عبدالرؤف لالہ : ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

ڈاکٹر سلیم خان
کل رات ہم لوگ اپنے عزیز دوست عبدالرؤف لالہ کو سپردِ خاک کر کے بوجھل قدموں سے لوٹ آئے۔ ایس آئی ایم سے شروع ہونے والا ایک طویل رفاقت کا سفر جماعت سے ہوتا ہوا ملت پر تمام ہوا۔ اس دوران موسم بدلتے رہے اختلافات بھی ہوتے رہے لیکن لالہ کے اندرپائی جانے والی محبت کی بھینی بھینی خوشبو پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔عبدالرؤف کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کی یادیں اب کرچیوں کی مانند چبھ رہی ہیں ۔ یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ۔ عبدالرؤف لالہ کو دینداری کا وصف اور جماعت اسلامی کی انقلابی فکر وراثت میں ملی ۔ ان کی والدہ ، ہمشیرہ اور بھائی سبھی جماعت کے ذمہ داریوں پر فائزرہے۔ بچپن میں ایس آئی ایم کا پر جوش ماحول مل گیا اور ممبئی کے فرقہ وارانہ فسادات میں انہوں نے اپنے لڑکپن میں ہی بہت دلیرانہ کردار ادا کیا ۔ گوونڈی اور مانخورد سب سے زیادہ متاثرہ علاقے تھے لیکن وہیں پلنے بڑھنے والا یہ نوجوان نہایت پر خطر علاقوں میں جاکر مسلمانوں کی مدد کرتا اور ان کا حوصلہ بڑھاتا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد انہوں نے نہ وہاں سے جانے کتنے لوگوں کو ممبرا میں لاکر بسایا اور پولیس کی تعذیب کا شکار بھی ہوئے لیکن اس سے ان کے عزم و حوصلہ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
جماعت کے سرگرم کارکن اور ملت کے ایک دلیر رہنما کی حیثیت سے عبدالرؤف لالہ نے ممبرا میں اپنی ایک ایک ایسی فعال ٹیم تیار کرلی تھی جو ملک بھر میں بلکہ عالمِ اسلام میں رونما ہونے والے مسلم مسائل پر آواز اٹھاتی اور ظلم و جبر کی مذمت کرتی ۔ یہ لالہ کا عزمِ مصمم تھا کہ کسی مسلم تنظیم کے ذریعہ غزہ کی حمایت میں کوسہ کی سرزمین پرعظیم الشان جلسۂ عام کا اہتمام ہوا۔ اتفاق سے ان کی آخری بڑی سرگرمی تھی۔ گجرات کے فسادات ہوئے تو ممبئی اور ممبرا سے ایک وفد ایسے وقت میں فسادزدہ علاقوں میں جبکہ تشدد کے شعلے ٹھنڈے نہیں ہوئے تھے ۔ عبدالرؤف لالہ اور ان کے ساتھی اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر وہاں گئے اور واپس آنے کے بعد نہ صرف ملت کا حوصلہ بڑھایا بلکہ حقیقت حال سے واقف کیا۔ جماعت اسلامی ہند کے مغربی صوبوں کا اجتماع ممبرا میں منعقد ہوا تو اس کے انتظام و انصرام میں لالہ نے اپنا دنِ رات ایک کردیا ۔ آگے چل کر وہ جماعت اسلامی مہاراشٹر کی شوریٰ اورمرکزی مجلسِ نمائندگان میں بھی منتخب ہوئے۔ اس دوران انہوں نے مختلف تنظیمی خدمات ادا کیں ۔
عبدالرؤف لالہ جماعت کے اندرونی حلقوں کی بہ نسبت باہر زیادہ مقبول تھے۔ اس کی ایک وجہ ان کی خداداد فن خطابت تھی ۔ تنور نگر کی مسجد میں جب وہ جمعہ کا خطبہ دیتے تھے تو دور دور سے لوگ انہیں سننے کے لیے آتے۔ ایک مرتبہ انہوں نے لوگوں کے تاخیر سے آنے پر ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ سامعین اگر شروع میں نہیں آئیں گے تو وہ اس سلسلے کو بند کردیں گے ۔ اگلے جمعہ کو پہلی اذان سے قبل پوری مسجد بھری ہوئی تھی۔ جماعت کے ہر چھوٹے بڑے اجتماع میں ان کی تقریر ہوتی تھی۔ مشترکہ ملی فورمس میں نظامت سے لے کر خطابت تک کی مختلف ذمہ داریاں وہ ادا کیا کرتے تھے۔ کوسہ کے اندر عیدا لاضحیٰ کے موقع پر عارضی مذبح خانہ کا اہتمام کرنے والے ملی فورم میں عبدالرؤف لالہ پیش پیش تھے۔ اس طرح کے کئی ان کی ترغیب پر ہوئے۔ اس میں شک نہیں کہ ممبرا کوسہ کی سوئی ہوئی ملت کو بیدار کرنے میں جن لوگوں نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے ان میں عبدالروف لالہ کا شمار ہے ۔
جماعت سے نکل کر سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو سماجوادی پارٹی نے انہیں پربھنی سے اسمبلی کا الیکشن لڑایا۔ اس میں ناکامی کے بعد این سی پی سے انہوں نے بلدیہ کا انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے ۔ آگے چل کر وہ مجلس اتحادالمسلمین میں بھی شامل ہوئے اور جب ایم آئی ایم کا امیدوار بیٹھ گیا تو عام آدمی پارٹی کی ڈاکٹر فیضی کی انتخا بی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ رہنے کے باوجود انہوں نے جماعت اسلامی کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا۔ جماعت کی فکر سے کبھی مصالحت نہیں کی ۔ نہ تو جماعت کو پرایا سمجھا اور نہ جماعت نے انہیں غیر جانا ۔ تمام تر مشترکہ ملی مسائل میں وہ جماعت و ملت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ مختلف ملی اور سیاسی جماعت کے رہنماوں سے ان کے تعلقات بدستور قائم رہے ۔ قرآن مجید کا مراٹھی ترجمہ کو غیر مسلم رہنماوں تک پہنچایا جارہا تھا تو سابق وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے گرو آنند دیگھے کے پاس جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ وہی آنند دیگھے تھے جن پر بھیونڈی فساد و بھڑکانے کا الزام تھا۔ ملاقات کے وقت لالہ نے مراٹھی زبان میں اسلام کا اس قدر خوبصورت تعارف پیش کیا کہ دیگھے بولےجی چاہتا تو بولتا رہے ہم سنتے رہیں۔ تیری زبان سے پھول جھڑتے ہیں ۔
