اسلامی نظریہ تعلیم نسواں : توازن، تربیت اور حدود

مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
تعلیم لڑکیوں کا بنیادی حق ہے، اور اسلام نے اس حق کو نہایت عزّت و وقار کے ساتھ تسلیم کیا ہے۔ اسلام وہ پہلا نظامِ حیات ہے جس نے عورت کو علم کے آسمان پر پرواز کی اجازت دی، اور اس پر واضح کر دیا کہ علم نہ صرف مرد کا زیور ہے بلکہ عورت کی بھی پہلی زینت ہے۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا یہ سنہرا ارشاد—”طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم”—اپنی وسعت میں مرد و زن، امیر و غریب، سب کو شامل کرتا ہے۔ جب آپﷺ نے فرمایا کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، تو گویا عورت کی تعلیم کو محض اجازت نہیں بلکہ الٰہی فریضہ قرار دے دیا۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ عورت نے جب اس فریضے کو سمجھا، تو اس نے ایسا کردار ادا کیا کہ زمانہ آج بھی حیران ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا، جن کا علم، فہم، یادداشت اور فصاحت و بلاغت صحابۂ کرامؓ کے لیے بھی مشعلِ راہ تھی، آج بھی علمی دنیا کے افق پر مثلِ خورشید روشن ہیں۔ صحابۂ کرامؓ جب کسی پیچیدہ دینی مسئلے میں الجھتے تو حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کی دہلیز پر آ کر علم کے موتی چنتے۔ انہوں نے صرف علم حاصل ہی نہیں کیا بلکہ اسے اپنے اخلاق، گفتار، فہم اور حکمت کے ساتھ نسلوں تک منتقل کیا۔
اسی طرح حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللّٰہ عنہا، نہ صرف نبی کی بیٹی تھیں بلکہ علم و حلم، زہد و تقویٰ، اور بصیرت و فہم کا پیکر بھی تھیں۔ ان کی تربیت نے امت کو امام حسن و حسین جیسے جواں مرد عطا کیے، جو علم، اخلاق اور قربانی کی علامت بنے۔ وہ عورت جس کی گود علم سے روشن ہو، وہ نسلوں کے مقدر سنوارتی ہے۔ اسلامی تاریخ کی اوراق میں ہمیں ایسی بے شمار خواتین نظر آتی ہیں جنہوں نے محدثہ، فقیہہ، معلمہ اور مفکرہ بن کر معاشرے کو سنوارا۔ امّ درداء، ربیعہ بصری، امّ سلمہ، امّ ورقہ، اور کئی دیگر روشن مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام نے عورت کو پردے میں رکھ کر محدود نہیں کیا، بلکہ حیاء کے دامن میں علم کی عظمتوں سے سرفراز کیا۔
اسلام کے نزدیک عورت کوئی کمزور مخلوق نہیں، بلکہ ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں تمدن پروان چڑھتا ہے۔ اس کے علم کی روشنی صرف اس کے گھر کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو منور کرتی ہے۔ اگر ماں باشعور، علم و فہم سے آراستہ ہو تو وہ صرف لوری نہیں دیتی، وہ نسلوں کو شعور دیتی ہے، فہم دیتی ہے، بصیرت دیتی ہے۔ پس، جب اسلام عورت کو تعلیم کا حق دیتا ہے، تو یہ صرف الفاظ کی حد تک نہیں بلکہ ایک نئی تہذیب، ایک روشن نسل، اور ایک صالح معاشرہ کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس نعمت کی قدر کریں، اپنی بیٹیوں کو علم سے آراستہ کریں، اور اس یقین کے ساتھ کریں کہ: "جو ماں علم و حیاء کے نور سے منور ہو، وہی اصل میں امت کی معمار ہوتی ہے”۔
تعلیم کا مقصد کیا ہو؟:
