پہلگام سانحہ۔۔کس کے ہاتھ پر لہو تلاش کریں

 

ڈاکٹر سیدفاضل حسین پرویز

9395381226

جمو ں کشمیر میں جشن کا ماحول جو دہشت گرد حملے کی وجہ سے قومی سوگ میں بدل گیا۔ جشن اس لیے کہ UPSC 2024میں یہاں سے 14امیدوار منتخب ہوئے تھے۔ یقینا ایک ایسے علاقے میں جہاں صورت حال کبھی بھی پر امن نہیں رہی۔ یہاں کے عوام کے لیے سیول سرویسز کے لیے اتنی تعداد میں کشمیریوں کا انتخاب ایک تاریخ ساز واقعہ تھا ویسے کشمیریوں نے ہمیشہ تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔

چند برس پہلے فیصل شاہ نے آل انڈیا فرسٹ رینک حاصل کیا تھا۔ خوشی کا یہ ماحول پہلگام سے 6کلو میٹر دور بیسارن میں سیاہوں پر دہشت گردوں کی اندھا دھند فائرنگ میں 28ہلاکتوں کی وجہ سے غم میں بدل گیا۔ پورا ملک غم زدہ اور احتجاجی ہے۔ جموں کشمیر میں بھی ہندو مسلم سبھی اس واقعے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ اس حملے سے ایک طویل عرصے تک کے لیے سیاح کشمیر سے دور ہو جائیں گے۔ پہلگام یا اس کے اطراف و اکناف کے علاقے خاص طور پر بیسارن کے عوام کی گزر بسر سیاحوں کی خدمت پر منحصر ہے۔ اس سے پہلے کہ دہشت گرد ی کے اس واقعے کے پس منظر اس کے محرکات اور امکانی اثرات پر بات کریں یہ بتاتے چلیں کہ پہلگام آننت ناگ ضلع میں واقع ہے جو سری نگر ایئر پورٹ سے 90 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

پہلگام کشمیر ی زبان میں چرواہوں کے گاؤ ں کو کہتے ہیں جبکہ ہندو لٹریچر میں اس کا نام بیل گاؤں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہندؤں کے بھگوان شوا نے امر ناتھ جاتے ہوئے اپنا بیل یہاں چھوڑ دیا تھا۔ بیسارن کافی بلندی پر واقع ہے وہاں پیدل یا پھر خچر یا گھوڑے پر بیٹھ کر ہی جا سکتے ہیں۔ برف پوش پہاڑیوں گھنے جنگلات سرسبزی وشادابی کی وجہ سے اسے چھوٹا سویزرلینڈ کہا جاتا ہے۔ اکثر بالی ووڈ کی فلموں کی شوٹنگ یہاں ہوتی ہے۔ سنی دیول کی پہلی فلم بیتاب کی پوری شوٹنگ یہیں ہوئی تھی۔ پہلگام اور بیسارن سے دریائے لدر گزرتا ہے جس سے اس علاقے کے حسن میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

محکمہ سیاحت کے اعداد شمار کے مطابق گزشتہ سال 14لاکھ 37ہزار سیاح یہاں آئے تھے۔ 22اپریل کے سانحہ کے بعد صورت حال کے معمول پر آنے کے لیے ایک طویل وقت درکار ہے۔ یہ دہشت گرد حملہ کیوں ہوا؟کیا پاکستان ہی اس کے لیے ذمہ دار ہے؟

میڈیا میں پاکستانی فوجی سربراہ عاصم منیرکی ایک تقریر وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ ہندوستان سے کشمیر کو واپس لینے کے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں۔ جن دہشت گردوں نے 28 سیاحوں کو نام پوچھ کر گولی ماری ان کا تعلق لشکر طیبہ کی زیری تنظیم سے بتایا جاتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہیکہ لشکر طیبہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ پاکستان نے اگرچہ کہ اس سانحہ پر تشویش پر اظہار کرتے ہوئے اس سے لا تعلقی اختیار کی ہے تاہم شک کی سوئی اسی کی طرف گھومتی ہے۔ اگر وہ اس سانحہ کے لیے ذمہ دار ہے یہ اس کی تاریخی غلطی ہے اور ایک طرح سے اسے ایک بہت بڑی مصیبت کو دعوت دیے کیونکہ آج پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے اور وہ اربوں ڈالرس میں ڈوبا ہوا ہے۔

