حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ ایک عہد ساز شخصیت

شاہنواز بدر قاسمی
اپنی بلند و بالا خدمات اور عظیم کارناموں کیلئے مشہور، جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے سربراہ اور دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم و رکن شوریٰ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب عالمی سطح پر محتاج تعارف نہیں، دینی و عصری تعلیم کے میدان میں مولانا وستانوی صاحب نے جو قابلِ فخر کارنامہ انجام دیا ہے وہ بلاشبہ اکیسویں صدی میں اس کی مثال نہیں ملتی، ہندوستان کی تاریخ میں وہ پہلے عالم دین ہیں جنہوں نے نہ صرف ہزاروں مدارس قائم کئے بلکہ عصری تعلیم کیلئے انہوں نے سینکڑوں اسکول سے لیکر میڈیکل کالج تک بنائے، ملک بھر میں سات سو سے زائد مساجد تعمیر کروا کر ایک مثال قائم کی، ہزاروں کی تعداد میں دینی و عصری تعلیم کیلئے الگ الگ ادارے قائم کئے، خدمت قرآن کیلئے بہت شمار کام کئے، حضرت مولانا غلام محمد وستانوی اپنی مختصر سی زندگی میں وہ کارنامے انجام دے گئے جسے کرنے کیلئے صدیوں گزر جاتے ہیں، وہ ایک ہمہ گیر، دور اندیش اور انقلابی شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے تعلیمی میدان اور خدمت خلق کو اپنا مشن بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب کر گزر گئے جو سن کر اور دیکھ کر یقین نہیں ہوتا۔
مولانا وستانوی صاحب سے میری پہلی ملاقات دارالعلوم دیوبند کا اہتمام سنبھالنے کے بعد اسی دن دارالعلوم کے مہمان خانہ میں ہوئی اور ملاقات اور رابطے کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ مولانا کے ساتھ کئی سفر کئے، ان سے قریب رہنے کا خوب موقع ملا، وہ ایک ایماندار اور حق گو انسان تھے، انتہائی پرکشش اور نرم مزاج شخصیت کے مالک تھے، وہ تعمیر ی فکر پر یقین رکھتے ہیں، فضول اور غیر ضروری سرگرمیوں سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ اپنے وقت کے مومن کامل اور حضرت نانوتویؒ اور سرسید علیہ الرحمہ کے فکر کے حقیقی ترجمان تھے، انہوں نے اپنے عملی زندگی سے یہ ثابت کردیا کہ آج بھی ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ایک نئی تاریخ رقم کرکے مولانا وستانوی ہم سب سے رخصت ہوگئے لیکن انہوں نے مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کیلئے جو تعمیری خواب دیکھا تہا اسے شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے وابستگان ِوستانوی ملک و بیرون ملک کے ہر کونے کونے میں سرگرم عمل ہیں۔
مولانا وستانوی یکم جون 1950 ء میں صوبہ گجرات کے ضلع سورت میں واقع ایک گمنام گاؤں سرزمین وستان میں پیدا ہوئے، ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل ہوئے صرف تین سال کا عرصہ گزرا تھا گویا آزادی ہند کا آفتا ب طلوع ہونے کے چند سال بعد ہی اسی ہندوستان کے افق پر ایک ایسا آفتاب بھی طلوع ہوا جس نے محض 75سال کی عمر میں اپنی خدمات اور روشن کارناموں سے دینا کو منور کردیا، علماء بہت ہوئے ہیں، علم دوستوں کی بھی کمی نہیں، خدا کی بنائی ہوئی اس سرزمین پر بڑے بڑے علم والے موجود ہیں لیکن خدمت کا جو جذبہ مولانا وستانوی کو حاصل ہوا، اس کی مثال نہیں، ان کی جلیل القدر خدمات اور کارنامے کا اثر ہے کہ ان کا گاؤں وستان جو کسی زمانے میں گمنا م تھا آج وہ ہندوستان کے نقشے پر اپنا ایک خاص مقام اور اپنی شاندار شناخت رکھتا ہے۔