تعلیم کا مقصد اگر صرف روزگار کا حصول، یا معاشرے میں ایک بلند مقام تک رسائی ہو، تو یہ ایک محدود اور سطحی سوچ ہے۔ تعلیم کی اصل روح، اس کی اصل پرواز، ان مادی حدود سے کہیں بلند ہے۔ خاص طور پر اسلامی تعلیم کا مفہوم صرف کسی ڈگری، نوکری یا معاشرتی درجہ بندی تک محدود نہیں، بلکہ یہ تو روح کی آبیاری، قلب کی روشنی، اور کردار کی تعمیر کا نام ہے۔ اسلام میں علم کا مقصد انسان کو ربّ کی پہچان، نفس کی اصلاح، اور انسانیت کی خدمت کے قابل بنانا ہے۔ وہ تعلیم جو انسان کو خودی، غیرت، حیا، صداقت اور اخلاص جیسے اوصاف سے آراستہ نہ کر سکے، وہ صرف معلومات کا انبار تو ہو سکتی ہے، لیکن حکمت و بصیرت کی دولت نہیں۔
ایک مسلمان خاتون کے لیے تعلیم کا مفہوم اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ وہ صرف نوکری کرے، یا کسی ادارے میں چند اسناد حاصل کرے۔ علم اسے وقار عطاء کرتا ہے، کردار کی مضبوطی دیتا ہے، فیصلے کی حکمت بخشتا ہے، اور ایمان کی پختگی عطا کرتا ہے۔ ایسی تعلیم، جو ایک لڑکی کو صرف نمائش، فیشن، یا محفلوں کی زینت بنانے پر مجبور کر دے، وہ درحقیقت اس کی معراج نہیں، بلکہ اُس کی اصل عظمت سے محرومی ہے۔ اسلامی تعلیم کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ عورت کو پیکرِ حیا، نمونۂ وقار، اور مینارِ بصیرت بناتی ہے۔ وہ تعلیم جو عورت کو اس کے مقام سے گرا دے، اس کے فطری وقار کو مجروح کرے، یا اسے محض ظاہری زیبائش کا شکار بنا دے، وہ علم نہیں بلکہ فتنہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے علم کو فرض قرار دیا، تو اس علم کے ساتھ تزکیہ نفس، فہمِ دین، اور احسن اخلاق کی شرط بھی لازم کی۔ قرآن ہمیں بارہا ایسے علم کی طرف دعوت دیتا ہے جو دلوں کو زندہ کرتا ہے، آنکھوں کو بینا کرتا ہے، اور انسان کو خالق کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد یہ ہونا چاہیے کہ عورت جب ماں بنے تو علم و شعور کے گہوارے میں ایک باشعور نسل کی پرورش کرے؛ جب بیوی بنے تو شوہر کی زندگی میں سکون و دانائی کا ذریعہ بنے؛ اور جب بیٹی یا بہن ہو تو والدین کی آنکھوں کا فخر، اور معاشرے کی زینت ہو۔
ایسی تعلیم جو عورت کو خوددار، باوقار، باحیا، اور باشعور بنائے، وہی دراصل اسلامی تعلیم کہلانے کے لائق ہے۔ کیونکہ: "علم وہی جو دل کو نرم کرے، زبان کو سچ کی عادت دے، نگاہ کو حیاء کی چمک دے، اور عمل کو صداقت کی راہ پر ڈال دے”۔ پس، تعلیم کو صرف ظاہری مقام و مرتبے کا ذریعہ نہ بنائیں، بلکہ اسے روحانی ارتقاء، اخلاقی بلندی، اور معاشرتی خدمت کی سیڑھی بنائیں۔ تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ یہ علم نور بھی ہے، رہنما بھی، اور عبادت کا در بھی۔
جدید تعلیم اور تہذیبی کشمکش:
جدید تعلیم اور تہذیبی کشمکش—یہ آج کے دور کا ایک حساس موضوع بحث ہے، خاص طور پر جب بات ایک مسلمان لڑکی کی ہو جو علم حاصل کرنے کے لیے جب تعلیمی اداروں میں قدم رکھتی ہے، تو علم کے ساتھ ساتھ تہذیبوں کی ایک انجانی جنگ کا سامنا بھی کرتی ہے۔ یہ جنگ محض خیالات کی نہیں، بلکہ شناخت، اقدار، اور وقار کی جنگ ہے۔ آج کے دور میں تعلیمی ادارے صرف علم کے مراکز نہیں رہے، بلکہ وہ مغربی طرزِ فکر، فیشن، اور لبرل سوچ کے نمائندہ اکھاڑے بن چکے ہیں۔ یہاں علم کے ساتھ ایک ایسی تہذیب کا پرچار بھی کیا جاتا ہے جو آزادی کے نام پر حدود کو مٹانے، ترقی کے نام پر حیا کو مٹانے، اور مساوات کے نام پر فطرت کو بدلنے کا درس دیتی ہے۔
