اسلام اور دہشت گردی

 

مفتی محمد قاسم اوجھاری

 

اسلام دین فطرت ہے اور انسانی فطرت امن وامان کا تقاضا کرتی ہے، فساد اور نقض امن سے انسانیت زندہ نہیں رہ سکتی ہے، گویا امن و امان اور انسانیت لازم و ملزوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اخوت و بھائی چارگی، پیار و محبت، امن و امان اور صلح وآشتی پر بہت زور دیا ہے۔ اور نفرت و عداوت، قتل وفساد اور دہشت گردی کی حوصلہ شکنی اور سخت مخالفت کی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: من قتل نفسا بغير نفس او فساد في الارض فكانما قتل الناس جميعا ومن احياها فكانما احيا الناس جميعا (سورہ مائدہ: آیت 32) کہ جس نے کسی کو ناحق قتل کیا یا زمین میں فساد مچانے کے لیے قتل کیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا، اور جس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی۔ یہ اسلام کا بالکل صاف اور بے غبار موقف ہے۔ اسلام کی نظر میں کسی بے گناہ کا خون بہانا ساری انسانیت کا خون بہانا ہے۔ اور کسی بے گناہ کی جان بچانا ساری انسانیت کی جان بچانا ہے۔ اسلام نے امن و امان کی بحالی کے لیے قاتل سے قصاص لینے کا حکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ياايها الذين امنوا كتب عليكم القصاص في القتلى (سورہ بقرہ: آیت 178) کہ اے ایمان والو! تم پر قصاص فرض ہے مقتول کے سلسلہ میں۔ یعنی اگر کسی شخص کو جان بوجھ کر ناحق قتل کردیا جائے تو مقتول کے وارث کو قاتل سے قصاص لینے کا حق حاصل ہے۔ دوسری آیت میں ہے: ولكم في القصاص حياة يا أولي الالباب لعلكم تتقون (سورہ بقرہ: آیت 179) کہ اے عقل والوں! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔ یعنی اگر قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا تو امن و امان قائم رہے گا، قتل و فساد اور دہشت گردی پر لگام لگے گی، جس کے نتیجے میں انسانیت زندہ رہے گی۔ یہ اسلام کے دو ٹوک احکامات ہیں۔ اور اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ اگر بادشاہِ وقت نے بھی جرم کیا ہے تو اس کو بھی اسلامی عدالت میں لایا گیا اور سزا دی گئی۔

 

اسلام کا فساد اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کوئی بھی حقیقی مسلمان دہشت گرد نہیں ہوسکتا ہے اور کوئی بھی فسادی اور دہشت گرد سچا مسلمان نہیں ہوسکتا ہے۔ اسلام اور امن عالم لازم و ملزوم ہیں، جہاں اسلام ہے وہاں امن عالم ہے اور جہاں امن عالم ہے وہاں اسلام ہے۔ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اخوت و بھائی چارگی، عفو و درگزر، امن و امان اور پیار و محبت سے عبارت ہے۔ آپ نے اس دور اور اس ماحول میں دشمنوں کو گلے لگایا ہے کہ جب ذرا سی بات پر تلواریں نکل جایا کرتی تھیں اور دہائیوں تک لڑائیاں جاری رہتی تھیں۔ جو لوگ اسلام کو دہشت گردی کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ درحقیقت اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ اگر آنکھیں بالکل بے نور ہوجائیں تو اس کا کوئی علاج نہیں، ہاں اگر نظر میں تھوڑی سی بھی بصیرت اور طبیعت میں ذرا سا بھی احساس موجود ہے، تو اسلام کو پڑھنے اور جاننے والا خود ہی اعتراف کرے گا کہ اس جیسا امن پسند مذہب شاید ہی دنیا میں کوئی ہو۔ صرف فتح مکہ کا واقعہ ہی اسلام کے نظام امن کو بیان کرنے اور آنکھوں کو کھولنے کے لیے کافی ہے۔ پیغمبر اسلام نے فتح مکہ کے موقع پر بڑے بڑے ظالم وجابر دشمنوں کو معاف کردیا تھا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ اسلام پیار و محبت کا مذہب ہے اور ہم امن پسند لوگ ہیں۔

 