عشرت جہاں کے انکاونٹر کی پیروی عبدالرؤف لالہ کی زندگی کا روشن ترین باب ہے۔ وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے کچھار میں داخل ہوکر عشرت جہاں کے والدہ کو انصاف دلانے کی قانونی جدوجہد ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں تھی ۔ عبدالرؤف لالہ نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر وہ کام ۔ ایک مرتبہ تو وہ لجس مسافر خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے اس پر بلوائیوں نے حملہ کردیا مگر اس کے باوجود عبدالرؤف لالہ کے پائے استقامت میں کو ئی لرزہ نہیں آیا ۔ وہ مسلسل اس جدوجہد میں لگے رہے ۔ پچھلے دوچار سالوں میں وہ کئی بار بیمار ہوئے ۔ ہم لوگوں نے اسپتال جاکر ان کی عیادت کی اور وہ اچھے ہوکر لوٹ آئے۔ پرسوں پھر پتہ چلا کہ انہیں اسپتال میں داخل کیا گیا ہے تو میں نے اگلے دن دوپہر اعظم شہاب کے ساتھ جاکر ملاقات کا پروگرام بنایا لیکن اس سے پہلے کہ ہم لوگ نکلتے ان کے دارِ فانی سے کوچ کرجانے کی خبر آگئی۔ اس طرح قوم و ملت کاایک سچا خادم، نڈر سماجی کارکن اور حق و انصاف کا بے باک سپاہی بتاریخ 16 مارچ بمطابق 15؍ رمضان المبارک 58 سال کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جاملا ۔ انا لله وانا اليه راجعون۔
عبدالرؤف لالہ کی نماز جنازہ میں لوگوں کا جم غفیر ان کی مقبولیت کا غماز تھا ۔ اس میں خاص و و عام ، بزرگ و جوان سبھی تھے ۔ صحافت کی دنیا کے شاہد لطیف ، ادب سے میدان سےعرفان جعفری موجود تھے ۔ سیاسی لوگوں میں رکن اسمبلی جیتندر اوہاڑ اور رکن بلدیہ سراج ڈونگرے نے خراجِ عقیدت پیش کیا ۔ بلا تفریق سبھی سیاسی یا ملی جماعتوں سے وابستہ لوگ عبدالرؤف لالہ کے جنازے میں شریک ہوکراپنا نذرانۂ تعزیت پیش کررہے تھے ۔ میں بھی ان میں شامل ہونے کے لیے اپنے گھر سے نکلا تو ماضی کی یادوں میں کھویا رہا کیونکہ جماعت اسلامی میں میرا سب سے اچھا وقت ممبرا کوسہ میں عبدالرؤف لالہ کے ساتھ گزرا تھا۔ میرے ساتھ بچوں کی عید کے کپڑوں کا ایک جھولا بھی تھا جو ریل گاڑی میں چھوٹ گیا ۔ وہ گاڑی تین اسٹیشن کے بعد سے لوٹ کر آئی تو جھولا پھر سے مل گیا ۔ میں نے سوچا یا اللہ یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ عبدلارؤف لالہ بھی اسی طرح کھونے کے بعد مل جائے ؟ ایسے میں نبی کریم ﷺ کی چند احادیث یاد آگئیں تو دل کو قدرے اطمینان ہوگیا۔
ابو موسی اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے عمل نہیں کر پاتا۔(اس کا کیا ہو گا؟)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا ہے“۔ عبد اللہ ابن مسعود ؓ بھی روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ: یا رسول اللہ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے عمل نہیں کر پاتا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے“۔ میں عبدالرٔف لالہ جیسےڈھیر سارے اعمالِ خیر تو نہیں کرسکا مگر پھر بھی یقین ہے کہ محبت کا رشتہ ہمیں ایک دن ضرور ملائے گا اور ہماری یہ محبت اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے تھی۔ اس بابت حدیث میں بشارت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا قیامت کب ہے؟ آپ نے فرمایا تو نے قیامت کے لئے کیا سامان تیار کیا ہے ؟ وہ بولا : اللہ اور اس کے رسول کی محبت، آپ نے فرمایا: تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو پھر بروزِ قیامت اپنے حبیب پاک ﷺ کی معیت میں حوضِ کوثر پر یکجا فرما دے ۔ لالہ کی یاد میں قلم بیقرار اور آنکھیں اندر ہی انندر اشکبار ہیں مگر سوگوار دل کہتا ہے؎
کبھی اشکوں پہ اتنا ضبط بھی اچھا نہیں ہوتا یہ چشمہ پھر ضرر دے گا بہا لیتے تو اچھا تھا
(پس نوشت: اللہ تبارک و تعالیٰ ،عبدلرؤف خان کی مغفرت فرما کر ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے)
Comments are closed.