نمونہٴ اسلاف حضرت مولانا عبد السلام صاحب قاسمی ؒ : ایک عہد ساز شخصیت

نور الامین انیسی، بیت النور، ڈھاکہ
سانولا رنگ، معصوم چہرہ، چہرے پر چمکتی ہوئی سفید داڑھی، سر پر دو پلی ٹوپی، آنکھوں پر چشمہ، پیشانی پر سجدے کے نشان، سادہ لباس، متانت و سنجیدگی کا بحر بیکراں، تواضع وانکساری کا اتھاہ سمندر، گھمنڈ وتکبر اور اناپسندی سے کوسوں دور، بزم کے میر کارواں، بیشتر دینی جلسوں کے صدر نشیں، جن کی دعا پر جلسوں کا اختتام، درس وتدریس کے بے تاج بادشاہ، علاقہ کے اکثر نماز جنازہ کے امام، بیشتر نکاحوں کے نکاح خواں، جمعیتہ علماء مشرقی چمپارن کے صدر، پیرانہ سالی میں بھی بلند آواز، استاذ الاساتذہ کے لقب سے مشہور، حضرت کے نام سے معروف، سرکار کے اسم سے موسوم، جامع المعقول والمنقول کے ٹائٹل سے شہرت یافتہ، باصلاحیت استاد، کامیاب صدر المدرسین، مطالعہ کے شوقین، احادیث وقرآنی آیات کا استحضار، ممتاز عالم دین، بہترین واعظ، حاضر جواب، اصول پسند، وقت کے پابند، ماہر مدبر اور منتظم، شریف النفس، سادہ لوح، نرم دل، خوش مزاج، مستجاب الدعوات، اخلاق حمیدہ سے متصف، اقبال کا ‘مرد مومن’، حلم و بردباری کے اعلی معیار پر فائز، ایثار وقربانی کے جذبہ سے سرشار، اخلاص وللہیت کا حسین تاج محل، علاقے کی سن رسیدہ اور برگزیدہ شخصیت، اسلاف کی روایات کے امین، بہت سارے مدارس کے سرپرست، چمپارن اور ضلع روتہٹ نیپال کے سرخیل، یہ وہ اوصاف وکمالات ہیں جن کے جامع حضرت مولانا عبد السلام صاحب قاسمی علیہ الرحمہ تھے، بقول میر تقی میر:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
ان کی پیدائش بہار اور نیپال کے بین الاقوامی سرحد پر واقع ایک بستی بلوا گواباری (جو راقم سطور کا آبائی وطن بھی ہے)، ضلع مشرقی چمپارن میں ایک متوسط گھرانے میں ہوئی۔ ان کا گھرانہ دینی اور علمی تھا۔ ان کے والد مولوی عبدالرحمن اور دادا مولوی عبدالواحد صاحب رحمہما اللہ اپنی بستی میں رضاکارانہ طور پر گاہے بہ گاہے امامت کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ، تین صاحبزادیاں (ایک صاحبزادی وفات پاچکی ہے) اور دو صاحب زادے جناب عبد الوہاب اور جناب قاری مناظر حسن صاحب ہیں۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب میں مولوی عبداللہ راجپوری رح کے پاس حاصل کی، ان کے مکتب کے ساتھیوں میں جناب توحید صاحب مرحوم بلوا گواباری، اور جناب حاجی مکی صاحب بلوا گواباری ہیں، جو اب بھی بقید حیات ہیں، اس کے بعد مدرسہ اسلامیہ ایجوربارہ، مشرقی چمپارن میں مختصر مدت کے لیے انہوں نے دینی تعلیم حاصل کی۔ یہاں ان کے اساتذہ کرام میں مولانا عبد الودود صاحب مڑلی علیہ الرحمہ کا نام قابل ذکر ہے۔ اس کے بعد مزید علمی پیاس بجھانے کے لیے علاقے کے مشہور ومعروف مدرسہ اور چمپارن کے ام المدارس آزاد مدرسہ اسلامیہ کا انھوں نے رخ کیا۔ اس وقت حافظ محمود صاحب رح کی نظامت کا دور تھا۔ یہاں کے اساتذہ سے انہوں نے شرح جامی تک مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھیں ان کے مشہور اساتذہ میں حضرت مولانا محمد نظیر احمد صاحب پنڈری رح ناظم و بانی ضیاء العلوم رکسول، حضرت مولانا زبیر صاحب رح سابق صدر المدرسین آزاد مدرسہ ڈھاکہ، حضرت مولانا عبدالحنان صاحب قاسمی لہسنیاوی رح ہیں جن سے انہوں نے خوب اکتساب فیض کیا۔
