عدالت عظمیٰ کی گواہی: اپنی اردو تو محبت کی زباں ہے پیارے

ڈاکٹر سلیم خان
اردو کے تعلق سے سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ یوگی ادیتیہ ناتھ جیسے بدبخت سیاستدانوں کے لیے تازیانۂ عبرت ہے جو زبان و مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلا کر اپنی سیاست چمکاتے ہیں ۔ پچھلے دنوں اترپردیش اسمبلی کے اجلاس میں بی جے پی حکومت نے اعلان کیا کہ اراکین اسمبلی اب بھوجپوری، اودھی، برج اور بندیل کھنڈی میں بھی اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔ اس پر سماج وادی پارٹی کے قائد ماتا پرساد پانڈے نے کہا کہ اتر پردیش کے اندربڑی تعداد میں لوگ اردو بولتے ہیں، اس لیے اسے بھی اسمبلی کی کارروائی میں شامل کیا جانا چاہئے۔یہ سنتے ہی وزیر اعلیٰ یوگی کو مرچی لگ گئی اور انہوں نے اس پر جواباﹰ کہہ دیا کہ جو لوگ اردو پڑھانے کی وکالت کرتے ہیں وہ ملک کو’ کٹھ ملا پن‘ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، لیکن ایسا نہیں چلے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ بچوں کو مولوی بنانا چاہتے ہیں جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہو گا۔ یوگی کے اس نفرت انگیز بیان کے ساتھ یار دوستوں نے ان کی پرانی تقریر میں کہا ہوا اردو شعر چسپاں کہہ کر کےعار دلانے کی کوشش کی ۔ اتفاق سے اس شعر کا مفہوم بھی ان کی شخصیت پر من و عن صادق آتا ہے ۔ یوگی نے ایوان کے اندر کہا تھا؎
بڑا حسین ہے ان کی زبان کا جادو لگاکہ آگ بہاروں کی بات کرتے ہیں
یوپی اسمبلی میں اردو زبان کی مخالفت اب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں ایسا کئی بار ہو چکا ہےیہاں تک کہ اردو میں حلف لینے کا مطالبہ کرنے والے ارکان اسمبلی کو اس سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی گئی اور معاملہ عدالت تک پہنچ گیا ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اردو بولنے والوں کی تعداد تقریباﹰ چھ کروڑ ہے۔ یہ دارالحکومت دہلی کے سمیت ملک کی چھ دیگر ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ بھی رکھتی ہے اور ان میں اترپردیش بھی شامل ہےلیکن صوبے کےپڑھے لکھے جاہل وزیر اعلیٰ کو ان حقائق کا علم نہیں ہے۔اسی لیے عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ نے کہا "یہ نہایت مضحکہ خیز ہے کہ یوگی نے اردو کے خلاف بیان بازی کرتے ہوئےچار منٹ بیس سیکنڈ میں نو مرتبہ اردو الفاظ استعمال کیے۔”اس طرح گویایوگی نے خود کو کٹھ ملا ثابت کردیا۔ فرہنگ آصفیہ کے مطابق ‘کٹھ ملا’ کا مطلب ‘کم پڑھا لکھا’ ہوتا ہے جبکہ فیروزاللغات میں اس لفظ کے معنی ‘جاہل، دقیانوسی’ لکھا ہے۔یہ دونوں صفات یوگی جی میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں ۔ یوگی جیسےجاہلوں پر تو احمد وصی کا یہ خوبصورت شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آجاتا ہے؎
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے بدبو آئے ایسی بولی نہیں بولے جسے اردو آئ
