چھوڑا ہے۔ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اسرائیل نے تینوں حصوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے اور خود ان تینوں کے درمیان بس گیا ہے۔ یہ دراصل اس کی منظم حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت اس نے اپنی دانست میں اہل فلسطین کی طاقت کو کمزور کرکے خود کو مضبوط کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ اسے اس طرح ان تینوں حصوں میں مسلسل اپنے ناجائز قبضوں کی توسیع میں بھی آسانی ہوگئی ہے۔

 

اسرائیل اپنی سرحد کے چاروں طرف ان یہودیوں کی کالونیاں تعمیر کر رہا ہے جنہیں دنیا بھر سے لایا گیا ہے۔ ان میں بیشتر تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی سرشت انتہائی خطرناک ہے اور جن میں ناپسندیدہ عناصر کی اکثریت ہے۔ انہیں اسرائیل نے خطرناک ہتھیار بھی فراہم کر رکھے ہیں۔ یہ شرپسند اہل فلسطین سے مسلسل جارحانہ چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ یہ داستان بہت طویل ہے لیکن بس اتنا سمجھنا کافی ہے کہ ان شرپسندوں کے خلاف اکثر اسرائیل کی عدالتیں تک اسرائیلی پولیس کو احکامات جاری کرتی رہتی ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر جوبائیڈن نے تو ان پر پابندی عاید کردی تھی۔۔ اب ٹرمپ نے وہ پابندی ہٹالی ہے۔۔

 

حماس نے جنگ بندی کے اس دوسرے مرحلہ کے چاروں ادوار میں اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کو جس طرح عوامی تقریبات میں تبدیل کیا اس پر اسرائیل شدید ہزیمت کا شکار ہے۔ رہائی کے ان مواقع پر حماس کے سینکڑوں بندوق برداروں نے جس طرح غزہ کی مختلف سڑکوں اور تباہ شدہ مکانات کے ملبوں پر اپنی طاقت‘ تدبر اور سفارتی شعور کا مظاہرہ کیا ہے اس سے بھی اسرائیل اور خاص طور پر نتن یاہو شدید بر افروختہ ہیں۔ چاروں مرحلوں میں جس طرح جگہ بدل بدل کر اور اسٹیج لگاکر یرغمال فوجی خواتین کی حوالگی کے دستاویزات پر دستخط کئے گئے اس نے پوری دنیا میں اسرائیل کو رسوا کیا۔ چاروں مرحلوں میں حماس نے رہائی کا مقام بدل کر نہ صرف اپنی طاقت‘ عزم اور بے خوفی کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ ہم پوری طرح سے غزہ میں ہی موجود ہیں۔۔۔

 

اسرائیل کے لئے اس سے بڑی ہزیمت کیا ہوگی کہ اتنی تباہی برپا کرنے کے باوجود وہ ان چند ہزار بندوق برداروں کو نہ پاسکا۔ الجزیرہ کے مشہور تجزیہ کار ’مروان بشارہ‘ نے درست کہا ہے کہ حماس 95 فیصد نفسیاتی جنگ لڑ رہا ہے‘ ہتھیاروں کی جنگ تو محض پانچ فیصد ہے۔ یہ بھی نفسیاتی حربہ ہی تھا کہ ایک اسرائیلی فوجی خاتون کو حماس کے شہید قائد یحیی سنوار کے مکان کے باہر رہا کیا گیا۔ پیچھے جو بڑے بڑے بینر لگائے گئے ان پر عربی اور عبرانی زبان میں نعرہ لکھا گیا۔ ایک نعرہ یہ تھا کہ ’’صہیونی کبھی کامیاب نہیں ہونگے‘‘۔ اس نعرہ کو ساری دنیا نے دیکھا اور پڑھا ۔ اسرائیلی شرپسندوں کو کیسا لگا ہوگا جب انہوں نے اس نعرہ کو اپنی عبرانی زبان میں لکھا دیکھا ہوگا۔۔ ایک اہم واقعہ یہ ہوا ہے کہ قسام کے جس قائد ھیثم الحواجری کو اسرائیل نے قتل کردینے کا اعلان کیا تھا امریکی اسرائیلی شہری کیتھ سیگال کی حوالگی کی دستاویز پر اسی نے دستخط کئے۔۔

 

