پہلگام حملہ اور کشمیریوں کی میزبانی!!

تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید بھارتی
پہلگام میں سیاحوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کی پورے ملک میں مذمت ہورہی ہے ، کینڈل مارچ نکالا جارہا ہے ، ہندوستان زندہ باد کا نعرہ لگایا جارہاہے اس حادثے میں مرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا جارہاہے ، ان کے ورثاء کو معاوضہ دینے اور ہندوستان کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے کا حکومت سے مطالبہ کیا جارہاہے ،، ساتھ ہی ملک میں ایک طبقہ نفرت پھیلارہاہے تو باشعور طبقہ ملک کے تانے بانے کو بکھرنے سے بچانے کے لئے جدوجہد کررہا ہے کیونکہ ملک میں نفرت و علیحدگی پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور کوئی کتنا ہی پاور فل ہو لیکن وہ آئین سے برتر نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ ملک کی ایک سو چالیس کروڑ عوام فرقہ پرستی کو مٹانے کے لئے ، نفرت کو محبت میں بدلنے کے لئے ، قومی یکجہتی کی مضبوطی کے لئے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے میدان میں آئے تاکہ پورا ملک شیشہ پلائی دیوار کی شکل میں نظر آئے اور ایک آواز ہوکر کہا جائے کہ پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں مرنے والوں کو شہید کا درجہ دیا جائے اور مستقبل میں کبھی بھی سیکورٹی اہلکاروں کی عدم موجودگی نہ رہے ساتھ ہی میڈیا کے ذریعے نفرتی جنون پیدا کرنے کی کوشش پر بھی پابندی عائد کی جائے ،، کشمیر کے لوگوں نے جس طرح اس دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی اور متاثرین و متاثرین کے اہل خانہ کی مدد کے لئے ہاتھ بڑھایا اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ملک میں نفرت و علیحدگی اور لاشوں پر سیاست نہیں ہونی چاہئے ،، آج جہاں ایک طرف ہندو مسلم کی سیاست ہورہی ہے وہیں دوسری طرف ابھی بھی ملک میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جو باشعور ہیں اور وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں یقین رکھتے ہیں ، وہ ملک میں امن و امان چاہتے ہیں ، سازگار ماحول میں پورے ملک کی عوام کو سانس لیتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں ،، یقیناً ہمارے وزیر اعظم نریندرمودی جی کو بہار کی ریلی میں نہ جاکر پہلگام جانا چاہئے تھا اس سے پہلگام حملے کے متاثرین کو تسلی ملتی پھر نہ تو وزیر اعظم پر انگلی اٹھتی اور نہ ہی کسی کو شکایت کا موقع ملتا ،، ملک میں بہت سی سیاسی پارٹیاں ہیں ، سماجی کمیٹیاں ہیں اور مذہبی و ملی اور فلاحی تنظیمیں ہیں جو موقع در موقع اپنے اپنے مسائل کو حل کرنے اور کرانے کے لئے جلسے ، جلوس ، دھرنے و مظاہرے کا انعقاد و اہتمام کرتی ہیں مگر آج وہ ساری تنظیمیں ایک آواز بلند کررہی ہیں کہ بے گناہ سیاحوں اور عام شہریوں کے مارے جانے کی تحقیقات کرکے قصور واروں پر سخت ترین کاروائی کی جائے ،، ہندو مسلم ، سکھ عیسائی آپس میں سب بھائی بھائی کے نعرے کی طرز پر پورے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کیا جائے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوکر امن و امان کا ماحول قائم کیا جائے اور دہشت گردوں کو کسی بھی حال میں نہ بخشا جائے ،، جب ہم سارے ہندوستانی متحد رہیں گے تو دنیا کی کسی طاقت کو ہماری سرحدوں کی طرف بری نیت سے آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوگی ،، جموں وکشمیر کے پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد اپوزیشن پارٹیاں مسلسل حکومت سے کہہ رہی ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سخت قدم اٹھائے اور پاکستان