یوگی کونہیں پتہ کہ ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے ابتدائی تعلیم ایک مدرسےکے اندر اردو میں حاصل کی تھی۔اردو کے مشہور شاعرآنند نرائن ملا نے لکھنو کے فرنگی محل مدرسے میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، آگے چل کر انہوں نے قانون کی پڑھائی کی اور 1955 میں ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ آنند نرائن ملا نے بھی کمال کی پیش قیاسی کرتے ہوئے اترپردیش کی پولیس کے بارے میں جو تبصرہ کیا تھا وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا تھا ، "پولیس جرائم پیشہ لوگوں کا سب سے منظم گروہ ہے۔” فی الحال وہ جرائم پیشہ گروہ یوگی ادیتیہ ناتھ کی سر براہی میں وزارت داخلہ کے تحت بالائے قانون انکاونٹر کی آڑ میں قتل و غارتگری کرتا پھررہا ہے۔ آنند نرائن ملا کا یہ بیان تو یوگی جیسے خر دماغ لوگوں کے سمِ قاتل ہے کہ ‘اردو میری مادری زبان ہے، میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں لیکن مادری زبان نہیں چھوڑ سکتا۔” آنند نرائن ملا جیسے عالم و فاضل جج نے یوگی جیسے اوباش سیاستدانوں کے بارے میں کیا خوب کہا تھا ؎
ملاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی
عدالتِ عظمیٰ کے حالیہ فیصلے میں اردو زبان کووطنِ عزیز میں ’’گنگا جمنی تہذیب‘‘ کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’زبان خیالات کی ترسیل کا ایک ذریعہ ہے، جو مختلف الخیال اور الگ الگ عقائد رکھنے والوں کو قریب لاتی ہے۔ اس لیے اسے ان میں تقسیم کا سبب نہیں بنانا چاہیے۔‘‘ یہ نہایت مفید مشورہ ہے لیکن عوام سے بڑے بڑے وعدے کرکے اقتدار میں آنے والے یوگی جیسے سیاستدانوں کی مجبوری ہے کہ وہ لوگوں کو آپس میں لڑا کر انہیں الجھائے رکھیں ۔ ایسے لوگ انگریزوں کے اصلی وارث ہیں اور ان کی’ لڑاو اور راج کرو ‘کی حکمتِ عملی پر عمل کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو سپریم کورٹ نے تلقین کی ہے کہ وہ زبان کو معاشرے کی ثقافتی اور تہذیبی ترقی کی علامت کے طور پر دیکھیں ۔عدالتِ عظمیٰ نے اردو کو شمالی اور وسطی ہندوستان کے میدانی علاقوں میں پائی جانے والی جامع ثقافت کے اقدار پر مبنی زبان قرار دیا اور خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہندوستانی تہذیب کا بہترین نمونہ ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎
ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں
عدالت نے اردو کے خلاف تعصب کی وجہ بتا تے ہوئے کہا کہ اس کے حوالے سےیہ غلط فہمی پھیلادی گئی کہ یہ ہندوستانی نہیں بلکہ غیرملکی زبان ہے یعنی اسے مسلمان حکمراں بدیس سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ یہ سراسر غلط بات ہے کیونکہ ان کے ساتھ فارسی آئی تھی جبکہ اردو تو یہیں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس رائے کی تردید کی اور مراٹھی و ہندی کی طرح اردو کےبھی ایک ہندوستانی زبان ہونے کی تصدیق کی ۔ فیصلے میں صاف طور پر لکھا ہے کہ اردو زبان نے بھی اسی سرزمین پر جنم لیا ہے۔ صدیوں کے عرصے میں پہلے سے کہیں زیادہ نکھار حاصل کرکے یہ زبان بہت سارے معروف شعراء کی پسندیدہ زبان بن گئی ہے۔عدالت نے کہا، ’’ہماری غلط فہمیوں اور زبان کے خلاف تعصبات کو ہمت اور سچائی کے ساتھ پرکھنے اور آزمانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری قوم کا عظیم تنوع ہےاور ہماری طاقت کبھی بھی کمزوری نہیں ہو سکتی۔‘‘ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تمام زبانوں کی اہمیت پر زور دیا مگر جاوید صبا تو آگے بڑھ کر اردو کا یہ امتیاز بتاتے ہیں ؎