مسلم ممالک نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ ہندوستان سے مسلم ممالک کے تعلقات روز بروز مستحکم ہو رہے ہیں۔ اگر چہ کہ پاکستان خود کو نیوکلیر طاقت ہو نے کا دعوہ کرتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی میدان میں وہ ہندوستان سے مقابلہ کرنے کا احل نہیں ہے کیونکہ ملک کے اقتدار پر فوج کی گرفت ہے اور پاکستانی فوج سے متعلق کبھی کوئی مثبت اور تعمیری رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔

جنرل یحی خان سے لیکر پرویز مشرف تک اور باویجا سے عاصم منیر تک کا ریکارڈ بے داغ نہیں ہیں۔ دولت اور عیش و عشرت کے دلدادہ ہونے کی وجہ سے بدنام ہے۔ پہلگام سانحہ افسوس ناک قابل مذمت ہے تاہم اس کا ہندوستان کی داخلی سیاست اور حالات پر گہرا اثر اور مرکزی حکومت کے لیے مثبت ہوگا۔

حالیہ عرصے کے دوران حکومت کے خلاف جو فضاء سازگار ہو رہی تھی اس میں تبدیلی آئے گی جیسے مہاراشٹرا میں جین مندر کے انہدام کے بعد جین مت کے ماننے والوں نے احتجاج شروع کیا تھا۔ وہ احتجاج ختم ہو جائیں گے۔ اور بھی بہت سے تنازعات پیدا ہوئے تھے جو وقتی طور پر تھم جائیں گے، چونکہ اس وقت جس انداز میں میڈیا کی مہم چل رہی ہے اس کے پیش نظر پوری قوم کو آپسی اختلافات فراموش کر کے ایک ہونا ہے اور گزشتہ 24گھنٹے کے دوران پورا ملک متحد ہو چکا ہے۔ دہشت گردی واقع پر ساری دنیا نے مذمت کی ہندوستان کے ساتھ اس غم کی گھڑی میں یگانگت کا اظہار کیا۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سیاحوں کی ہلاکت پر اسرائیل کے نتن یاہو نے بھی مذمت کی جو خود ہر روز معصوم فلسطنیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ دہشت گردوں نے حملے کے لیے ایک بار پھر ایسے وقت کا انتخاب کیا جب امریکی نائب صدر ہندوستان کے دورے پر تھے۔

اس سے پہلے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان کے دورے پر تھے تب دہلی فسادات کی آگ میں جل رہا تھا اور لگ بھگ دو دہائی قبل جب امریکی صدر بل کلنٹن نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا تب 30 مارچ 2000کو چٹی سنگھ پورہ میں دہشت گردوں نے سکھوں کو گولیوں سے بھون دیا تھا۔

تحقیقات کے مطابق لشکر طیبہ، حزب المجاہدین اس واقعے کے ذمے دار تھے۔ اس وقت سکھ مرد عورت اور بچوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ دہشت گردوں نے صرد مرد سیاحوں کو گولی ماری جب ایک نو بیہاتہ جوڑے کو نشانہ بنایا گیا اور نوجوان کو گولی مار دی گئی تو اس کی بیوی نے دہشت گردوں سے کہا کہ اسے بھی گولی ماری جائے۔ مگر دہشت گرد نے گولی مارنے کے بجائے اس خواتین سے کہا کہ وہ اس واقعے کی اطلاع نرندر مودی کو دے۔

بیشک دہشت گردی کے اس واقعے کا مقصد بین الاقوامی توجہ حاصل کرنا ہے۔ دہشت گردوں نے اگر پاکستانی کی ایما پر یہ کام کیا ہے تو ایک طرح سے پاکستان ہی کو نقصان پہنچایا ہے کیونکہ پاکستان داخلی انتشار کی وجہ سے ایک اور تقسیم کے دہانے پر ہے۔ 1971میں پہلی تقسیم ہوئی تھی اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا اور اب بلوچستان علاحدگی چاہتا ہے۔