تاریخ اٹھاکر دیکھیے! شروع اسلام کے زمانے میں مسلمان سیاسی سماجی اور معاشی اعتبار سے کمزور تھے، اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے اور مظالم کی انتہا کی گئی۔ چند ہی سالوں بعد وہ دن بھی آیا کہ مسلمان سیاسی سماجی اور معاشی طور پر مضبوط ہوگئے، دشمنوں سے بدلہ لینے اور انقلاب برپا کرنے کی حیثیت میں آگئے۔ سن آٹھ ہجری ہے، فتح مکہ کا زمانہ چل رہا ہے، عرب میں عظیم انقلاب برپا ہورہا ہے، اہل اسلام عظیم طاقت (Super Power) بن کر ابھر رہے ہیں، ان کے حق میں فتح و کامرانی اور عروج کا سورج طلوع ہورہا ہے اور اس پوزیشن میں ہورہے ہیں کہ اب کفار مکہ کو ان کے مظالم کا مزہ چکھائیں گے، ان سے ہر ظلم وستم کا بدلہ لیں گے۔ اسلامی فوج جذبۂ انتقام سے سرشار ہے، سینوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے اور جوش انتقام میں بار بار زبان پر یہ الفاظ آرہے ہیں: اليوم نضربكم على تنزيله، ضربا يزيل الهام عن مقيله، ويذهل الخليل عن خليله (ترمذی رقم ٧٨٦٧) کہ آج ہم ایسی مار ماریں گے کہ تمہاری کھوپڑی سر سے الگ ہوجائے گی اور تم اپنے دوست و احباب کو بھی بھول جاؤگے۔ سپاہیوں کے اس حوصلے اور جرأت کو دیکھ کر سپہ سالار پیغمبر اسلام کو تو آگ بگولہ ہوجانا چاہیے تھا، کیونکہ سربراہان مملکت کا یہی دستور رہا ہے کہ فوج کے حوصلے اور جرأت کو دیکھ کر سینہ آگ سے بھڑک اٹھتا ہے، قرآن کریم کہتا ہے: ان الملوك اذا دخلوا قرية افسدوها وجعلوا اعزة اهلها اذلة وكذلك يفعلون (سوره نمل ٣٤) کہ جب بادشاہ فاتح بن کر کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کے نظم وانتظام کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں، اور اس علاقے کے باعزت لوگوں کو ذلیل و رسوا کرکے ذلت وخواری کا پرچم ان کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں، یہی حکام عالم کا طور و طریقہ رہا ہے۔ لیکن وہ بادشاہ کہ خود جس پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے، مکہ اور طائف کی گلیوں میں جس کو لہولہان کیا گیا تھا اور ہر طرح سے ستایا گیا تھا، جس کی قوم پر مظالم کی انتہا کی گئی تھی؛ آج ظلم وجور اور جبر وتشدد کی تمام کہانیوں اور داستانوں کو بھلاکر تواضع وانکساری کو سینے سے لگائے ہوئے، اخوت ومحبت اور عفو ودرگزر کا سبق دیتے ہوئے، امن وسلامتی کا پرچم لہراتے ہوئے مکہ میں داخل ہوتا ہے۔ کفار قریش ڈرے اور سہمے ہوئے اسلامی فوج کے سامنے آئے، رحمت عالم نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: يا معشر قريش ما ترون اني فاعل فيكم۔ (فتح الباری) اے قریشیو: تم جانتے ہو کہ میں آج تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ کہنے لگے: ہم نے آپ جیسا حلیم اور بردبار نہیں دیکھا، آپ کے مرتبے جیسا کوئی انسان نظر نہیں آتا، آپ کی شرافت ضرب المثل ہے اور شریفوں سے شرافت کی ہی توقع رکھی جاتی ہے، اس لیے ہمیں آپ سے خیر ومعافی کی امید ہے۔۔۔ لیکن دل اندر سے کہہ رہے تھے کہ آج جان کی خیر نہیں، آج ہماری اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی، ایک ایک ظلم کا بدلہ لیا جائے گا، آج خون کے بدلے کا دن ہے، ہمیں اپنے کرتوتوں کی سزا بھگتنی ہی پڑے گی، ابوجندل کی پیٹھ سے لے کر بلال حبشی کے سینے تک کتنے جسم ہم نے چھیدے ہیں، ہمارے ہی ظلم وستم کی بدولت مسلمانوں کو ہجرت کرنی پڑی تھی اور گھر سے بے گھر ہونا پڑا تھا، ہمارے ہی سردار ابوسفیان کی بیوی نے حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا، الغرض! ظلم وجور اور جبر وتشدد کا کون سا طریقہ ہم نے نہیں اپنایا تھا۔ اس سب کے باوجود پیغمبر اسلام کہتے ہیں: اليوم يوم المرحمة اليوم يوم بر ووفاء (البدایہ والنهایہ) لوگوں! آج معافی کا دن ہے، رحم وکرم کا دن ہے، آج احسان و وفا کا معاملہ کیا جائے گا۔ لا تثريب عليكم اليوم اذهبوا فانتم الطلقاء (فتح الباری) کہ آج تم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ بس یوں سمجھیے کہ ظالموں اور قاتلوں کو پھانسی کے تختوں پر چڑھا کر اتار دیا گیا، تلواریں گردن کے قریب لاکر روک دی گئیں، موت کا فرشتہ حلقوموں کی طرف ہاتھ بڑھا چکا تھا کہ اسے تھما دیا گیا۔ انسانیت کی پوری تاریخ عفو و درگزر، اخوت و بھائی چارگی، پیار و محبت اور امن و امان کے ان کرداروں سے خالی ہے۔ یہ اسلام کی حقیقی اور سچی تصویر ہے۔

 

پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی امن وامان، محبت و بھائی چارگی اور انسانیت کا سبق سکھایا ہے۔ آپ نے بڑے بڑے ظالم وجابر دشمنوں کو بھی معاف کیا ہے، اور ساری انسانیت کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسلام امن وامان چاہتا ہے، اسلام پیار و محبت کا نام ہے، اسلام عفو ودرگزر سکھاتا ہے، اتحاد واتفاق کا سبق دیتا ہے، ظلم وبربریت سے روکتا ہے، مظلوموں کو حق دلاتا ہے، کمزوروں کو انصاف دلاتا ہے، ہر ایک کے ساتھ عدل وانصاف کی بات کرتا ہے، بچھڑے ہوئے بھائی کو بھائی سے ملاتا ہے۔ اسلام نے نہ کبھی ظلم کیا ہے اور نہ ظلم کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام نے قاتلوں، فسادیوں، دہشت گردوں اور امن توڑنے والوں کو سخت سزائیں سنائی ہیں۔

Comments are closed.