نیہاسنگھ راٹھور: سل گئے ہونٹ کوئی زخم سلے یا نہ سلے؟

 

ڈاکٹر سلیم خان

ظالم حکمراں اوپر سے جو بھی نظر آئے مگر اندر  نہ  صرف کمزوربلکہ  بزدل بھی ہوتا ہے۔ اپنےدل کا  خوف  چھپانے کی خاطر وہ دوسروں کو ڈراتا ہے ۔ تمام   تربلند بانگ دعووں کے باوجود وہ کبھی نیہا سنگھ راٹھور جیسی ابلہ ناری سے ڈر جاتا ہے اور کبھی کنال کامرا کے ہاتھوں رسوا ہوتا ہے۔   نیہا سنگھ کوڈرانے میں جب  ٹرول آرمی ناکام ہوجاتی ہےتو ان کی آواز کو کچلنے کی خاطر  نیہا کے خلاف ایف آئی آر میں ان پر ملک سے بغاوت کا الزام لگا دیا جاتا ہے  مگروہ  اس جبر سے بھی نہیں    ڈرتی  بلکہ  پہلے سے بڑا  حملہ کردیتی ہیں  ۔ سوال یہ ہے کہ نیہا کا قصور کیا ہے ؟ اس کا جواب آسام کے وزیر اعلیٰ  ہمنتا بسوا سرما نے اپنی اسمبلی کے رکن امین الحسن کی گرفتاری کا جواز پیش کرتے ہوئے یہ دیا کہ ’’ پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیہا یا امین نے تو پاکستان کا ذکر ہی نہیں کیا پھر قصہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ہمانتا بسوا سرما کے پاس یہ ہے کہ’ پہلگام میں ہونے والے حملے پر سوال اٹھانے والوں کو گرفتار کریں گے‘۔ ان بیچاروں کو سوال سے ڈر لگتا ہے کیونکہ جواب نہیں ہے اور اگر امین الحسن جیسا کوئی دلیر شخص غیر جانبدارانہ تفتیش کا مطالبہ کردے تو ان کی نانی مر جاتی ہے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر یہ انہیں  گرفتار   کرلیتے ہیں ۔

سنگھ پریوار کے مہرے ابھے پرتاپ سنگھ نے  اپنی ایف آئی آر میں نیہا سنگھ راٹھور پر اپنے سابق ہینڈل سے پہلگام حملے کے بارے میں کئی قابل اعتراض پوسٹس شیئر کرنے کا الزام لگایا ہے ۔ اس سے  ملک کی سالمیت کو بری طرح متاثر کرنے کی تہمت بھی باندھی گئی  ہے۔ کیا 140کروڈ کی آبادی والے اس وسیع و عریض ملک کی سالمیت اس قدر نازک ہے کہ وہ  چندایکس اور ویڈیو  پیغامات کےآگے بھی نہیں ٹک سکتی ؟ یہ ملک کی سالمیت کا مسئلہ  نہیں  بلکہ عوام کے خدشات کو دور کرنے میں ناکام سرکار کی نااہلی  کا معاملہ ہے ۔ اس ایف آئی آر کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ  اس میں ’مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں کواشتعال دلانے کی  کوشش ‘ کا الزام   ان لوگوں نے لگایا  گیا ہےجو پہلگام حملے کے بعد مسلسل عوام کو مشتعل کر رہے ہیں اور اس کے نتائج  ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف قتل وغارتگری  ، مارپیٹ اور لوٹ پاٹ کی شکل میں ظاہر ہونے لگے ہیں۔

