حماس اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کا مستقبل ؟

عمر فراہی
مجھے یاد نہیں ہے کہ اب تک کسی امریکی صدر نے دنیا کے کسی ملک کے سربراہ سے آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کی ہو اور اس گفتگو کی تکرار میں کسی ملک کے سربراہ نے امریکی صدر کی بات کاٹ کر اس کا جواب دیا ہو۔ جیسا کہ حال ہی میں جب ٹرمپ نے فرانس کے صدر کے ساتھ بیٹھ کر میڈیا کا جواب دیتے ہوۓ کہا کہ امریکہ نے یوکرین کی تین سو پچاس بلین ڈالر کی مدد کی تو فرانس کے صدر نے بات کاٹتے ہوۓ کہا مسٹر پریذیڈنٹ امریکہ نے نہیں یوروپ نے مل کر یہ رقم یوکرین کو دی ہے ۔اب کل جب پھر سے ٹرمپ جب یوکرین کے صدر زیلیسکی کے سامنے بیٹھ کر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے کہ اگر ہم نے یوکرین کی مدد نہ کی ہوتی تو یوکرین دو ہفتے میں ہی خود کو رسیا کے سپرد کر چکا ہوتا ۔زیلیسکی جو کہ پہلے ہی سے جلا بھنا بیٹھا تھا کیوں کہ یوکرین کے تعلق سے امریکہ اور رسیا کے ساتھ ریاض سعود عرب کی بیٹھک میں اسے مدعو نہیں کیا گیا تھا طنز کرتے ہوۓ کہا دو ہفتے نہیں تین دن کہئے ۔آپ کی بات سے تو ایسا لگتا نے کہ ہم پوری طرح نہتے آپ کی مدد کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ ۔زیلیسکی کی ہمت کی داد دینی ہوگی جب اس نے کہا کہ لوگوں کی مدد سے کوئی ملک ایک طاقت ور ملک سے سالوں تک جنگ نہیں لڑ سکتا ۔اس کے بعد ٹرمپ کا لہجہ مزید جارح ہو جاتا ہے ۔رسیا کے ایک منسٹر کا بیان ہے کہ ٹرمپ صدارتی محل کی عزت رکھتے ہوۓ زیلیسکی کو برداشت کر گیا ورنہ وہ زیلیسکی کے جواب پر تھپڑ بھی مار سکتا تھا ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے زیلیسکی کو یہ کہہ کر کہ وہ وہایٹ ہاؤس میں اس وقت تک نہیں قدم رکھے گا جب تک کہ جنگ بندی کے کسی معاہدے کا فیصلہ نہیں کر لیتا اس کو ذلیل کرنے کی کوشش کی ہے ۔جبکہ یہ بات درست نہیں ہے ۔وہائٹ ہاوس امریکی صدر کا تخت ہے وہاں امریکی صدر کی اجازت کے بغیر پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا ۔ذلالت کا مظاہرہ تو ٹرمپ نے کیا کہ جس امریکی صدر کے فرمان پر دنیا کے حکمراں آمنا اور صدقنا کہنے پر راضی ہو جاتے تھے ایک چھوٹے سے ملک کے سربراہ جس کی حیثیت ایک جوکر کی ہے اس نے منھ توڑ جواب دے کر امریکی صدر کے قد کو گھٹا دیا ۔اس نے دنیا کے ان تمام مسلم حکمرانوں کی آنکھیں کھول دی ہے جو خدا سے زیادہ امریکہ سے ڈرتے ہیں یا سمجھتے ہیں امریکہ ہی ان کے اقتدار کا محافظ ہے ۔زیلیسکی نے امریکہ کے سب سے بدمعاش اور بدتمیز صدر کے چہرے سے اس کی ذہانت اور طاقت کے نقاب کو بھی اتار دیا ہے ۔اس نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ ٹرمپ اس وقت نہ صرف امریکہ کا سب سے کمزور اور نالائق صدر ہے ۔امریکہ اپنے زوال کے آخری مرحلے میں ہے ۔وہ خود ایک ایسے ٹائیٹنک جہاز کی طرح دریا کی لہروں پر بوجھ بن چکا ہے کہ اگر یوروپ نے اسے سہارا نہیں دیا تو وہ کبھی بھی دریا برد ہو سکتا ہے ۔لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ جس طرح امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ غداری کا مظاہرہ کر رہا ہے اب یوروپ کو بھی امریکہ کی ضرورت نہیں رہی ۔ٹرمپ یہ بات بھول رہا ہے کہ 9/11 کے بعد اگر اس کے یوروپی اتحادیوں نے اس کی مدد نہ کی ہوتی وہ بیک سال تک افغانستان میں نہیں ٹھہر پاتا ۔خود یوکرین نے 9/11 کے بعد جب امریکہ اور ناٹو نے عراق پر صدام حسین کے خلاف چڑھائی کی تو اپنے سب سے بہترین فوجی دستے کو عراق میں امریکہ کے ساتھ شامل ہوا تھا ۔
