ایک مشاہدہ اسرائیل اور فلسطین کے قیدیوں کی رہائی کا

 

عمر فراہی

 

دونوں تصویروں کو غور سے دیکھیں ۔ایک تصویر رہا ہونے والے فلسطینی قیدی کی ہے اور دوسری تصویر اسرائیل کے اس قیدی کی ہے جسے سات اکتوبر کو حماس نے یرغمال بنا لیا تھا ۔دونوں ہی قیدیوں کو جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کیا گیا ہے ۔ایک فریق کا تعلق ایک ایسی ریاست سے ہے جس کا دعوی ہے کہ پورے مشرق وسطی میں وہی ایک مہذب جمہوری ریاست ہے جہاں لوگوں کے حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے باقی عرب ممالک میں عوام کو یہ آزادی حاصل نہیں ہے ۔دوسرا فریق غزہ کے ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جسے دنیا حماس کے نام سے ایک ملیٹنث تنظیم کے طور پر جانتی ہے ۔دونوں ہی فریقوں کی طرف سے اپنے قیدیوں کے تبادلے کی کاروائی اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والی عالمی تنظیم ریڈ کراس کے ذریعے انجام دی جارہی ہے لیکن قیدیوں کی رہائی کے تبادلے میں دونوں فریق کے طریقۂ کار اور سلوک میں بڑا فرق بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔

دنیا یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ ایک مہذب جمہوری ریاست کا دعوی کرنے والی ریاست اسرائیل کے قیدی باعزت طریقے سے ریڈ کراس کے حوالے کئے جائیں گے جبکہ حماس کی قید سے رہا ہونے والے اسرائیلی قیدیوں کی حالت بہت اچھی نہیں ہوگی اور شاید ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا ہوگا ۔لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے ۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق بہت سے فلسطینی قیدیوں کو بے تحاشا تشدد سے گزارا گیا ہے اور اس دوران ہاتھ پیر کی ہڈیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں ۔

اس تصویر میں جو فلسطینی قیدی اسرائیل کی طرف سے رہا کرکے ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا اس کے دونوں ہاتھ زنجیروں میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ وہ دونوں ہاتھوں کے درمیان سے اپنا سر بھی نہیں اٹھا سکتا جس پر ریذکراس نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا لیکن اسرائیل کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے !

اس کے برعکس دوسری تصویر میں جو اسرائیلی فوجی رہا کیا جارہا اس کے دونوں ہاتھ نہ صرف آزاد ہیں اس کی جو ویڈیو نشر ہوئی اس میں یہ قیدی لوگوں کو ہاتھ ہلا کر سلامی بھی پیش کر رہا ہے اور اس کے ہاتھ میں دو تھیلا بھی ہے ۔اس تھیلے میں حماس کی طرف سے اس قیدی کو تحفہ دیا گیا ہے ۔آپ کہیں گے کہ اسے دو تھیلا کیوں دیا گیا تو بتا دیں کہ ایک تھیلے میں اس کا اپنا تحفہ ہے جبکہ دوسرا تھیلا اس کی بیوی کو تحفے کے طور پر دیا گیا ہے جسے ایک سال پہلے حماس نے ایک معاہدے کے تحت تحفے دے کر رہا کردیا تھا جس کی تصویریں میڈیا میں آ چکی ہے کہ کیسے یہ خاتون قیدی ہنستے ہوۓ حماس کے جوانوں کو الوداع کر رہی تھیں اور انہوں نے ان کے حسن و اخلاق کی بھی تعریف کی تھی ۔ پچھلے مضمون میں بھی ہم نے ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں اسی ہفتے رہا کی گئی ایک فوجی خاتون جاتے ہوئے ہنس کر حماس کے ایک جوان کو چھیڑ رہی تھی ۔اس بار حماس کے جوانوں نے پھر سے رہا کی گیی فوجی کی بیوی کو اس کے شوہر کے ہاتھ تحفہ بھیجوایا ہے ۔شاید وہ یہ بتانا چاہتے ہوں کہ وہ اسے بھولے نہیں ہیں ۔ویسے حماس نے ابھی تک جتنے بھی اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا ہے انہیں تحفے دے کر روانہ کیا ہے اور ہو سکتا ہے ذاتی طور پر ان سے معذرت بھی کی ہو کہ انہیں یرغمال بنانا ان کی سیاسی مجبوری تھی ۔

اندازہ لگائیں کہ باہر کی دنیا کے لوگ جو غزہ میں موجود نہیں ہیں وہ اسرائیلی درندگی کو دیکھ کر چیخ اٹھے ہیں اور کبھی کبھی تو اسرائیلی مظالم کی کچھ تصویروں کو دیکھنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی لیکن غزہ کے ان جوانوں کو اللہ نے کتنا صبر اور ح صلہ دیا ہے اور وہ کتنے بہادر ہیں کہ دشمن‌ سے بدلہ لینے کی بجاۓ ان کے ساتھ بھی حسن و سلوک کا مظاہرہ کرنا نہیں بھولے ہیں ۔بلا‌ شبہ یہ کردار اسلامی تعلیمات اور تربیت ہی سے پیدا ہو سکتا ہے نہ کہ نام نہاد نظریہ سیکولرزم اور لبرلزم سے جس نے پچھلے ایک سالوں سے دنیا کو آگ اور خون سے رنگ دیا ہے جس کی سیکڑوں مثالیں ہیں جس میں تازہ مثال غزہ کی ہے لیکن کیا مہذب دنیا کے ٹھیکیدار حماس کے اس اسلامی کردار کو تسلیم کریں گے ؟

شاید نہیں کیوں کہ ان کی اصل دشمنی اہل غزہ اور حماس سے نہیں نظریہ اسلام سے ہے جو ان کے استعماری عزائم کی اصل رکاوٹ ہے ۔مغرب کے بہت سے مصنفین جیسے کہ پروفیسر سموئیل ہٹنگنٹں اور فرانسس فوکو ہاما پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ مغرب رفتہ رفتہ ایک زبردست تہذیبوں کے تصادم کے دلدل میں پھنستا چلا جارہا ہے اور اس کے نظریہ لبرلزم کے لئے اسلام سب سے بڑا چیلنچ ہے ۔

Comments are closed.