آزاد مدرسہ میں اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے لیے رخت سفر باندھا، جہاں دیگر علوم و فنون کے ساتھ، فقہ، حدیث اور تفسیر میں علمی کمال پیدا کیا۔ ان کے کبار اساتذہ میں بطل حریت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رح، متکلم اسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب رح، شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی رح اور علامہ بہاری احمد حسین رح وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں، دارالعلوم دیوبند میں اپنے زمانے کے ممتاز طالب علموں میں شمار ہوتے تھے، حضرت مفتی سعید صاحب پالن پوری رح سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند ان کے درسی ساتھیوں میں سے تھے جن کے بارے میں وہ فرمایا کرتے تھے مجھ سے پڑھنے میں نسبتاً کم صلاحیت کا مالک تھا، لیکن اپنی جہد مسلسل اور محنت کی وجہ سے مجھ سے بہت آگے بڑھ گیا۔
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم تعبیر ہو جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
دیوبند کے اندر ان کے ہم وطن ساتھیوں میں مولانا کوثری رح چمپارنی اور مولانا اوقیس صاحب مغربی چمپارن سابق مبلغ دارالعلوم دیوبند کے نام نمایاں ہیں۔ تقریر کے ساتھ تحریری صلاحیت بھی اچھی تھی صاف، شستہ اور شائستہ زبان لکھتے تھے، ان کی تحریر مختصر مگر جامع اور مانع ہوتی تھی، لیکن باضابطہ تصنیف کی شکل میں ان کی کوئی تحریر موجود نہیں ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں طالب علمی کے زمانے میں شعر و شاعری سے بھی کافی دلچسپی تھی، ایک موقع پر اوریا ضلع روتہٹ نیپال میں شیوہر پارلیمانی حلقہ کے سابق ایم پی جناب ہری کشور سنگھ جو غالبا اس وقت پاکستان کے سفیر تھے، مولانا مرحوم نے شاعرانہ انداز میں ان کا استقبال کیا تھا۔
مرحباً اہلا و سہلا اے سفیر ہندو پاک تیرے آمد سے ہوئی ارض اوریا صد بہار
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد درس و تدریس کا آغاز اپنے پڑوسی ملک نیپال کے ضلع روتہٹ کی ایک بستی جو کہا سے کیا۔ مدرسہ انوار الاسلام موتی گنج جوکہا میں پہلے مختصر مدت کے لیے مدرس پھر صدر المدرسین بنائے گئے جہاں پر انہوں نےتقريبا 12 سال تک طالبان علوم نبوت کو اپنے دریائے علم سے سیراب کیا۔ ان کے دور میں حفظ و ناظرہ کے ساتھ شرح جامی تک عربی کی تعلیم ہوتی تھی۔ وہاں کے دیگر اساتذہ کے ساتھ انتظامیہ کا سلوک اچھا نہیں تھا تو مشورہ کے بعد مولانا بھی ان حضرات کے ساتھ اجتماعی طور پر مدرسہ سے سبکدوش ہو گئے۔ اس کے بعد ہند و نیپال کے بارڈر پر واقع مدرسہ بحر العلوم گھوڑاصحن میں 21 دسمبر 1977 سے 17 اکتوبر 1969 تک صدر المدرسین کے منصب پر فائز رہے ، یہاں پر بھی مختصر مدت کے لیےان کا چشمہ فیض خوب جاری رہا۔ مدرسہ کے عقبی حصہ میں جو پرانی عمارت ہے اس کا صرف مغربی کمرہ اور برآمدہ ہی مسقف تھا، کسی صاحب خیر کی طرف سے دیے گئے چاندی کی دو ہنسلی کو فروخت کر کے اور نیپال سے ساگوان کی لکڑی منگا کر باقی کمروں کی چھت کی تعمیر انھوں نے مکمل کرائی: ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