ویسے کہاوت مشہور ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے ۔فرعون موسی کے تعاقب میں نیل کی طرف بھاگا تھا ۔مشرکین نے ہجرت کے وقت وقت کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کیا تھا اور پھر تعاقب کرتے کرتے ان کے بہادر مدینے کی پہاڑیوں میں دفن ہو گئے ۔اسرائیل نے حماس کے تعاقب میں غزہ میں داخل ہو کر اپنی عزت کو خاک میں ملا لیا ہے ۔امریکہ جو کہ کافی دنوں تک عربوں کو ہتھیار دے کر آپس میں لڑانے میں کامیاب رہا جب اس نے اپنے دشمنوں کا میدان میں اتر کر تعاقب کرنا شروع کیاتو اسی دن سے اس کا زوال شروع ہو گیا ۔9/11 امریکہ کے زوال کا turning point تھا ۔ہم نے 2003 میں ہی ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا "امریکی زوال کے دن تھوڑے ہیں ” اس وقت بھی مغرب نواز کہہ رہے تھے کہ اردو صحافی حسد کا شکار ہیں مگر اب انگلش صحافیوں کے تجزیے بھی بھونچال کا شکار ہیں ۔کچھ تو سابق امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ اور اسرائیل جنگ میں امریکہ کی چودھراہٹ کو مٹی میں ملادیا تھا اور ان کے اسی گھٹے ہوۓ قد کو دیکھتے ہوۓ عرب کے حکمرانوں نے بھی ان کو اہمیت دینا بند کر دیا تھا اب زیلیسکی نے جس طرح وہائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر ڈونالڈ ٹرمپ کی عزت کا ستیاناس کیا ہے ٹوئیٹر پر اور سوشل میڈیا پر لوگوں کے تبصروں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب شیر بوڑھا ہو چکا ہے ۔زیلیسکی کی یہ بحث تو ابھی کل منظر عام پر آئی ہے ہمارے جیسے معمولی قلمکاروں نے بیس سال پہلے ہی امریکہ کا زوال دیکھ لیا تھا ۔اپھی تین دن پہلے ہم اپنے اسی سلسلے کے پچھلے مضمون میں بھی لکھ چکے ہیں کہ
اس وقت مغرب کا Deep state یعنی صہیونی مقتدرہ 9/11 کے بعد سے مسلسل تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے اور اسے اس حالت میں پہنچانے میں کچھ مسلم ریاستوں کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔
یقینا اس میں ترکی کا بہت اہم کردار ہے جس کا اعتراف یوروپ کو بھی ہے ۔سوال یہ ہے کہ امریکہ کی زوال پزیر صورتحال اور بے وفائی سے ان عرب ممالک کا کیا ہوگا جن کی حکومتیں صرف اور صرف امریکہ اور اسرائیل کے ابراہیمی معاہدے کے ستون پر کھڑی ہیں اور جنھوں نے حماس اور اخوان کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کیا ہوا ہے جبکہ امریکہ اسرائیل اور یوروپ کی طاقت کا توازن جہاں 9/11 کے بعد متزلزل ہوا ہے غزہ کی جنگ نے امریکہ اور اسرائیل کو مجبور کیا ہے کہ وہ یوکرین سے باہر نکل کر جزیرہ العرب کی ملیشیاؤں پر توجہ دیں جہاں شام کی شکل میں ایک اور محاذ ان کے خلاف منھ کھولے ہوۓ کھڑا ہے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان سب کے پیچھے ترکی اور طیب اردگان کا چہرہ تو صاف طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے کچھ اور بھی مسلم ریاستیں ترکی کی پشت پناہی کر رہی ہیں ۔ہم نے پچھلے مہینے دیکھا بھی کہ اگر امریکہ اور اسرائیل اپنے اتحادیوں کو متحد کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں تو اردگان نے بھی کئی مسلم ممالک کا دورہ کیا ہے جس میں پاکستان اور سعودی عرابیہ سر فہرست ہیں اور خود شام کے نئے صدر نے خاص طور سے اپنا سب سے پہلا دورہ مملکت سعود کا کیا تو اس کے بعد وہ ترکی بھی گئے ۔مطلب صاف ہے کہ صہیونی مقتدرہ یوکرین کا محاذ بند کرنے کے فراق میں بہت سنجیدہ تو ہے لیکن جزیرہ العرب۔ غزہ اور فلسطین کے تعلق سے اس کی نیت اب بھی صاف نہیں ہے ۔عرب امن سے ابھی بھی کوسوں دور ہے !
Comments are closed.