لجنہ علمیہ ریاض کے زیر اہتمام عید ملن تقریب منعقد

ریاض سعودی عرب سے محمد شاہد قاسمی کی خصوصی رپورٹ
رمضان کے آخری ایام چل رہے تھے ، عید کی آمد آمد تھی ۔ مولانا ہارون صاحب نے اس عید کو یادگار عید بنانے کی ٹھانی۔ عید ملن کے عنوان سے ایک تقریب منعقد کرنے کا اعلان کیا ۔ اور پیار و جبر اور مزاح و متانت کے حسن امتزاج کے ساتھ تمام قاسمی ممبران سے حاضری کنفرم کروائی ۔ تاریخ کے تعین میں تردد تھا کہ دو اپریل کو تقریب منعقد ہو یا تین کو؟ طے یہ ہوا کہ اگر رمضان انتیس کا ہوا تو دو اپریل کو تقریب منعقد ہو گی ورنہ تین کو۔ بفضل اللہ تعالیٰ رمضان انتیس کا ہوا ۔ تاریخ بھی طے ہو گئی 2 اپریل 2025 بروز بدھ بعد نماز عشاء بمقام فیلا مولانا ہارون صاحب ملز۔
پھر پروگرام سے ایک دن قبل کچھ اہم شخصیات کی حاضری کا بھی اعلان کیا گیا جن میں قابل قدر و صد احترام مفتی محمود صاحب بلند شہری مفتی دار العلوم دیوبند کا اسم گرامی ہے۔ اور دوسری قابل شخصیت مولانا بشیر گونڈوی کی تھی۔ مولانا ندائے شاہی کے تاسیسی ایڈیٹر رہے ہیں 1988 سے 1992 تک ۔ پھر 1993 میں سعودی کا سفر کیا۔ یہاں کی جالیات میں کام کیا اور اپنی قاسمیت اور دیوبندیت کا تشخص برقرار رکھا ۔ یہ مولانا کی علمی پختگی اور عقیدے کی صلابت اور دینی حمیت و غیرت کی واضح دلیل اور بین ثبوت ہے۔ ورنہ سعودی میں رہ کر جالیات کے دفتر میں کام کرتے ہوئے بہتوں کے پیر پھسلتے دیکھا ہے۔ اور اب مولانا اپنا کاروبار کرتے ہیں اور وقتا فوقتا سعودی کا سفر کرتے رہتے ہیں۔
تیسرا نیا چہرہ مفتی عاشق الٰہی کا تھا ۔ مفتی صاحب گورکھپور سے ہیں اور فی الحال مدینہ منورہ میں مقیم ہیں ۔ وزارت عدل میں مترجم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
مولانا انعام صاحب صدر لجنہ علمیہ نے پروگرام کا آغاز فرمایا ۔ مولانا نے خوشی و شادمانی کے لہجے میں فرمایا کہ آج سے چودہ سال پہلے 2011 میں لجنہ علمیہ کی عید ملن پارٹی ہوئی اور پھر آج ہو رہی ہے۔ مولانا کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر رہی تھی۔
مولانا نے قرآن پاک کی تلاوت کے لئے ایک کم عمر قاری عمر بن راشد غزالی کو تلاوت کلام پاک کے لئے مدعو کیا۔ اس کم عمر بچے نے پیاری خوش آواز میں سورہ ق کی چند آیات تلاوت فرمائیں۔
تلاوت کلام پاک کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں اشعار پیش کرنے کے لئے مولانا انعام صاحب نے مفتی منصور قاسمی صاحب کو دعوت دی۔ مفتی صاحب نے بہت پیارا کلام پیش کیا۔
رگ رگ میں دوڑتی ہے محبت رسول کی
ماں باپ سے بھی پیاری ہے عزت رسول کی
کیا شاعر و خطیب کی وقعت کہ کچھ کہیں
رب نے بیان کردی ہے رفعت رسول کی
واللہ دل نہیں ہے وہ بوجہل کا ہے گھر
جس دل میں ذرا بھی ہے عداوت رسول کی
گمراہیوں کا خوف اسے کیسے ہو بھلا
اپنائی جس نے زیست میں سنت رسول کی
ظلم و ستم کا گرم تھا بازار ہر طرف
بن کر فوار برسی ہے رحمت رسول کی
آنکھیں ہماری بند ہوں تو کچھ اس طرح سے ہوں
دیدار ہو خدا کا زیارت رسول کی
منصور قلبِ روح میں چاہے بس یہی
مل جائے روز حشر شفاعت رسول کی
رگ رگ میں دوڑتی محبت رسول کی
ماں باپ سے بھی پیاری ہے عزت رسول کی
پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا انعام الحق قاسمی صاحب نے عید کے موقعے سے خود کا لکھا ہوا ایک مضمون پڑھا جس میں امت کے لئے پیغام تھا۔