کو سبق سکھائے حکومت کو سبھی پارٹیوں کا تعاؤن حاصل ہوگا کیونکہ پاکستان نے ایک بار پھر انسانیت کے خلاف جرم کا ارتکاب کیا ہے اس طرح کے حملے انسانیت کے خلاف جرم ہیں اور ایسے جرم کی سزا ضرور ملنی چاہئے ،، اس ملک میں چاہے کوئی ہندو ہو یا مسلم، سکھ ہو یا عیسائی سب ایک ہیں اور سب کے اندر ملک کے تحفظ کا جذبہ ہے ہمارا اتحاد ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے جو لوگ ہمیں تقسیم کرنے اور کمزور کرنے کی سازش کررہے ہیں ان کا ڈنٹ کر مقابلہ ہونا چاہئے تاکہ ان کے ناپاک ارادے خاک میں مل جائیں ،، ہم ہندوستانیوں کو اس بات کا ثبوت دینا ہوگا کہ ایسے حملے کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ پورے ملک کی عوام کے جذبے کو توڑ نہیں سکتے بلکہ ہمیں مزید متحد اور طاقتور بننا ہوگا ، ہمیں اپنے دلوں میں محبت و بھائی چارہ کو پروان چڑھانا ہوگا ،، ہمیں ایسے بیان بازی سے پرہیز بھی کرنا ہوگا کہ جس سے ہندوستانی ہو کر ہندوستانیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے ،، پہلگام حملے کے بعد ملک بھر میں شرپسندوں کا گروہ مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے میں سرگرم ہے،، مگر سمجھدار اور باشعور طبقہ بھی اس ملک میں ہے جو دہشت گردوں کے منصوبوں کو ناکام کرنے کی کوشش میں جٹا ہوا ہے اور اس باشعور طبقے میں بھی ہر ذات برادری اور ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں جو ملک میں امن و امان کا ماحول قائم کرنا چاہتے ہیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں اور حاسدین کے حسد اور مفسدین کے فساد سے ملک کو بچانا چاہتےہیں اور وہ کھل کر کہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر کسی پر حملہ کرنا دہشت گردی ہے اور مذہب پوچھ کر کسی پر حملہ کرنے والے لا مذہب ہیں وہ بھلے ہی کسی مذہب کا لبادہ اوڑھ لیں مگر ان کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور جہاں تک بات مذہب اسلام کی ہے تو مذہب اسلام کی تعلیم ہے خود قرآن میں موجود ہے لا اکراہ فی الدین یعنی دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ،، تو جب دین کی تبلیغ و اشاعت میں زبردستی کی گنجائش نہیں ، کسی کو زبردستی کلمہ پڑھانے کی گنجائش نہیں تو دنیا کے کسی معاملے میں یا دیگر کسی بھی معاملے میں زبردستی کرنے کی کوشش و گنجائش کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور قرآن و مذہب اسلام کی اسی تعلیمات کی روشنی میں اس روئے زمین پر واقع جنت نظیر کشمیر کے لوگوں نے انسانیت کو پامال ہونے سے بچانے کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہایا، مہمانوں کے ساتھ میزبانی کا عظیم الشان فریضہ انجام دیا اور یہ ثابت کردیا کہ انسانیت بہت بڑی چیز ہے اخلاق و کردار کا بلند رکھنا ضروری ہے کیونکہ جو اچھا انسان نہیں بن سکتا وہ اچھا مسلمان بھی نہیں بن سکتا ،، ہندوستان کے ہر شہری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کشمیریت کو سنبھالے اور کشمیریت کو فروغ دے واضح رہے کہ سیاحت صرف گھومنے پھرنے کا نام نہیں ہے بلکہ انسانی ہمدردی کے اظہار کا نام ہے ، انسانی رشتہ قائم کرنے کا نام ہے ، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا نام ہے اس لئے سیاحتی سلسلے کو جاری رکھنا ہوگا تاکہ پورے ملک کے لوگوں کے اندر آپسی تعلقات خوشگوار بھی ہوں اور مضبوط بھی ہوں اور ہر ہندوستانی کو ہر ہندوستانی کا اپنے علاقے میں خیر مقدم کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا اور دہشت گردوں کو دھول چٹانا ہوگا اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانا ہوگا۔
Comments are closed.