ایک ہی پھول سے سب پھولوں کی خوشبو آئے اور یہ جادو اسے آئے جسے اردو آئے
فی الحال جموں کشمیر کے بعد ریاست مہاراشٹر اور تلنگانہ اردو کی تعلیم و تریج کے اہم مراکز ہیں۔ اتفاق سے مہاراشٹرہی کے ضلع اکولا میں واقع پاتور سے تعلق رکھنے والی ایک سابق میونسپل کونسلر ورشتائی سنجے بگاڑے نے بلدیاتی کتبوں پر مراٹھی زبان کے ساتھ ساتھ اردو کے استعمال کو چیلنج کیا تھا۔ ان کی دلیل یہ تھی اردو زبان کا استعمال غلط ہےکیونکہ میونسپل کونسل کا کام صرف مقامی زبان مراٹھی میں ہی ہونا چاہیے یہاں تک کہ نام کی تختیوں پر بھی اردو نہیں لکھی جانا چاہیے۔ماحول بگاڑنے کی خاطر محترمہ بگاڑے نے اردو زبان کے استعمال کے خلاف پہلے ایک نچلی عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ وہاں پرناکامی کے بعد انہوں نے ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ۔ عدالت عالیہ میں بھی ان کے ہاتھ ناکامی ہی لگی مگر وہ نہیں مانیں بلکہ ضد پکڑ کر عدالتِ عظمیٰ پہنچ گئیں۔ تاہم ہر جگہ انہیں ناکام ہونا پڑا پھر بھی اردو والوں کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ ان کے خلاف سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سنا کریوگی جیسے لوگوں کی چونچ بند کردی ۔عدالت نے کہا کہ اگر میونسپل کونسل کے زیر اثر ’’علاقوں میں رہنے والے لوگ یا ان کا ایک گروہ اردو سے واقف ہیں، تو سرکاری زبان یعنی مراٹھی کے علاوہ کم از کم میونسپل کونسل کے سائن بورڈز پر اردو استعمال کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ اس کے ساتھ یہ خوشگوار تلقین بھی کی کہ ، ’’آئیے، ہم اردو اور اپنی تمام زبانوں کے دوست بنیں کیونکہ زبان کا تعلق مقامی برادری، علاقے اور وہاں کےباشندوں سے ہوتا ہے۔ اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔‘‘ صفی انبالوی بھی یہی کہتے ہیں؎
اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے اف سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے
عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی حقانیت کا اعتراف کرنے کی خاطر اردو کی تاریخ پر غائرنظر کافی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ 1837 تک ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی تھی مگر پھر اردو نے اس کی جگہ لے لی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دہلی سلاطین اور مغل حکمران اردو کے فروغ کی بابت کتنے سنجیدہ تھے۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابتدائی ایام میں اس کی ترویج کے اندر دکن کی سلطنتوں کا اہم کردار رہا ہے۔دکنی سلطنتوں کو سیاسی وجوہات پر اردو عزیز تھی کیونکہ دہلی والے فارسی کو سینے سے لگائے ہوئے تھے ۔ آزادی کے بعد جب پاکستان نے اردو کو قومی زبان قرار دیاتو ہندوتوا نواز اردو کےخلاف ہوگئے جبکہ وہ خالص ہندوستانی زبان ہے ۔اردو کے حوالے سے ماضی بعید میں دکنی سلطنتوں کی سرپرستی سےزبان کو فائدہ پہنچا جبکہ تقسیم ہند کے بعد بغض و عناد میں اردو کو ہندی سے لڑا کر اسے نقصان پہنچایا گیا جبکہ منور رانا کے بقول ؎
سگی بہنوں کا جو رشتہ ہے اردو اور ہندی میں
کہیں دنیا کی دو زندہ زبانوں میں نہیں ملتا
Comments are closed.