دہشت گردوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے والے 4 اقدام…

 

یوگیندر یادو

 

امریکی نائب صدر کے دورۂ ہند کے درمیان اتنا بڑا حملہ کرنے کے پیچھے دہشت گردوں کے آقاؤں کی ضرور یہ سوچ رہی ہوگی کہ اس سے برسراقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان تو تو، میں میں ہوگی.

پہلگام میں دہشت گردوں کے ذریعہ بے قصور شہریوں کے بہیمانہ قتل کی تصویریں دیکھ کر کس انسان کا کلیجہ نہیں پھٹے گا، کس انصاف پسند شخص کا خون نہیں کھولے گا؟ ذمہ داری طے کرنے اور سزا دینے کی خواہش ہوگی، فوراً بدلہ لینے اور سبق سکھانے کا مطالبہ ہوگا۔ دہشت گرد یہ جانتے ہیں، اور یہی چاہتے ہیں۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں دہشت گرد یہ منصوبہ بناتے ہیں کہ ان کی کس کارروائی سے کس طرح کا رد عمل ہوگا۔ جذبات کے ابال میں ہم اکثر ٹھیک وہی سب کرتے ہیں، جو دہشت گرد ہم سے کروانا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیابی یہ نہیں ہے کہ ہم نے کتنا غصہ دکھایا، کتنا جلدی بدلہ لیا۔ ہماری سچی کامیابی یہ ہوگی کہ ہم نے دہشت گردوں کے اصل منصوبوں کو کس طرح سمجھا اور ناکام کیا۔

 

امریکی نائب صدر کے دورۂ ہند کے درمیان اتنا بڑا حملہ کرنے کے پیچھے دہشت گردوں کے آقاؤں کی ضرور یہ سوچ رہی ہوگی کہ اس سے برسراقتدار طبقہ اور حزب اختلاف کے درمیان تو تو، میں میں ہوگی، ہندوستان کی کمزوری دنیا کے سامنے ابھرے گی۔ اس لیے ہماری پہلی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس وقت الزام تراشیوں کی سیاست سے باز آ جائیں۔ چاہے مہاکمبھ میں ہوئی موت ہو یا پھر دہلی اسٹیشن پر بھگدڑ میں ہوئی موت، کسی بھی حادثہ کے فوراً بعد اجتماعی غم کی جگہ جوتم پیجار زیب نہیں دیتا۔ یہ وقت غمزدہ کنبوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے، اپنے سیاسی حساب کتاب کا نہیں۔ لیکن جب یہ کھیل دہشت گردانہ حملے کے بعد کھیلے جاتے ہیں تو صرف نازیبا ہی نہیں، ملک کو کمزور کرنے والے قدم ثابت ہوتے ہیں۔ بے شک اپنے زمانے میں بی جے پی نے کھل کر ایسے کھیل کھیلے تھے۔ نریندر مودی نے تو 2009 کے دہشت گردانہ حملے کے درمیان ممبئی جا کر منموہن سنگھ حکومت کی تنقید کرتے ہوئے پریس کانفرنس تک کی تھی۔ لیکن اگر اس وقت اپوزیشن غلط تھا تو آج بھی اپوزیشن کے ذریعہ ایسی کوئی حرکت غلط ہوگی۔ ذمہ داری طے کرنے کا وقت آئے گا، لیکن آج وہ وقت نہیں ہے۔ آج گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر داخلہ یا وزیر اعظم کا استعفیٰ مانگنے کا وقت نہیں ہے۔ اگر ہم دہشت گردوں کے منصوبوں کو ناکام کرنا چاہتے ہیں، تو نظریات کی دیوار کے آر پار سبھی ہندوستانیوں کو آج ایک ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے کا بیان اور حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی کے ذریعہ وزیر داخلہ امت شاہ کو فون کر حمایت دینا صحیح سمت میں صحیح قدم ہے۔

 