جس کا خلاصہ یہ تھا کہ جس طرح ہم نے رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت کے ساتھ گذارا اسی طرح بعد رمضان بھی ہمت استقلال کا ثبوت دیں۔ عید کی خوشیاں منائیں اور آپس میں مل کر خوشیاں باٹیں۔ ہم عید کی خوشی کو ایک ذمہ دار مسلمان بن کر منائیں ، بچوں کی طرح نہ منائیں۔ مولانا نے اس موقع سے مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی رحمة الله علیہ کے حوالے سے بہت اہم بات کہی۔ مولانا نے فرمایا کہ پوری دنیا کی سیکڑوں سال سے عید نہیں ہوئی ہے۔ آپ ایسی عید منائیں کہ پوری عالم کی عید ہوجائے۔ غیر مسلموں کی طرح نہیں کہ بس خوشی منائی اور کھیلے کودے اور ختم جیسے بچے کرتے ہیں؛ بل کہ اس طرح کہ پوری دنیا پر اس کی چھاپ پڑے ۔ ہم آرام طلبی کو چھوڑیں اور جد و جہد والی زندگی گزاریں۔ ہمارے اندر تبدیلی پیدا ہو ۔ دور سے دیکھ کر لوگ کہیں کہ وہ مسلمان ہے۔
جب مضمون پورا ہو گیا تو مولانا محمد انعام الحق قاسمی نے مہمان خصوصی حضرت والا مفتی محمود صاحب کو دعوت سخن دی کہ کچھ نصیحت فرمادیں۔
مفتی محمود صاحب نے قرآن کی آیت ” يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون ” تلاوت فرمائی۔ اے ایمان والوں روزے تم پر فرض کئے گئے ؛ لیکن اس سے گھبرانا نہیں ۔ یہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض تھا۔ اس کا مقصد تقویٰ و پرہیز گاری ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ اسلامی حکومت کی خاصیت ہے کہ حاکم تقوی والا ہوتا ہے۔ شیخ زکریا اور مولانا یوسف کاندھلوی کی آپس میں گونا گوں رشتہ داریاں تھیں۔ دونوں آپس میں چچازاد بھائی تھے اور مولانا یوسف شیخ زکریا کے داماد بھی تھے۔ یکے بعد دیگرے حضرت شیخ کی دو صاحبزادیاں ان کے نکاح میں تھیں ۔ پہلی بیوی کا انتقال ہو گیا تو دوسری بیٹی جو بیوہ تھی ان کے نکاح میں دے دی۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا یوسف صاحب پر بعض مرتبہ جوش ایمانی کا غلبہ ہوا کرتا تھا اور ایسی بات فرما دیتے جس کے کہنے سے ہم لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں پکڑ نہ ہوجائے۔ یہاں پر مولانا عبد الباری صاحب نے وضاحت کے لئے دریافت فرمایا مایا کہ جیسے؟ تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ تقسیم ہند کے بعد دونوں بزگ مولانا یوسف اور شیخ زکریا کا لاہور سفر ہوا – لاہور میں ایک قریشی صاحب تھے ۔ نام کچھ اور تھا لوگ قریشی کہتے تھے۔ ان کے یہاں ان دونوں بزرگوں کا قیام تھا۔ قریشی صاحب لاہور کے مالدار لوگوں میں سے تھے – انہوں نے حکومت کے بڑے بڑے لوگوں کو مدعو کیا تھا ۔ مجلس میں ان لوگوں کا تعارف کرایا گیا کہ یہ “ عمائدین سلطنت “ ہیں ۔ شیخ زکریا فرماتے ہیں کہ مولانا یوسف پر جوش ایمانی کا غلبہ تھا۔ ان سے جب عرض کیا گیا کہ آپ کچھ ارشاد فرمادیں تو مولانا کھڑے ہوئے اور فرمایا “ ان لوگوں کا تعارف “ عمائدین سلطنت “ سے کرایا گیا ہے۔ یہ تعبیر غیر مانوس ہے۔ صحابہ کرام کے زمانے میں تعارف اس طرح ہوتا تھا کہ یہ بدری ہے، احدی ہے و غیرہ و غیرہ۔ اگر ان کا تعارف اس طرح کرایا جاتا کہ یہ کتا ہے ، یہ خنزیر ہے، یہ گدھا ہے تو بہتر تھا۔ یہ سن کر قریشی صاحب کے ہوش اڑ گئے کہ حضرت کیا فرما رہے ہیں؟ اس جگہ مولانا عبد الباری صاحب نے دخل دیتے ہوئے عرض کیا کہ کیا یہ کہنا صحیح تھا یہ کتا ہے ہے یہ خنزیر ہے ؟ مفتی صاحب نے جواب دیا کہ اس سے بھاری بات روایات میں ملتی ہے۔ حضرت ابو بکر نے ایک مرتبہ فرمایا ” امصص بظر اللات” لات کی شرمگاہ چوم” ۔ مولانا عبد الباری صاحب نے اس جواب پر فرمایا یہ تو کافر تھے اور وہ مسلمان تھے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ کبھی بڑوں کی ڈانٹ بہت مفید اور کارگر ہوتی ہے۔ دار العلوم میں ایک طالب علم کو خبط سوار ہوا کہ وہ عیسائی بننا چاہتا ہے۔ کئی استاذوں کے پاس گیا۔ لوگوں نے اس کو سمجھایا کھلایا پلایا لیکن اس کا خناس اترا نہیں۔ لوگوں نے اس کو حضرت تھانوی رح کے پاس بھیج دیا۔ حضرت تھانوی کو پوری بات بتائی تو حضرت تھانوی رح نے جوتا اٹھایا اور اس کے کمر پر مارا اور فرمایا کہ تو عیسائی یہودی جو چاہے بن جا، نہ اسلام کو تیری ضرورت ہے اور نہ تجھکو اسلام کی۔ یہ شخص چلا گیا اور ایک سال کے بعد پھر آیا۔ عرض کیا حضرت آپ نے مجھ کو پہچانا ؟ حضرت نے فرمایا ہاں پہچان لیا ۔ اور اس کا خناس اتر چکا تھا۔
ایک دوسرا واقعہ سنایا کہ ایک شخص حضرت تھانوی کے پاس آیا کہ میرا دل فلاں گوالن پر عاشق ہے۔ میں اس کے یہاں جاتا ہوں صرف اس کو دیکھنے دودھ لینا بہانا ہوتا ہے ۔ حضرت نے فرمایا کہ ادھر مت جایا کر، دوسری جگہ سے دودھ لے لیا کر۔ اس نے کہا حضرت دل نہیں مانتا۔ تو حضرت تھانوی نے اس کی کمر پر ایک زوردار گھونسا رسید کیا اور فرمایا جا اس کے پیشاب میں ڈوب جا۔ مولانا عبد الباری صاحب نے وضاحتا دریافت کیا کس کے پیشاب میں؟ فرمایا اس گوالن کے ۔ لوگ یہ سن کر ہنس پڑے۔ پھر مفتی صاحب نے فرمایا کہ وہ شخص ایک ماہ بعد آیا اور عرض کیا حضرت مجھکو ایسی نفرت ہوئی کہ دوبارہ میں نہیں گیا-
ان واقعات کے بعد مفتی صاحب نے فرمایا کہ مولانا یوسف صاحب نے فرمایا کہ ان کا تعارف اس طرح ہونا چاہیے تھا کہ اس کی اسلام کے لئے فلاں خدمات ہیں اس کی فلاں ہیں۔ پھر پیدل جماعت کی تشکیل کی۔ سب الحمد للہ نکلے اور پور ملک میں گھومے۔ اس کا بہت اچھا اثر ہوا۔
مفتی صاحب نے فرمایا کہ اسلامی حکومت میں حاکم تقوے والا ہوتا ہے۔ اللہ سے ڈرنے والا۔ یہ اسلامی حکومت کی خاصیت ہے۔ ہم علماء ہیں ہمارے ساتھ عالم لکھا جاتا ہے۔ ہم کو کتنا اللہ سے ڈرنا چاہئے؟ مفتی صاحب نے فرمایا ابھی ایک صاحب ویڈیو بنا رہے تھے۔ موبائل نے بڑی خرابی پیدا کی ہے۔ فوٹو اور تصویر سے جہاں تک ہو سکے بچیں۔ فرمایا کہ ایک مرتبہ ختم بخاری کے موقعے سے بنگلہ دیش جانا ہوا۔ لوگ ویڈیو بنا رہے تھے ۔ میں نے کہا اسی بخاری میں ہے کہ اشد الناس عذابا یوم القیامة المصورون-
اسی طرح ایک بار بنگلہ دیش جانا ہوا ۔ اس مجلس میں قاضی اور حکومت کے افسران تشریف فرماتھے۔ لوگوں نے ویڈیو بنانے کے لئے موبائل نکالا تو میں نے منع کیا۔ اور کہا کہ آپ ریکارڈنگ کر سکتے ہیں۔ لوگوں نے موبائل آگے رکھ دیا۔ ایک فاضل دروازے سے چھپ کر ویڈیو بنا رہا تھا۔ کیا کہا جائے؟ ہم کو تو اور زیادہ تقویٰ اختیار کرنا چاہئے۔ بعض لوگ ہمارے عمل کو دیکھ کر بد ظن ہو جاتے ہیں اور اسلام سے بھی پھر جاتے ہیں۔