اس کے بعد جناب حافظ محمود صاحب علیہ الرحمہ کے دور نظامت میں ان کی اصرار پر سنہ 1980 میں آزاد مدرسہ اسلامیہ ڈھاکہ میں صدر المدرسین کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوئی، جہاں پر وہ ایک طویل عرصہ تک علم کے موتی بکھیرتے رہے، علاقے کے مختلف بستیوں سے تشنگان علوم نبوت آکر ان کے دریائے علم سے اپنی علمی تشنگی دور کرتے رہے، ان کی علمی، فقہی، ادبی صلاحیت اور علمی لیاقت کا چرچہ علمی حلقوں میں خوب تھا، ڈھاکہ مشرقی چمپارن کے اس مرکزی مدرسہ میں جب تعلیمی ماحول عروج پر تھا اس زمانے میں عربی ششم میں جلالین شریف کے ساتھ ادب، فقہ، منطق اور فلسفہ کی کتابیں اور ترجمہ قرآن عمدہ اسلوب کے ساتھ پڑھاتے تھے، افہام و تفہیم کی صلاحیت بہت شاندار اور جاندار تھی اور اساتذہ و طلباء کے درمیان فن صرف ونحو کے امام سمجھے جاتے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے قیمتی 45 سال کو اس محبوب ادارے کے لیے وقف کر دیا۔ ہر طرح کے زیرو بم اور اتارو چڑھاؤ کے باوجود اس ادارے سے ان کو اتنی بے پناہ محبت تھی کہ آخری سانس تک اس ادارے سے جدا ہونا گوارا نہیں کیا، صدر المدرسین کے عہدے پر تادم حیات فایز رہے، پرائیویٹ مدارس کی جو صورتحال ہے اس کی روشنی میں ایک ہی ادارہ میں اتنی طویل مدت تک دین حنیف کی خدمت انجام دینا کسی کرامت سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے دینی خدمت کے لیے اپنے علاقے کو مرکز اور محور بنایا ورنہ ان کی علمی شخصیت ایسی تھی کہ اگر وہ یو پی یا بڑے شہروں کے کسی بڑے ادارہ میں ہوتے تو ان کی حیثیت شیخ الحدیث سے کم کی نہ ہوتی۔ آج ان کا یہ محبوب ادارہ اپنے سچے عاشق اور کامیاب صدر المدرسین کی جدائی، اپنی یتیمی اور بے سہارگی پر ماتم کناں ہے: وہ کیا گئے کہ رونق گلشن چلی گئ.
وہ آزاد مدرسہ کے عاملہ اور شوری کے بھی معزز رکن تھے، 1978 سے 1995 تک جمعیتہ علماء مشرقی چمپارن کے جنرل سکریٹری رہے اور 1995 سے 2008 تک، پھر 2019 سے تا دم حیات جمعیتہ علماء مشرقی چمپارن کی صدارت کی کرسی کو عزت بخشی 1970 80 اور 90 کے دہائی میں مدرسہ کے تعلیمی نظام کو بہت مستحکم کیا۔ وہ خود بھی انضباط وقت کے پابند تھےاور اساتذہ کو بھی اس کا مکلف بناتے تھے، اساتذہ بھی ان کی ہمالیائی شخصیت کی وجہ سے کافی مرعوب رہتے تھے اور ان کو عزت اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مدرسہ کے مالیاتی اور دیگر انتظامی امور میں ان دنوں دخل دینا پسند نہیں کرتے تھے، ان کی ساری توجہ تعلیمی سرگرمیوں پر مرکوز تھی۔
أولئك آبائي فجئني بمثلهم إذا جمعتنا يا جرير المجامع
وہ کسی بھی صاحب ثروت اور باحیثیت آدمی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے، نازک حالات سے گھبراتے نہیں تھے، وہ بہت ہی بے باک، نڈر اور جری انسان تھے۔ جب بھی موقع ملتا وہ کتابوں کے مطالعہ میں مصروف ہو جاتے۔ اکثر زیر مطالعہ عربی کتابیں ہوتی تھیں، احادیث پر ان کی گہری نظر رہتی تھی۔ ایک موقع پر ایک دارالشفاء کے افتتاح کےموقع پر دعائیہ تقریب تھی، جس موقع پرایک مشہور عالم دین نے کہا کہ یہاں اتفاقاً بدھ کے روز دعا کا اہتمام کیا جارہا ہے اور جب ہم لوگ پڑھتے تھے تب بھی بدھ کے روز کتابوں کو شروع کرتے تھے اور حدیث میں ہے کہ بدھ کے روز کوئی کام شروع ہو تو برکت والا ہوتا ہے، تو حضرت نے اس پر نکیر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ حدیث ایسے ہی ویسے ہی ہے یعنی موضوع ہے۔ اساتذہ کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کا ہنر جانتے تھے، کوئی بھی مشورے کی مجلس ہوتی تو سب کی باتوں کو مکمل سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور سے سنتے پھر آخر میں وہ ایسی نکتہ کی بات کرتے جس سے سب لوگ قبول کر لیتے۔ ان کے والد صاحب سرکاری ملازم تھے جس کی وجہ سے طالب علمی کے زمانے میں ان کی مالی حالت مستحکم تھی اس لیے اس دور میں وہ خود پر بھی خوب خرچ کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں پر بھی سخاوت کا دریا بہاتے تھے: خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
ان کی مستند تاریخ پیدائش محفوظ نہیں ہے، اہل بستی کے مطابق ان کی عمر تقریبا 85 سے 90 سال رہی ہوگی، دارالعلوم دیوبند سےفراغت کے وقت ہی ان کی عمر تقریبا 25 سے 30 سال تھی۔ اس وقت ان کی داڑھی مکمل اور بھرپور تھی۔ وہ عنفوان شباب سے ہی نماز کے بہت پابند تھے، سفر ہو یا حضر ان کی نماز قضا نہیں ہوتی تھی، سفر میں اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر یا بیٹھنے والی کرسی پر اپنا رومال بچھا کر نماز پڑھنے لگتے تھے، بارش ہو یا طوفان فجر کی نماز کبھی نہیں چھٹتی تھی، موسلادھار بارش ہونے کے باوجود اپنی بستی کے مسجد میں جا کر خود نماز پڑھتے تھے اور لوگوں کی امامت کرتے تھے۔ بیراگنیا، سیتا مڑھی بازار جاتے ہوئے آفس پر اکثر لوگ ان کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے۔ ان کے دعا کے کلمات عام اور سادہ ہوتے تھے، لیکن وہ دعا ایسی کرتے تھے جیسے صحراء میں کوئی زخمی فرشتہ اپنے رب کے حضور فریاد کر رہا ہو۔ ان کی دعائیں اکثر قبول ہوتی تھیں اور بارہا لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان کے شاگرد رشید مولانا نسیم اختر صاحب قاسمی مدظلہ العالی جو حضرت کے بہت ہی معتمد اور محلہ کے پڑوسی بھی ہیں ان کے بقول جب جو کہا، نیپال کے اندر ایک مرتبہ بارش نہیں ہو رہی تھی، قحط کا ماحول تھا، تو حضرت نے استسقاء کی نماز پڑھائی اور عام دعا جو استسقا میں پڑھی جاتی ہے اس کا ورد کیا اس کے بعد آسمان پر رحمت کے بادل چھا گئے اور موسلادھار بارش ہونے لگی یہاں تک کہ سیلاب کی کیفیت ہو گئی۔
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
وہ ہر طرح کے دینی، دعوتی، تبلیغی اور اصلاحی پروگراموں میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ باطل کے خلاف سینہ سپر رہتے تھے۔ ایک مرتبہ جب کچھ بدعتی لوگوں نے نماز جمعہ کے آذان ثانی کے بارے میں وکالت کی کہ آذان ثانی مسجد سے باہر ہونی چاہیے تو حضرت والا نے دلائل کے ذریعے سے ان کی سرکوبی کی۔ جس مجلس میں شریک ہوتے سن رسیدگی اور ضعیف العمری کے باوجود شروع سے آخر تک ایک ستون کی طرح جمے رہتے، پھر آخر میں کچھ کلمات ارشاد فرما کر اپنی دعاء سے مجلس کا اختتام فرماتے۔ علاقے کے تمام لوگ اور مدارس کے ذمہ داران اپنے پروگرام، جلسوں یا جنازے میں ان کی شرکت کو باعث برکت سمجھتے تھے۔ بعد میں بڑھتی عمر اور جب سائیکل کی جگہ تیز رفتار بائک نے لے لیا اور علاقے میں کچھ متبادل علماء کی ایک کھیپ تیار ہوگئی تو ان کا سفر کچھ کم ہو گیا تھا۔ ابھی حالیہ دنوں میں جب فتنہ شکیلیت نے علاقہ میں سر ابھارا تو انہوں نے جمعیتہ علماء مشرقی چمپارن کے بینر تلےعلاقے کے تمام علماء کو اپنے ہمراہ لے کر اس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور ان کی تمام ناپاک اور مذموم کوششوں کو ناکام بنانے میں اپنی خدمات جلیلہ کو پیش کیا۔ لیکن آہ یہ ضلعی جمعیتہ بھی اپنے قائد سے اب محروم ہو گئی۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
وہ طلباء پر شفقت کا معاملہ فرماتے تھے اور ان پر اعتماد کرتے تھے اور کوئی باہری شخص ان کے خلاف شکایت کرتا تو ان کو ناگوار معلوم ہوتا، وہ ہر ایک چھوٹے بڑے کو اپنا عزیز گردانتے تھے جس سے بھی ملتے، اس کو لگتا کہ حضرت مجھے ہی زیادہ چاہتے ہیں اور اپنے سے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دارالعلوم دیوبند کی طالب علمی کے زمانے میں احقر نے بلوا جامع مسجد کے اندر جمعہ کے دن میں تقریر کی تو انہوں نے ایک شخص کو جو عالم دین ہیں اور جن سے میں بھی شناسا ہوں ان کے سامنے تعریف کی کہ بہت اچھے انداز اور بہتر اسلوب میں نور الامین تقریر کرتا ہے۔ رمضان سے قبل میرے گھر پر ایک چھوٹی تقریب تھی میں نے حضرت کو شرکت کی دعوت دی، لیکن اس وقت حضرت سخت علیل تھے، جس کی بناء پر انہوں نے معذرت کر لی اور فرمایا کہ تم میرے عزیز ہو، قریبی لوگوں میں سے ہو، لیکن میں ابھی نہیں جا سکتا، لیکن اگر موقع ملا اور زندگی نے وفا کی تو انشاءاللہ تمہارے گھر بعد میں ضرور آؤنگا، میری بھی خواہش تھی کہ حضرت کو عید بعد بیت النور، ڈھاکہ میں مدعو کرونگا۔ لیکن افسوس کہ یہ خواب صرف خواب رہ گیا اور اب صرف ان کی یادیں ہی باقی رہ گئیں
آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا
وہ اسلامی اقدار اور روایات کی پاسداری رکھتے تھے، 2016 میں جب ان کی پنچایت میں مکھیا اور سرپنچ کے عہدے کے لیے عورتوں کے لیے سیٹ ریزرو ہو گئی تو انہوں نے میرے چچا جان جناب حفظ الرحمن صاحب کو فرمایا کہ تم کو اور فاروق کو اپنی عورتوں کو اس الیکشن میں امیدوار نہیں بنانا چاہیے، چاہے کوئی منگرو ڈھورائی (ادنی شخص) کیوں نہ جیت جائے اور اس الیکشن میں فاروق صاحب اور حفظ الرحمن صاحب یعنی ان دونوں کی اہلیہ محترمہ الیکشن ہار گئیں۔ وہ علماء کی ناقدری پسند نہیں کرتے تھے، ایک مرتبہ میں مختصر سفر میں ان کے ساتھ تھا، کسی صاحب نے ان سے دعا کی درخواست کی تو حضرت نے مجھے فرمایا کہ لوگ مولویوں کو مفت سمجھتے ہیں اور صرف مفت کی دعا کراتے ہیں ایک پان تک بھی نہیں کھلاتے ہیں۔