دہشت گردوں کا دوسرا منصوبہ یہ رہا ہوگا کہ اس قتل عام سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ کر دھماکہ خیز نکتہ پر پہنچ جائے۔ عوام کے غصے کے دباؤ میں حکومت ہند کو جلدبازی میں کچھ جوابی کارروائی کرنی پڑے۔ ہندوستان-پاکستان میں سرحد پر کشیدگی بڑھے گی تو پاکستان کی سیاست میں فوج کا وزن بڑھے گا، دہشت گردوں کے سرغنہ مزید طاقتور بنیں گے۔ اگر ہم دہشت گردوں کی اس حکمت عملی کو ناکام کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم حکومت پر فوراً بدلے کی کارروائی دکھانے کا دباؤ نہ بنائیں۔ پہلگام قتل واقعہ کی ذمہ داری پاکستان واقع دہشت گرد تنظیم نے لی ہے، ویسے بھی یہ صاف تھا کہ اس واقعہ کے تار پاکستان سے جڑے ہیں۔ ظاہر ہے حکومت ہند کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ لیکن جلدبازی اور دباؤ میں کی گئی کسی کارروائی سے ٹی وی کی سرخیاں تو بن جاتی ہیں، ووٹ بھی مل سکتے ہیں، لیکن دہشت گردی پر لگام نہیں لگتی۔ 2009 کے ممبئی دہشت گردانہ حملے کے بعد حکومت ہند نے اوپری طور پر بدلہ لینے کی جگہ خاموشی سے پاکستان کو بین الاقوامی اسٹیجوں پر دہشت گرد حامی ثابت کرتے ہوئے اسے الگ تھلگ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ سبق یہ ہے کہ حکومت پر فوری دباؤ ڈالنے کی جگہ اس پر بھروسہ کیا جائے تاکہ فوج، سیکورٹی ایجنسیاں اور سفارت کار درست وقت پر اور اپنے طریقے سے دہشت گردی کے پاکستانی آقاؤں کو جواب دے سکیں۔

 

پہلگام کے دہشت گردوں کی تیسری سازش یہ رہی ہوگی کہ اس سے کشمیر اور بقیہ ہندوستان کے درمیان کا شگاف مزید بڑھ جائے گا۔ پاکستانی فوج کے اشارے پر چلنے والے دہشت گردوں کی درندگی کا ٹھیکرا ہمارے اپنے کشمیری عوام کے ذریعۂ معاش پر حملہ ہے۔ اس سال کشمیر میں ٹورسٹ بڑی تعداد میں آنے شروع ہوئے تھے۔ یہ حملہ انھیں روکنے کے لیے تھا۔ ایسے واقعہ کے بعد کم از کم اس ٹورسٹ سیزن میں تو کشمیر کا سب سے بڑا دھندا ٹھپ پڑ جائے گا۔ ہزاروں کنبوں کا روزگار چھن گیا ہے۔ کشمیری بھی اس دہشت گردانہ واقعہ کے شکار ہیں۔ دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے سید حسین شاہ نے اپنی جان قربان کر دی ہے۔ کشمیر کے تمام سیاسی لیڈران اور پارٹیوں نے اس قتل واقعہ کی مذمت کی ہے۔ پہلی بار کسی دہشت گردانہ واقعہ کے خلاف پورا کشمیر بند ہوا ہے، مسجدوں سے اس کے خلاف پیغامات دیے گئے ہیں۔ اگر ہم سمجھ داری دکھائیں تو اس مشکل وقت میں کشمیر اور بقیہ ہندوستان کو ایک دوسرے کے نزدیک لا کر دہشت گردوں کو منھ توڑ جواب دینے کا موقع بن سکتا ہے۔

 

پہلگام کے دہشت گردوں کی سب سے گہری سازش ہندوستان میں ہندو-مسلم کے درمیان جھگڑا فساد کروانے کی ہے۔ انھوں نے اپنے شکاروں کی شناخت اس کے مذہب سے کی، چن چن کر ہندوؤں کو مارا۔ ان کا منصوبہ صاف تھا، انھیں بھروسہ تھا کہ ہندوستان میں بہت لوگ ان کی نقل کریں گے۔ جیسے انھوں نے مذہب کے نام پر انسانوں کو مارا، اسی طرح دوسرے لوگ بھی اب مذہب کے نام پر حملہ کریں گے۔ ہندو-مسلم کی آگ میں ہندوستان کو جلانے کی یہ سازش ہے۔ اس لیے جو بھی پاکستانی دہشت گردوں سے بدلہ لینے کے نام پر ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہے، جو نام اور کپڑوں سے انسان کی شناخت کرتا ہے، وہ دہشت گردوں کی سازش کا حصہ بنتا ہے۔ پہلگام میں قتل عام ہندوستان میں نفرت کی آگ پھیلانے کا منصوبہ ہے۔ ہندو-مسلم اتحاد کا عزم لینا اور کہیں بھی فرقہ وارانہ آگ نہ لگنے دینا ہی پہلگام کے دہشت گردوں کو سب سے سخت جواب ہے۔

Comments are closed.