نیہا سنگھ راٹھور کے خلاف  ایف آئی آر میں یہ بھی درج ہے کہ وہ   پہلگام حملے میں مارے جانے والے معصوم لوگوں پر سوال اٹھا کر سماج میں نفرت اور عدم استحکام پھیلا رہی ہے۔دن رات نفرت کی آگ بھڑکا کر اس پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے والوں کے ذریعہ ایسی الزام تراشی سن کر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی آتا ہے۔  وزیر اعظم نے اگر سعودی عرب سے لوٹنے کے بعد پہلگام پر کل جماعتی نشست کو چھوڑ کر مدھوبنی کی  انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا ہوتا تو کسی کو اسے بہار الیکشن  سے جوڑنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس لیے مودی جی نے خود اپنی ایک فاش غلطی سے مخالفین کو ذرین موقع عطا کردیا ۔ اس کا فائدہ تو یقیناً اٹھایا جائے گا کیونکہ وزیر اعظم خودبھی یہی کررہے ہیں ۔ وزیر اعظم کی اس غلطی پر جب سوال اٹھائے جاتے ہیں تو ان کے اندھ بھگتوں کو مرچی لگ جاتی ہے۔ وہ ان کو ہندووں کا دشمن ، ملک کا غدار اور پاکستان کا وفادار تک کہہ دیتے ہیں  لیکن یہ سارے الزامات ان سوالات کا جواب نہیں ہے جو سرکار سے پوچھے جارہے ہیں ۔ان کا جواب ڈرانا دھمکانا نہیں ہے ۔ اس طرح گیدڑ بھپکیوں سے کوئی نہیں ڈرتا۔

نیہا سنگھ راٹھور کاقصور اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انہوں نے پہلگام  کے دہشت گردانہ حملے کی بابت چکنی چپڑی باتیں کرنے کے بجائے اسے سیدھے سیدھے حکومت کی لاپروائی  بتانے کے بعد یہ بھی کہا  کہ بہار کے انتخابات میں حکومت  اس دہشت گردانہ حملے کا سیاسی فائدہ اٹھائے گی۔ نیہا سوال کرتی ہیں کہ  ایک فون کال سے دوسرے ملک میں جنگ روکنے والے  اپنے ہی ملک میں دہشت گرد حملے کوکیوں  نہیں روک سکے ؟ان کا کہنا ہے اندھ بھکت مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ ایسے معاملات پر سیاست اور سوال نہ کرو۔  اس کےجواب میں  وہ پوچھتی ہیں’’ تو میں کیا سوال کروں؟ تعلیم پر، جسے اب کوئی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا۔ یا صحت پر، جس پر سوال اٹھانا اب فیشن سے باہر ہے۔ بتاؤ کس سے سوال کروں؟ بے روزگاری پر جس کے جواب میں آپ کے والد پکوڑے تلنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ارے جب ملک کی سیاست قوم پرستی اور ہندو مسلم کے ایشو پر چل رہی ہے، دہشت گرد حملوں میں ملک کے لوگ مارے جا رہے ہیں، تو میں کس ایشو پر سوال کروں؟‘‘ نیہا  آگے پوچھتی  ہیں، ’’اگر مودی جی کی حکومت میں دہشت گرد حملے ہوتے ہیں اور عام شہری مارے جاتے ہیں،  تو کیا محمد علی جناح اور نہرو جی سے سوال پوچھا جائے گا؟ ‘‘

بہار کے انتخابات میں حملوں کے استعمال کا ذکر کرکےنیہا سنگھ راٹھور نے دو ٹوک انداز میں کہا ’’ اپنی ہی حکومت میں پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے شہیدوں کی موت پر بے شرمی سے ووٹ مانگنے والا یہ شخص پہلگام کے سیاحوں کی موت پر بھی ووٹ مانگے گا‘‘۔ وہ کہتی ہیں  انہیں سوال  پوچھنے سے روکنے والے اندھے بھکت اسے ماسٹر اسٹروک کہہ کر ووٹ بھی  دیں گے ۔ نیہا سنگھ راٹھور نے یہ پیشنگوئی کی ہے کہ ’’ ابھی 2-4 دن کی بات ہے، پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے سہارے  بہار کے انتخابات میں  اندھ بھکت روتے ہوئے نظر آئیں گے اور ڈھونگی جی (پی ایم) کی ریلیں شیئر کرتے دکھائی دیں گے۔نیہا سنگھ راٹھور پر ایف آئی آر میں تعزیرات ہند کی کئی دفعات کے تحت ان پر  مقدمہ درج کرلیا گیا ہے نیز  پولیس نے اس بنیاد پر تفتیش  شروع کرکےفیض احمد فیض کے اس شعر کی یاد دلا دی ہے ؎