ان کے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں میں ہیں اور ان میں بہت سے جبال علم ہیں، ہندوستان کے مختلف حصوں میں شیخ الحدیث ہیں، ملک اور بیرون ملک میں دینی، علمی، دعوتی، تبلیغی اور عصری خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کچھ شاگرد متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں، کچھ میدان سیاست میں اپنا جلوہ دکھا رہے ہیں، کچھ افق صحافت پر ستارہ بن کرچمک رہے ہیں۔۔ اور اور کچھ مدارس دینیہ کے انتظامی امور کو سنبھال رہے ہیں۔ خود ان کے مدرسہ کے ناظم ان کے شاگرد رشید اور عزیز مولانا جاوید مظاہری صاحب ہیں، جو حضرت سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ان کے جوکہا کہ پہلے شاگرد جو کسی بڑے ادارے سے فارغ التحصیل ہوئے وہ مولانا ہارون صاحب مڑلی ہیں جو ابھی بقید حیات ہیں۔ ان کے شاگردوں میں نمایاں اور ممتاز مقام رکھنے والے حضرت مولانا شمس الدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ شیخ الحدیث جامعہ جلالیہ ہو جائی آسام کی ذات گرامی ہے۔ جو ایک عظیم استاد کے عظیم شاگرد ہیں۔ وہ بہت ہی علمی صلاحیت کے مالک ہیں، احادیث پر اور فن رجال پر ان کی گہری نظر ہے اسی کے ساتھ تصوف میں بھی ان کو گہرا دسترس حاصل ہے، حضرت احادیث پڑھانے کے ساتھ آسام کے مختلف دینی، ملی، تحریکی، دعوتی اور سیاسی تنظیموں کے رکن ہیں۔ سرزمین آسام کی عبقری اور نابغہ روزگار ہستیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، حضرت مولانا عبدالسلام صاحب کو بڑی محبت اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے پاس تحفہ تحائف بھی بھیجتے تھے، ان کا تعاون بھی فرماتے تھے، ان کے علاج و معالجہ کا خرچ بھی برداشت کرتے تھے اور ان کو ایک مرتبہ حج بھی کرایا تھا۔ ایسا فرمانبردار اور اپنے کو استاد پر لٹانے والا شاگرد بہت ہی کم خوش نصیب اساتذہ کو ملتا ہے۔ مگر اج ان کے شاگردان رشید بھی حضرت کی جھلک پانے اور ان کی دید کو ترس رہے ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدور پید
چونکہ حضرت بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے، چمپارن اور بہار کی سرزمین بقول بعض ‘مردم خور’ ہے، جس کی بناء پر ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو پردہ خفا میں رہ گئے۔ اس لیے ان کے اوپر کوئی سمینار منعقد ہو تو ان کی شخصیت کو نمایاں کرنے میں اس کا ایک اہم رول ہوگا اور علماء جو وارثین انبیاء ہیں ان کے حوالے سے بھی ایک حسین خراج عقیدت ہوگا، ان کی زندگی کے ابھرتے ہوئے نقوش تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور آئندہ نسل ان کو اپنے لیے مشعل راہ بنائے گی۔ کاش کوئی ایسی سبیل بن جائے کہ آزاد مدرسہ اسلامیہ ڈھاکہ مشرقی چمپارن مختلف علمائے کرام کو بلا کر ان کے اوپر سیمینار منعقد کرے اور مضامین کو پہلے ہی جمع کر کے کتاب کی شکل میں شائع کر دیا جائے۔ چوں کہ ان کی طویل دینی اور علمی خدمات ہیں جو نصف صدی سے زائد (تقریبا 60 سال) پر محیط ہے، اس لیے ان کو اس بنیاد پر ان کی حیات مستعار میں ہی کوئی ایوارڈ دیا جانا چاہیے تھا، لیکن بہار یا علاقے میں کوئی رفاہی تنظیم ہو تو پس مرگ ان کو ایوارڈ دینے کا یہ نیک عمل کر سکتی ہے اور اگر وہ رقم کی شکل میں ہو تو ان کی بیمار اور ضعیف العمر اہلیہ کا اس کے ذریعہ تعاون بھی کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ ان کے بچے رفتار زمانہ کی ترقی سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور ان کی مالی حالت مستحکم نہیں ہے اس لیے ان بچوں اور خصوصا ان کی بوڑھی شریک حیات کا ان کے شاگردوں کی طرف سے تعاون جاری رہنا چاہیے، اس لیے کہ وہ ان کے لیے روحانی ماں ہیں۔ درس و تدریس سے ایسا عشق تھا کہ سخت بیماری اور جسم میں پیشاب کے تھیلے بندھے ہونے کے باوجود انہوں نے اپنا آخری درس دیا اور دعوت و تبلیغ سے ایسا لگاؤ تھک کے بھوانی پور کے ایک جلسہ میں اس بندھی ہوئی تھیلی کے ساتھ انہوں نے اپنا آخری خطاب کیا۔
جان کر من جملۂ خاصان میخانہ مجھے مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
15 جنوری 2025 کی رات میں آزاد مدرسہ اسلامیہ کے ایک کمرہ میں اچانک ہارٹ اٹیک ہو گیا اور موتیہاری ڈاکٹر تبریز صاحب کے یہاں زیر علاج رہے، پھر پیشاب کے راستے میں تکلیف ہوئی تو ان کو رحمانیہ ہاسپیٹل موتیہاری میں داخل کرایا گیا، یہ انہیں کے یہاں زیر علاج تھے کہ پھر رمضان المبارک کے مہینہ میں ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور ان کے پیشاب کے راستے کا آپریشن کیا گیا، لیکن یہ آپریشن کامیاب نہیں رہا اور 17 رمضان 1946 ہجری مطابق 18 مارچ 2025 عیسوی بروز منگل کو علم و عمل کا یہ چمکتا ہوا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آخری علاج کے لیے جاتے وقت صاف ستھرا کپڑا پہنا اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ میرے روزہ کا فدیہ ادا کردینا اور مجھے سرمہ پہنا دو کہ میں اب کبھی واپس نہیں آؤں گا اور ایسا ہی ہوا۔ خود ان کی وصیت کے مطابق علاقے کے نامور عالم دین مولانا نذر المبین ندوی امام وخطیب جامع مسجد ڈھاکہ نے ان کی نماز جنازہ بستی کے مغرب میں واقع میلہ گاچھی (جہاں پر بیلوں کا بازار لگتا ہے) میں پڑھائی. ان کے جنازے میں خلق خدا کا ایک جم غفیر موجود تھا، باغ کے چاروں طرف سے ان کے دیوانے مختلف پگڈنڈیوں اور راستوں سے ایسے سرکتے ہوئے آرہے تھے، جیسے شمع پر پروانے اپنی جان کو نچھاور کرنے کو بے تاب ہوں۔ لوگوں کا اندازہ ہے کہ اگر یہ جنازہ کی نماز غیر رمضان میں ہوتی تو دیگر مدارس کے نظماء، مدرسین اور طلبہ کے کی وجہ سے یہ تعداد تقریبا ڈبل ہوتی، پھر بھی عوام کا اتنا امڈتا ہوا سیلاب تھا کہ ان کو مٹی دینے کے لیے ان کی قبر سے بار بار مٹی ہٹائی پڑی۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبز ہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر اہل بستی اور خود مجھے بھی یہ احساس ہوا کہ ہم لوگوں نے حضرت کی شخصیت کو پہچاننے اور ان کی قدر کرنے میں بہت دیر کر دی جس پر شرمندگی اور ندامت بھی ہوئی۔ حضرت سے بالمشافہ مجھے شرف تلمذ کا موقع میسر نہیں ہوا، مگر پھر بھی ان کی عبقری شخصیت کے پیش نظر اور انہوں نے جو طویل دینی، علمی دعوتی، ملی اور سماجی میدان میں اپنے خدمات کے جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، ان کی روشنی میں دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ ‘مشت نمونہ از خروارے’ کے طور پر اس دریا کو کوزہ میں سمیٹوں تاکہ ان کی شخصیت کا لوگوں کو پتہ چل سکے اور یہ میرے لیے صلاح وتقوی اور نجات کا باعث بھی ہو۔
احب الصالحين و لست منهم لعل الله يرزقنى صلاح
Comments are closed.