مفتی صاحب نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا واقعہ سنایا – فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو یمن کا گورنر بناکر بھیجا – حضرت معاذ گھوڑے پر سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے اور نصیحت فرما رہے تھے- مفتی صاحب نے فرمایا کہ اگر صرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جبہ مبارک سامنے ہو تو کتنا دل پر بوجھ ہوتا ہے ( اس کی عظمت اور بڑائی کا) حضرت معاذ کے دل پر اس کا کتنا بوجھ رہا ہوگا؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی منشا یہی تھی؛ اس لئے اس کو برداشت کیا- حضرت معاذ درخواست کرتے جاتے کہ اور نصیحت فرمائیں – پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک مقام پر رک گئے اور واپسی کا ارادہ فرمایا تو حضرت معاذ نے پھر درخواست کی آخری نصیحت فرما دیں – اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ کو تقوی کی نصیحت فرمائی اور فرمایا شاید اب جب تم واپس لوٹو گے تو ہماری ملاقات نہ ہو سکے- اس جگہ مفتی صاحب نے فرمایا کہ اگر آدمی دور ہو اور تقوی و اطاعت پر ہو تو وہ دل کے قریب ہوتا ہے-
مفتی صاحب نے سب سے عہد کروایا کہ اب اور آئندہ ویڈیو اور تصویر سازی کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ اور جن صاحب نے ویڈیو بنائی تھی ان سے کہا ویڈیو ڈیلیٹ کردیں اور مستقبل میں اس سے پرہیز کرنے کا عہد کریں۔ پھر فرمایا کہ میری ذمہ داری اب پوری ہو گئی میں برئ الذمہ ہوں۔
اس کے بعد چند سوالات کئے گئے ۔ جن کا مفتی صاحب نے تشفی اور اطمینان بخش جواب مرحمت فرمایا۔ مولانا ہارون صاحب نے رائے پیش کی کہ دار العلوم ہر استفتاء کا فتوی نہ دے۔ اس کے جواب میں مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہم استفتاء کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ضرورت محسوس کرتے ہیں تو جواب دیتے ہیں ورنہ نہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سارے سوال آتے رہتے ہیں مثلا طلاق کے موضوع پر تو ہماری ٹیم اس پر ایک ساتھ بیٹھ کر غور و خوض کرتی ہے اور جب تک پوری تفصیلات میسر نہىں ہوجاتیں ہم جواب نہیں دیتے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ میاں بیوی دونوں کا استفتاء پر دستخط لے لیں ۔ اور اگر تفصیلات میسر نہیں ہوتیں تو ہم اگر مگر کے ساتھ جواب دیتے ہیں؛ اگر یہ صورت ہوئی تو یہ حکم ہے ورنہ حکم بدل جائے گا۔ اسی طرح بعض ایسے مسائل آتے ہیں جن کا حل فتوی نہیں ہوتا۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا – ہمارے بلند شہر میں ایک جگہ چھتراواں ہے- وہاں ایک مسلم چیئر میں بنا۔ گاؤں کے ہندؤں نے بھی ووٹ دیا تھا۔ چیئر مین صاحب کا ماننا تھا کہ ان ہندؤں کے ووٹ سے میں جیتا ہوں ۔ ان کی مندر میں جاکر بطور شکرانہ مورتی کو سجدہ کیا۔ مسئلہ تو واضح تھا کہ یہ کفر اور کھلا ہوا شرک ہے؛ لیکن ہم نے فتویٰ نہیں دیا۔ بلند شہر کے علماء نے اس چیئر مین کو بلایا ۔ اس سے بات کی اور سمجھا یا ۔ اس کا تجدید ایمان اور پھر تجدید نکاح کروایا ۔ پھر اخبارات میں اس کو شائع کیا۔
اس کے بعد مفتی صاحب نے مختصر دعا کرائی ۔ پھر دسترخوان چنا گیا۔ اندازا ایک سو کے قریب لوگ جمع ہو گئے تھے۔ سب نے ذوق شوق اور مزے کے ساتھ کھانا تناول فرمایا ۔ قورمہ بریانی اور زردہ ۔ اللہ تعالیٰ مولانا ہارون صاحب کی اس شاندار ضیافت کا دونوں جہان میں بہترین بدلا عطا فرمائے۔
Comments are closed.