ادارہ ادب اسلامی کے زیر اہتمام ڈاکٹر تابش مہدی کی یاد میں یک روزہ قومی سیمینار و طرحی مشاعرے کا انعقاد

"ڈاکٹر تابش مہدی: تخلیقی جہات اور علمی خدمات” کے عنوان سے کانفرنس ہال، مرکز جماعت اسلامی ہند، نئی دہلی میں منعقدہ یک روزہ سیمنار میں ملک کے مایہ ناز ادبا و دانشوروں کی شرکت و اظہار خیال
نئی دہلی۔ ادارہ ادب اسلامی حلقہ دہلی کی جانب سے معروف اسلامی شاعر، ادیب، استاد اور مفکر و دانشور ڈاکٹر تابش مہدی علیہ الرحمہ کی یاد میں یک روزہ قومی سیمینار بعنوان "ڈاکٹر تابش مہدی: تخلیقی جہات اور علمی خدمات” کا انعقاد کیا گیا۔ یہ سیمینار افتتاحی اجلاس، تین تکنیکی مجالس اور ڈاکٹر تابش مہدی کے مصرعوں پر مشتمل طرحی مشاعرے کے انعقاد پر مشتمل تھا۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے سابق وائس چانسلر پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے کیا۔ خطبہ استقبالیہ ڈاکٹر خالد مبشر نے پیش کیا جبکہ کلیدی خطبہ ڈاکٹر امتیاز وحید (اسسٹنٹ پروفیسر کولکاتا یونیورسٹی) نے پیش کیا
شاہ اجمل فاروق ندوی (فرزند ارجمند ڈاکٹر تابش مہدی) نے "ڈاکٹر تابش مہدی: سوانح اور شخصیت” کے عنوان سے مقالہ پیش کیا وہیں ڈاکٹر تابش مہدی کی صاحبزادی ڈاکٹر ثمینہ کوثر (اسسٹنٹ پروفیسر مانو) نے تاثرات کا اظہار کیا۔ اجلاس کا آغاز محمد اسجد (ایم اے اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ) کی تلاوت سے ہوا،
سید تجمل اسلام (ایم اے اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے ڈاکٹر تابش مہدی کی نعت گنگنا کر سامعین کو گرویدہ بنایا۔ نظامت کے فرائض مصدق مبین (سکریٹری ادارہ ادب اسلامی حلقہ دہلی) نے ادا کیے۔
پروفیسر اختر الواسع نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر تابش مہدی نے اپنی فکر اور موقف سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ وہ صرف شاعر نہیں بلکہ شاعر گر بھی تھے۔ تعلیم کے معاملے میں انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے اسلامی اقداری کی پیروی کرتے ہوئے بیٹے اور بیٹیوں دونوں کی تعلیم پر یکساں توجہ دی۔
ڈاکٹر امتیاز وحید نے کلیدی خطبے میں کہا کہ ڈاکٹر تابش مہدی اسلامی شعائر کے دلدادہ تھے۔ طلبہ کی صلاحیتوں کو صیقل کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ ان کی شاعری اسلامی شعائر کا مظہر اور اسلامی فکر کا ترجمان تھی۔
ڈاکٹر خالد مبشر نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر تابش مہدی استاد سخن، ہمہ جہت شخصیت اور ادبی صحافت کا اہم ستون تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان شاءاللہ یہ سیمینار تابش شناسی میں اہم کردار ادا کرے گا۔
شاہ اجمل فاروق ندوی نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ والد صاحب نے کسی کی دل آزاری کو کبھی روا نہیں سمجھا۔ وہ کتابی علم کے ساتھ ساتھ مجلسی و صحبتی علم پر بھی خاص توجہ دیتے تھے۔ انہوں ہمیشہ اپنے محسنین کو یاد رکھا اور اخلاقیات میں کبھی بھی نظریاتی خلیج کو آڑے نہیں آنے دیا۔
ڈاکٹر ثمینہ کوثر نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک عظیم باپ کی بیٹی ہونے کا فخر ہوتا ہے۔ والد صاحب نے ہمیشہ ہمیں زبان و املا پر خصوصی توجہ دی۔ اپنی بیٹیوں کو اعلی تعلیم دلا کر انہون نے وومن ایمپاورمنٹ کا سچا فریضہ انجام دیا۔
Comments are closed.