اسلام ہمارا پسندیدہ مذھب کیوں؟( 2)

دوسری قسط

 

مولانا احمد حسین قاسمی

امام و خطیب مسجد دار ارقم گوونڈی ممبئی

 

دلیل نمبر1_مذہب اسلام کی مذاہب عالم پر باعتبار نام کے فوقیت اور برتری!

اللہ تبارک و تعالی کاپاک إرشاد ہے” ان الدين عند الله الإسلام ” اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک پسندیدہ دین دین اسلام ہی ہے” و من يبتغ غير الاسلام دينا فلن يقبل منه و ھو فی الآخرة من الخسرین”اور جوکوئی دین اسلام کےعلاوہ کوئی دوسرا دین تلاش کرے تو وہ ہرگز ہرگز اس کی طرف سے قبول نہ کیا جائے گا” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا” آج کے دن میں نے تمھارے دین کو مکمل کر دیا، اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کو تام کر دیا اور تمھارےواسطے اسلام کو بطور دین کے پسند کرلیا،

اللہ تبارک وتعالی نے مختلف زمانوں میں مختلف مذاہب وادیان دنیا میں بھیجے ہیں، اور وہ سارے ادیان و مذاہب اپنے اپنے زمانوں میں حق اور سچ، واجب الاتباع اور مدار نجاۃ تھے، کوئی بھی دین و مذھب جسیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کسی پیغمبر پر اتارا وہ اپنے زمانہ کے لحاظ ناقص اور ادھورا یا قابل تنقید و تنقیص نہیں تھا، بلکہ تمام ادیان و مذاہب سماویہ اپنے اپنے دور کے اعتبار سے پورے پورے کامل ومکمل اور ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک تھے، اور آج بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو ادیان و مذاہب اور کتب و شرائع اپنے انبیاء کرام پر نازل فرمائے ان میں لاکھوں تحریفات کے باوجود ہم ان پر مجموعی طور پر اس طرح ایمان و یقین رکھتے ہی کہ اللہ رب العزت نے جو کچھ نازل فرمایا وہ من وعن حق اور سچ تھا، ہے اور قیامت تک رہے گا، تحریفات سے کلی انکار و بیزاری اور برآءت کے ساتھ،

علاوہ ازیں دنیا میں ہزاروں ادیان ومذاہب ایسےبھی ہوئے ہیں جنھیں انسانوں نے خود اپنے آباء واجداد کی اندھی تقلید میں ان کی جاہلانہ رسموں اور رواجوں کو دین و مذہب کا نام دے دیا، یانفس و شیطان اور اپنی ھواء و ہوس کی اتباع اور پیروی میں اپنے اوہام وخیالات کو دین و مذہب کے طور پر گھڑ لیا،اور اسے مذہب کا نام دےدیا، ایسے کتنے ادیان و مذاہب زمین پر خود انسانوں کے ہاتھوں بنے اور بے نام و نشان ہو گئے اور کتنے آج بھی دنیا میں موجود ہیں جو سرے سے بے سند اور بے دلیل اوہام و خیالات شیطانی کاپلندہ، جھوٹےافسانوں اوربے سروپا دیو مالائی کہانیوں سے پر ہیں، وہ ہماری بحث سےخارج اور لا اعتبار ہیں، إن سے کوئی تقابل نہیں بلکہ تقابل ان مذاہب وادیان سے ہےجو معروف ومشہور اور قابل ذکر ہیں،،

الغرض وہ تمام مشہور و معروف اور قابل ذکر ادیان ومذاہب میں مذہب اسلام کی برتری اور تفوق باعتبار نام کے اس طور پر ہے کہ دیگر تمام مذاہب و ادیان کسی شخصیت یا کسی قوم اور قبیلے کے نام سے موسوم ہو کر مشہور ہوئے،