آگئی فصلِ جنوں چاک گریباں والو

سل گئے ہونٹ کوئی زخم سلے یا نہ سلے

نیہا  سنگھ پریہ اعتراض بھی  ہے کہ ان کے  ٹویٹس پاکستان میں وائرل ہو رہے ہیں۔ وہاں کا میڈیا انہیں  ہندوستان کے خلاف استعمال کر رہاہے ۔ اس احمقانہ الزام  کی بابت  یاد دلا دیں کہ گلوان حملے کے بعد   وزیر اعظم نریندر مودی کا  ’کوئی نہیں آیا ‘ والا بیان   چین میں خوب  مقبول ہواتھا  اور وہاں کی حکومت  اسے  ہندوستان کے خلاف استعمال بھی  کیا تھا تو کیا اس جہ  سے انہیں قابلِ گردن زدنی ٹھہرایا گیا ؟ ایک مشہور صحافیہ نے پاکستانی میڈیا کی پوسٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا، ‘نیہا راٹھور کے الفاظ دشمن ملک کے موافق  ہیں۔ کچھ لوگ پاکستان کی زبان بولنے میں دیر نہیں کرتے۔ ملک کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ نیہا نے اس  بہتان تراشی کے جواب میں  لکھا کہ ، ’’ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو آگ آپ نے پچھلے دس سالوں میں بھڑکائی ہے، اس کی وجہ سے ملک کمزور ہوا ہے۔ صحافی کا کام حکومتوں سے سوالات کرنا ہے، ان کی چاپلوسی کرنا نہیں۔

نیہا سنگھ نے یہ انکشاف  بھی کیا ان کا پورا خاندان  فوج  میں ہے، اس لیےانہیں  حب الوطنی کا درس نہ دیا جائے۔ فوج میں بی جے پی کے تمام رہنماؤں کے بچوں کی کل تعداد سے زیادہ، میرے اپنے خاندان کے افراد نے اپنی جان خطرے میں ڈالی ہے،  لیکن آج بی جے پی کا آئی ٹی سیلانہیں  غدار کہہ رہا ہے کیونکہ وہ بلا خوف وخطر  سوال کرتی ہیں۔ ایک  معروف چینل نے جب سوال کیا کہ کیا نیہا سنگھ راٹھور پاکستان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں؟ ملک کی مخالفت میں اتنا آگے کیسے  نکل گئیں ؟ نیہا نے اس کے  ردعمل میں موصوفہ کو ان کا فرضِ منصبی یاد دلا تے ہوئے لکھا، ’’کیاتمام  نیوز چینلز میں ایک بھی صحافی ایسا نہیں ہے جو حکومت، وزیر اعظم اور ملک میں فرق جانتا ہو؟ حکومت سے سوال کرنا کب سے غداری بن گیا؟ ‘‘ اس کے بعد گودی میڈیا پر ہلہ ّ بولتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ’’میں گودی چینلز کو چپراسی اور چاپلوس کہوں گی، میں یہی کہتی رہوں گی جب تک یہ چینلز حکومتوں کی چاپلوسی بند کر کے سوال پوچھنا شروع نہیں کر دیتے‘‘۔ وہ پوچھتی ہیں  کیا وزیراعظم سے سوال پوچھنا غداری ہے؟

نیہا کے خلاف ایف آئی آر میں یہ مطالبہ بھی  کیا گیا ہے کہانکے بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات کی جائیں تاکہ مبینہ طور پر غیر ملکی فنڈنگ کے ذرائع کا پتہ لگایا جا سکے۔ صدیق کپن پر بھی یہی بے بنیاد الزام لگایا گیا جو عدالت میں ٹِک نہیں سکا۔  نیہا نے اپنے ویڈیو میں انکشاف کیا کہ ان کے بنک اکاونٹ میں جو  پانچ سو روپیہ  ہے جسے  وہ طبلے والے کو نغمہ فلمبند کرنے کے لیے  دینے جارہی ہیں۔نیہا کے وکلاء نے اس ایف آئی آر کو  بجا طور پرسیاسی انتقام اور اظہارِ رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنے کے مترادف قرار  دیا ۔ سچائی یہی ہے کہ  اپنے بھوجپوری  نغموں سے عوامی مسائل کو اجاگر کر نے والی نیہا کے خلاف مقدمات اظہار رائے کی آزادی کاحق سلب کرنے جیسا ہے۔ اس طرح کے جبرو استبداد سے نیہا سنگھ راٹھور یا  امین الاسلام اور رعنا ایوب یا محمد زبیر جیسے جیالے لوگوں  کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرنا ناممکن ہے کیونکہ بقول اقبال ؎

آئینِ جوانمرداں، حق گوئی و بےباکی

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی

Comments are closed.