مولانا وستانوی کو اپنے دور کے اچھے اساتذہ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا، وہ زندگی کی آخری ایام میں بھی اپنے اساتذہ کی خدمت میں حاضری دے کر دعائیں لینے کاسلسلہ جاری رکھا، مدرسہ قوت الاسلام سورت اور مدرسہ شمس العلوم بڑودہ کے بعد مدرسہ فلاح دارین ترکیسر گجرات میں رہکر 1972ء میں دستار فضلیت حاصل کی، ترکیسر سے فراغت کے بعد جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیکر مزید علمی تشنگی کو بجھاتے ہوئے حضرت مولانا مفتی مظفر حسین ؒ ، شیخ الحدیث حضرت مولانا یونس صاحب اور حضرت مولانا عاقل صاحب جیسے اہل علم سے فیض یاب ہوئے۔
فراغت کے بعد اپنی تدریسی زندگی کی شروعات دارالعلوم کنتھاریہ جیسے عظیم ادارے سے کی اور اپنی علمی صلاحیتوں سے وہاں کے طلباء کو مالا مال کیا۔ 1980ء میں انہوں نے مہاراشٹر کے اکل کوا نامی ایک علاقہ جو علم دین کی روشنی سے ناآشنا تھا، جہالت و بدعقیدگی اور بدعات و خرافات حد درجہ بڑھ چکا تھا، مولانا وستانوی نے پوری ہمت، جرات اور جفا کشی کے ساتھ صرف چھ طلبہ اور ایک استاذ سے جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کا آغاز کیا جو اس وقت الحمدللہ ہندوستان کی سرزمین پر اپنی نوعیت کا عظیم اور سب سے بڑا دینی و تعلیمی مرکز بن چکا ہے۔مولانا وستانوی نے دینی تعلیم کیلئے جو مثالی قدم اٹھایا اسی کے ساتھ وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی دور اندیشی کی وجہ سے عصری تعلیم کیلئے بھی بے پناہ کام کئے۔مولانا وستانوی نے اشاعت العلوم کے پلیٹ فارم سے اب تک تیس سے زائد کالج قائم کئے، انہوں نے عملی میدان میں کام کرنے والے نوجوان علماء کو تیار کرکے کام پر لگایا اور پورے ملک میں تعلیمی ادارے کا جال بجھا دیا۔مدارس اور اسکولوں کے ساتھ مکاتب کے قیام پر بہی خاص زور دیا، مولانا نے قرآنی تعلیم پر توجہ دیتے ہوئے ملک بھر میں مسابقوں کا سلسلہ شروع کیا اور عمدہ قرآن پڑھنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی کی اور گراں قدر انعامات سے نوازا۔ مولانا وستانوی صاحب کا اصلاحی تعلق شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی ؒ اور حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی ؒ سے رہا اور انہوں نے اپنے معمولات کو کبھی متاثر نہیں ہونے دیا۔ مولاناوستانوی اس عہد میں بھی اپنے اساتذہ اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شادگی کی زندگی تو ترجیح دی اور تمام تر سہولیات ہونے کے باوجود شاہی زندگی سے دور رہے۔
مولانا وستانوی صاحب کے دو صاحبزادے برادرم مولانا حذیفہ وستانوی اور مولانا اویس وستانوی کو اللہ پاک صبر جمیل عطافرمائے اور اللہ پاک جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کو حاسدین کے حسن سے حفاظت فرمائے اور اس عظیم تعلیمی مرکز کو مزید ترقیات سے نوازے۔ حضرت مولانا وستانوی کی وفات مسلمانانِ ہند کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے کی بھرائی مشکل ہے، تمام متعلقین خصوصاً محبان جامعہ اکل کوا کو صبر جمیل عطاء فرمائے-
Comments are closed.