مثلا یہودی مذہب ہے! یہود دراصل ایک قبیلے کا نام ہےجو حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان کا اور کتاب تورات جو حضرت موسی علیہ پر نازل ہوئی اسکی اتباع کامدعی ہےاسی قبیلے کی طرف منسوب ہو کر یہودی مذہب مشہور ہوا ہے، اگرچہ اب نہ حضرت موسی علیہ السلام پر انکا ایمان ہے اور نہ تورات پر عمل، صرف دعوی ہی دعوی رہ گیاہے،یابعض حضرات نےکہا ہےکہ ھود کےمعنی توبہ کرناہے،جن بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پرستش کرنے کے بعد توبہ کیا تھا انکی طرف منسوب ہو کر یہ نام مشہور ہوا ہے، اور بعض حضرات کاکہنا ہےکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بڑے بیٹے کا نام یھودا تھا اسکی طرف نسبت کی گئی ہے، واللہ اعلم،

اسی طرح عیسائی مذہب حضرت عیسی علیہ السلام کے نام سے مشہور ہو گیا، اور دوسرا نام اسکا نصرانیت ہے اور عیسائی قوم کانام نصاریٰ ہے، اس کی وجہ بعض نے کہا نصرۃ ایک شہر کا نام ہےجہاں حضرت عیسٰی علیہ السلام اترےتھے اسکی طرف منسوب ہے، اور بعض کا کہنا ہے کہ نصران ملک شام کے ایک شہر کا نام ہے اس کی طرف منسوب ہے، یا پھر قرآن پاک میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اپنی قوم سے جو خطاب مذکور ہے ” من انصاری إلی اللہ قال الحواریون نحن انصار أللہ” اس کی وجہ سے یہ نام نصاری یا نصرانیت مشہور ہو گیا،

بودھ مست یا بودھ مذہب گوتم بودھا کے نام سے اور زرتشت اسکے بانی کے نام سے مشہور ہوگیا، اسیطرح دنیا کےاندر جتنے ادیان و مذاہب ہیں وہ سب یا تو کسی ایک شخصیت کے نام یا کسی خاندان یاقوم اورقبیلہ کے نام یا کسی شہر اور وطن وغیرہ کے نام کی طرف منسوب ہو کر مشہور ہوئے ہیں، صرف مذہب اسلام ہی کی یہ خصوصیت ہےکہ وہ خالص اپنے مذھبی نام یعنی اسلام سےمشہور ہے،کیونکہ اسلام کسی شخص، کسی قوم یاقبیلہ کانام نہیں ہے،بلکہ اسلام بذات خود مذہب ہی کا نام ہے، اور اس کے پیرو کاروں کا نام بھی اسم بامسمیٰ کے طور پر مسلمان ہے، کیونکہ اسلام کے معنی ہیں اتباع اور پیروی کے، لہذا دنیا کے تمام ادیان ومذاہب میں اسلام ہی کا یہ طرۂ امتیاز اور وجہ افضلیت وپسندیدگی ہے،

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خلیل سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان مبارک سے مذہب اسلام کا نام اسلام اور اس کے پیروکاروں کا نام مسلمان رکھوایا اور اپنی کتاب مبین قرآن مقدس میں اسکا اعلان فرمایا” ملۃ ابیکم ابراہیم ھو سمٰکم المسلمین من قبل و فی ھذا”یہ تمھارے باپ ابراہیم کا مذہب ہے، انھوں نے ہی تمھارا نام مسلمان رکھا نزول قرآن سے پہلے بھی، اور اس قرآن میں بھی تمھارا یہی نام ہے، یہ بھی اسلام کےامتیاز اورفوقیت وبرتری کی ہی بات ہےکہ اللہ رب العزت نے، اسکے خلیل نے اسکے رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے اور اس کی کتاب مقدس قرآن عظیم نے ہمارے مذہب کا نام اسلام اور ہمارا لقب مسلمان عطاء فرمایا،

البتہ فی زماننا معاندین و مخالفین اسلام نے مسلمانوں کومحمڈن کہنا شروع کر دیا جس میں انکی ایک بڑی سازش ہے کہ اسلام کی آفاقیت و عالم گیریت کو ختم کر کے صرف ایک شخصیت اور ایک مخصوص ذات تک محدود کر دیا جائے، اور دنیا کو یہ تاثر دیا جائےکہ جس طرح یہودی صرف حضرت موسی علیہ السلام کو مانتے ہیں اور دیگر انبیاء کرام کا انکار کرتے ہیں، عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کومانتے ہیں،اور دیگر انبیاء کرام کا انکار کرتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی صرف محمد رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں، اور باقی انبیاء کرام کا نعوذ باللہ انکار کرتے ہیں ، حالا نکہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے” آمنت باللہ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر و القدر خیرہ و شرہ من اللہ تعالیٰ و البعث بعد الموت” جس کا حاصل ہی یہ ہے کہ مسلمان عمل تو فقط حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی تعلیمات پر کرتے ہیں، لیکن ایمان آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک سارےأنبیاء پر رکھتےہیں، اور سب کی نبوت ورسالت کی حقانیت و صداقت کا اذعان ویقین اور ایمان رکھتے ہیں، اور سارے کے سارےانبیاء ورسل کو نبی برحق اور رسول برحق تسلیم کر تے ہو ئے” لانفرق بین احد من رسلہ” کے آئینہ دار ہیں،