فلسطین کے ایک اہم رہ نما اور مشہور دانشور مصطفی برغوثی نے زور دے کر کہا ہے کہ اس وقت سب سے پہلی ضرورت خود فلسطین کے تمام متحارب گروہوں کے اتحاد کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر تمام گروہوں میں اتحاد نہ ہوا تو مسئلہ فلسطین کبھی حل نہیں ہوگا۔ حماس نے کہا ہے کہ ہم صہیونی اقدامات کے عواقب سے خبر دار کرتے ہیں اور ہماری سرزمین پر قبضہ کرنے والی صہیونیت سے نپٹنے کیلئے فلسطینی گروہوں سے اپنی صفوں میں اتحاد کی اپیل کرتے ہیں۔ گوکہ فتح کے سربراہ محمود عباس بھی اسرائیلی اقدامات کے خلاف بول رہے ہیں لیکن ان کی پولیس حماس کے لوگوں پر ظلم بھی ڈھا رہی ہے۔۔

 

اسرائیل اب الگ فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اسرائیل کے وزیر رومن ڈرمر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم نے سعودی عرب سے الگ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ اس بیان کی اس لئے اہمیت ہے کہ یہ خبریں آرہی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان خوشگوار مراسم قائم کروانے کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں۔ ٹرمپ کا وہ بیان تو پوری دنیا نے حیرت سے سنا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے عربوں کیلئے اتنا کچھ کیا ہے اب انہیں بھی ہمارے لئے یہ کرنا ہوگا کہ غزہ کی پوری آبادی کو اپنے یہاں بسانا ہوگا۔ انہوں نے خاص طور پر اردن اور مصر پر زور دیا ہے کہ وہ تباہ شدہ غزہ کے اجڑے ہوئے مکینوں کو اپنے یہاں بسالیں۔ لیکن ایک طرف ان ملکوں نے بھی انکار کردیا ہے اور دوسری طرف خود اہل غزہ بھی اپنی سرزمین چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ گزشتہ روز ہی عرب ممالک نے بیک آواز ٹرمپ کی اس احمقانہ تجویز کو مسترد کردیا ہے ۔۔

 

جنگ بندی کے تازہ مرحلہ نے ایک بار پھر پوری دنیا کے سامنے اسرائیل کی درندگی اور حماس کی انسانی حمیت کو اجاگر کردیا ہے۔ حماس کے قبضہ سے رہا ہونے والی خواتین فوجیوں کے ساتھ حماس نے جو حسن سلوک کیا اس کا اندازہ ان خواتین کی ظاہری صحت کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ خود اسرائیل کے سرکاری ہسپتالوں نے‘ جہاں ان خواتین کو لے جا کر ان کا چیک اپ کرایا گیا‘ کہا ہے کہ یہ سب فوجی خواتین ایک سال سے زیادہ عرصہ تک قید و بند میں رہنے کے باوجود چاق و چوبند اور ذہنی و جسمانی طور پر فٹ ہیں۔ جس وقت انہیں غزہ میں حماس کی گاڑیوں سے ریڈ کراس کی گاڑیوں میں منتقل کیا گیا تو اس وقت بھی رہا شدہ اسرائیلی خواتین کے چہروں پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی۔ ان میں سے ہر ایک کو ان کے مسلح محافظوں نے ایک ایک تھیلا اور رہائی سرٹیفکیٹ پیش کیا۔ تھیلوں میں کچھ کھانے کی اشیاء‘ پانی اور ان یرغمال خواتین کے وہ تمام فوٹو تھے جو غزہ میں دوران قید کھینچے گئے تھے۔

 

رہا شدہ خاتون ایملی ڈیماری نے اسرائیل پہنچ کر کہا کہ میں روئے زمین پر سب سے زیادہ خوش انسان ہوں۔ لیکن دوسری طرف اسرائیل کی قید سے رہا ہوکر آنے والی فلسطینی خواتین نے بتایا کہ ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا اور انہیں اس وقت تک ضروری دوائیں نہیں دی گئیں جب تک انہوں نے اسرائیلی عدالتوں سے احکام حاصل نہ کرلئے۔ غزہ سے بھی بہت تشویشناک خبریں آرہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جیلوں سے واپس آنے والے بیشتر لوگ متعدی قسم کی خطرناک بیماریاں لے کر آئے ہیں۔ مزید براں یہ کہ اسرائیل نے جو بمباری کی ہے اس کے نتیجہ میں خود غزہ میں نہ صرف فضا بلکہ خاک بھی بارود آمیز ہوگئی ہے۔

 