حال ہی میں 11مارچ 2025 میں ایک ٹرین کا اغوا بلوچ لبریشن آرمی نے کر لیا تھا جسے وقتی طور ہی سہی پاکستان میں انتشار پیدا ہوا تھا کیونکہ فوج کی کاروائی میں 33دہشت گردوں کے علاوہ 18ٹرین مسافر بھی ہلاک ہوئے تھے۔ اور مہلوکین میں پاکستانی سپاہی بھی شامل تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق بلوچ باغیوں سے ہومگر اس کی ذمہ داری لشکر طیبہ سے ملحقہ تنظیم نے قبول کر لی ہے۔

بہرحال کشمیر کے عوام کے لیے امن و سکون فی الحال میسر نہیں کیونکہ حالات سے سب سے زیادہ متاثر کشمیری عوام ہی ہوتے ہیں۔ گزشتہ چالیس برس سے جنت ارضی کہلانے والا کشمیر جہنم عظیم بنا ہوا ہے۔

15اگست1993سے 22اپریل 2025تک دہشت گردی کے کم از کم 25واقعات پیش آئے ہیں جن میں 14فروری 2019کو پلوامہ میں سی آر پی ایف کے ایک قافلے کو اڑا دینے کا واقعہ شامل ہے جس میں 40سیکوریٹی فورسس کے جوان ہلاک ہوئے تھے، اس سے پہلے 18ستمبر 2016کو لائن آف کنٹرول کے قریب URI میں آرمی کیمپ پر حملہ بھی شامل ہے۔ جس میں 18سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔

مارچ 2003میں گیارہ خواتین اور بچوں کے بشمول 24 کشمیری پنڈتوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔ اکتوبر 2001میں جموں کشمیر لیجسلیچر کامپلکس سری نگر میں فدائین حملے میں 36افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ جموں اور کشمیر میں علاحدگی پسند قائدین اور تنظیموں کا اثر ختم ہو چکا ہے بیشتر قائدین کی زندگی کا زیادہ تر حصہ جیلوں میں گزچکا ہے۔ انہیں اب پچھتاوے کا احساس ہے کیونکہ کشمیر کے سیاسی اور مذہبی قائدین نے کشمیری نوجوانوں کو کشمیر کے آزادی کے نام پر استعمال کیا، ان کے مستقبل سے کھلواڑ کیا اور خود اپنی اولاد کو کشمیر سے دور مغربی ممالک میں رکھا۔

جس وقت تک کشمیری عوام اور نوجوانوں کو اسکا احساس ہوتا دیر ہو چکی تھی، وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ جذباتی قیادت نے کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم کثیر آبادی والی ریاستیں ہمیشہ مسائل کا شکار رہی ہیں۔

پہلگام سانحہ پر کشمیر کے مسلمان احتجاج کر رہے ہیں مگر ہندوستان کی دوسرے ریاستوں میں پاکستان کے خلاف ہونے والا احتجاج کہیں فرقہ وارانہ فسادات کا سبب نہ بن جائے اس بات کا اندیشہ ہے۔

اپوزیشن ارکان کا یہ سوال واجبی ہے کہ اگر انٹیلیجنس اور سیکوریٹی فورسس الرٹ ہوتے تو اس قسم کا واقعہ کیوں کر پیش آتا؟ سری نگر کے لال چوک پر بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا جس میں لفٹنٹ جنرل اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے استفا کا مطالبہ کیا ہے۔ عوام اور میڈیا دونوں ہی پاکستان سے بدلہ لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ بالاکوٹ جیسی سرجیکل اسٹرائک کی جائے۔

جو بھی ہو اس واقعے کے بعد آلانڈیا پرسنل لا بورڈ نے اپنے احتجاجی پروگرامس کو کچھ دنوں کے ملتوی کر دیا ہے۔ جمیعت العلماء ہو یا مجلس اتحاد المسلمین سبھی ایک زباں ہو کر اس واقعے کی مذمت کی ہے، دیکھنا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہندوستانی حکومت کیا اقدام کرتی ہے اور اس کا مختلف سیاسی جماعتوں پر کس قدر مثبت اور منفی اثر پڑتا ہے۔


 

Comments are closed.