اسی طرح عمل تو وہ قرآن مقدس پر ہی کرتے ہیں، لیکن تمام چھوٹی بڑی آسمانی کتابوں پر بایں طورکہ انمیں جو کچھ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے اس پر من و عن ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تصدیق وتائید کرتے ہیں، لہذا مسلمانوں کو محمڈن کہ کر ان کے اسلامی عقیدہ کو خراب کرنے کی سازش کی گئ ہے،

دوسری بات! اس بات پر ہمارا ایمان ویقین کامل ہے کہ ہمارے دین و ایمان اور مذہب اسلام کی ساری نسبتیں حضرت محمد رسو ل اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی سے قائم ہیں، اور یہی نسبت ہمارےدین وایمان کی اساس اوربنیاد ہےجسمیں ادنی درجے کے کسی احتمال یا تذبذب کو ہم کفر گردانتےہیں، پھربھی جہاں تک نام اور لقب کی بات ہے تو اللہ رب العزت والجلال نے اور خود ہمارے آقا و مولی پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں مسلمان کا نام اور لقب مرحمت فرمایا ہے،

چنانچہ ارشاد ربانی ہے” ملة ابیکم ابراہیم ھو سماکم المسلمین من قبل وفی ھذا”جیسا اوپر مذکور ہوا، دوسری جگہ ارشاد ہے ” قال اننی من المسلمین” فخرسےکہے کہ یقینا میں مسلمان ہوں، اسی طرح ارشاد نبوی صلی اللہ تعلی علیہ و آلہ وسلم ہے”المسلم اخو المسلم” مسلمان مسلمان کا بہائی ہے” المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ” یہ اور اس طرح کی متعدد آیات و روایات ہیں جنمیں اسلام کے پیروکاروں کو اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےمسلمان کے لقب سے پکارا ہے، اس لئے اسکی قطعا کوئی ضرورت نہیں کہ ہمیں کوئی اورنام یا لقب دیاجائے، کسی اور نام یا لقب سے پکارا جائے، ہمارے لئے تو بس مسلمان نام اور لقب ہی قابل صد افتخار ہے، اس لئے کہ یہ نام اور لقب ہمیں بارگاہ خداوندی،دربار رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے نیز بزبان قرآن عظیم الشان اور بلسان خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام ملا ہے، اتنے سارے امتیازات وخصوصیات کےباوجود ہمیں اس سےبہترنام اور لقب بھلا کون اور کہاں سے دے سکتاہے؟

البتہ بعض نادان مسلمان اسلام کے معاندین مخالفین کی سازشوں سے بے خبر خود کو ماڈرن یاروشن خیال کہلائے جانے کےشوق نامعقول میں اپنے آپ کو یامسلمانوں کومحمڈن کہنے لگے ہیں، لیکن یہ انکی نادانی ہے یا پہر ضرورت سے زیادہ بھولاپن ہے،اورمذہب اسلام کی خوبیوں سے،اس کے امتیا زات وخصوصیات، اور عظمت و تقدس سےجھالت وناواقفیت کانیتجہ ہے” اللھم احفظنا منہ وسائر المسلمین فی أنحاء العالم”

خلاصہ کلام یہ کہ تمام ادیان عالم پر مذہب اسلام کو اپنے مذہبی نام کے اعتبار سے افضلیت و اولویت اور فوقیت و برتری حاصل ہے، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اسلام ہی ہمارا پیارا، محبوب اور پسندیدہ مذہب ہے.

جاری…….

Comments are closed.