غزہ میں حماس انتظامیہ کے میڈیا آفس نے کچھ تفصیلات جاری کی ہیں۔ ان کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 61 ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے۔ ان میں ان لوگوں کی تعداد بھی شامل کرلی گئی ہے جن کی لاشیں جنگ بندی نافذ ہونے کے بعد بر آمد ہوئی ہیں۔ ان میں جو لوگ غائب ہیں انہیں بھی شہید تسلیم کرلیا گیا ہے۔ 470 ا یام میں اسرائیل نے 10 ہزار 100 بار قتل عام مچایا۔ 2092 فلسطینی خاندان ایسے ہیں کہ جن کے گھر کا ہر فرد شہید ہوگیا ہے۔ 4889 فلسطینی خاندان ایسے ہیں کہ جن کے ایک یا دو فرد کو چھوڑ کر باقی تمام افراد شہید ہوگئے ہیں۔ 12 ہزار 316 خواتین اسرائیل کی شدید بمباری میں شہید ہوئیں جس کے نتیجہ میں لاتعداد بچے بغیر ماں کے اور ان گنت شوہر بغیر بیوی کے رہ گئے۔

 

38 ہزار 495 بچے ایسے ہیں جو اپنے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بچوں کی یہ نسل جب بڑی ہوگی تو اس کے ذہن و دل پر کیا اثرات ہوں گے اور پھر اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ اسی طرح 16 ماہ کی جنگ کے دوران غزہ کے 17 ہزار 835 بچے مارے گئے۔ ان میں 808 بچے وہ تھے جن کی عمر محض ایک سال تھی۔ سات اکتوبر 2023 کے بعد پیدا ہونے والے 214 بچوں کو بھی قتل کیا گیا۔ 1155 کی تعداد میں میڈیکل اسٹاف شہید ہوا۔ 94 ڈیفینس کے رضاکار مارے گئے۔ 1992 کے بعد اسرائیل نے اس جنگ میں 205 صحافیوں اور کیمرہ مین کو شہید کیا۔ ان میں بڑی تعداد قطر کے معتبر ترین چینل الجزیرہ سے متعلق عملہ کی تھی۔ اسرائیل نے جان بوجھ کر ان پر نشانہ لگاکر انہیں شہید کیا۔

 

اسرائیل کی جیلوں سے اب تک 30 کم سن بچے بھی چھوٹ کر آئے ہیں۔ 60 فیصد تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیں کئی کئی بار عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جو جیلوں میں بیس بیس اور تیس تیس سالوں سے بند تھے۔ تجزیہ نگار زیویر عید نے بتایا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل نے 1967 سے اب تک دس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کیا‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً ہر خاندان کا ایک فرد گرفتار ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کبھی منصفانہ شنوائی کا موقع نہیں دیا گیا۔ اب تو اسرائیلی جیلوں میں ٹارچر اور عصمت ریزی تک کے واقعات ہو رہے ہیں۔ لہذا ایسے میں یرغمالوں کے عوض ایسے قیدیوں کی رہائی اہل فلسطین کے لئے ایک قومی خوشی سے کم نہیں ہے۔ 19 جنوری 2025 سے اب تک نتن یاہو ایک سے زائد بار اپنی کابینہ کی میٹنگ کرکے جنگ بندی کا معاہدہ توڑنے کی دھمکی دے چکے ہیں لیکن اسرائیل کے عوام کے دبائو کے سبب وہ ایسا نہیں کرسکے۔

 

رہائی کے تیسرے دور میں حماس کے بندوق برداروں کے ہاتھوں میں جدید ترین اسرائیلی ہتھیار تھے۔ جبکہ چوتھے دور میں ان کے پاس خود غزہ میں بنائی گئی ’غول‘ نامی اسنائپر رائفل تھیں۔ حماس کے عسکری و نگ قسام نے 2014 میں پہلی بار ویڈیو جاری کرکے بتایا تھا کہ اس نے غزہ میں اپنی بنائی گئی اسنائپر رائفل کا استعمال شروع کردیا ہے۔ آج ان رائفلوں کو سینکڑوں بندوق برداروں کے ہاتھوں میں دیکھ کر نتن یاہو کو ضرور نفسیاتی جھٹکا لگا ہوگا۔ اگر انتہائی کمزور‘ قلاش اور مظلوم قوم اتنی بڑی دنیاوی طاقت کو جھٹکے دے رہی ہے تو یہ برتری کے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔

Comments are closed.