ایک معصوم لڑکی، جو اپنے دل میں کچھ خواب لیے، اپنی شناخت کے ساتھ ان اداروں میں قدم رکھتی ہے، وہ کب ان رنگ برنگے تصورات، چمکتی اسکرینوں، ماڈرن آئیڈیلز، اور "خود کو منوانے” کے نعرے کی زد میں آ کر اپنی اصل پہچان، حیاء، سادگی، اور دینی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے، اُسے خود بھی خبر نہیں ہوتی۔ فیشن کے نام پر لباس کی معنویت بدل دی گئی، اظہارِ رائے کے نام پر زبان سے لحاظ اور شائستگی چھین لی گئی، آزادی کے نام پر فرائض اور اطاعت کا تصور دھندلا دیا گیا۔ ایسے میں تعلیم کا مقصد بدل کر ایک ایسا روپ اختیار کر لیتا ہے جس میں کردار کی پختگی کے بجائے چال و انداز کی نرمی کو اہمیت دی جاتی ہے، اور علم کی روشنی کے بجائے صرف شہرت اور چمک دمک کو مقام حاصل ہوتا ہے۔
یہی وہ لمحۂ فکریہ ہے جہاں ایک مسلمان لڑکی کے لیے لازم ہے کہ وہ خود کو پہچانے۔ وہ جان لے کہ علم صرف اسی وقت "نور” ہے جب وہ اللّٰہ کی رضا کا ذریعہ بنے، کردار کو سنوارے، اور عزتِ نفس کو مضبوط کرے۔ ورنہ یہی تعلیم اگر ایمان، حیاء، اور تہذیبِ اسلامی کو مٹا دے، تو یہ ترقی نہیں، تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ ایک عورت جب اپنی چادر کو بوجھ، حیا کو قید، اور دینی تعلیمات کو رکاوٹ سمجھنے لگے، تو سمجھ لیجیے کہ وہ تعلیم روشنی نہیں، دھوکا بن چکی ہے۔ اور یہی تہذیبی کشمکش ہے جس میں ایک باحیا بیٹی، بہن یا ماں کو ہر دن اپنی شناخت بچانے کی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔
ہمیں ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو دلوں کو اللّٰہ کی یاد سے زندہ رکھے، نگاہوں میں حیاء کی چمک ہو، اور ذہنوں میں فہم و حکمت کی روشنی ہو۔ وہ علم جو اسلامی تہذیب کا محافظ ہو، نہ کہ اس کا دشمن۔ وہ تربیت جو لڑکی کو اپنی عظمت، حدود، اور مقصدِ حیات سے جوڑ دے—نہ کہ صرف ظاہری آزادیوں کی دھند میں اس کی معصوم روح کو گم کر دے۔ پس یاد رکھیے، تعلیم کی راہ میں قدم رکھتے وقت صرف مضمون اور ادارہ مت چُنو—بلکہ یہ بھی دیکھو کہ یہ علم تمہارے دل و دماغ کو کس سمت لے جائے گا؟ تمہاری شناخت کو باقی رکھے گا یا مٹا دے گا؟ کیونکہ اگر تعلیم تمہیں تمہارا دین بھلا دے، تو وہ علم نہیں—آزمائش ہے۔
عورت کا اصل مقام — عزت اور وقار کا محل:
عورت کا مقام وہ بلند اور پاکیزہ مقام ہے جسے نہ دنیاوی القاب چھو سکتے ہیں، نہ فانی تعریفی کلمات۔ اسلام نے عورت کو وہ عزت بخشی ہے جو نہ صرف بےمثال ہے، بلکہ رحمت، عظمت اور تہذیبِ انسانی کا بنیادی ستون ہے۔ عورت کا اصل دائرہ، اس کی اصل عظمت—کسی اسٹیج کی چمک، کسی اسکرین کی چکاچوند، یا کسی بازار کی زینت نہیں—بلکہ عزّت، وقار، اور حیاء کے اُس مقدس محل میں ہے جسے ہم "خاندان” کہتے ہیں۔ وہ خاندان جہاں وہ ایک ماں کی صورت میں اولاد کے کردار کی بنیاد رکھتی ہے، ایک بیٹی کی صورت میں رحمت بن کر دل کو ٹھنڈک دیتی ہے، ایک بہن کی حیثیت سے وفا اور انسیت کی پناہ گاہ بن جاتی ہے، اور ایک بیوی کی صورت میں زندگی کی بھٹکتی کشتی کو محبت و سکون کی بندرگاہ تک پہنچاتی ہے۔
اسلام نے عورت کو ان تمام رشتوں میں عزّت کا تاج، محبت کا عنوان، اور تربیت کا مرکز قرار دیا ہے۔ فرمایا گیا کہ "ماں کے قدموں تلے جنّت ہے”—یہ کوئی سادہ سی بات نہیں، بلکہ ایک گہری علامت ہے کہ جنّت جیسے عظیم مقام کی کنجی بھی عورت کے کردار سے وابستہ ہے۔ جب عورت علم سے آراستہ ہوتی ہے—وہ علم جو فہمِ دین، سلیقۂ زندگی، اور کردار سازی کا امتزاج ہو—تو پھر اس کا وجود صرف گھر کی چار دیواری میں محدود نہیں ہوتا، بلکہ اس کی آغوش میں نسلیں سنورتی ہیں، اس کی گود میں مجاہد پلتے ہیں، اور اس کی گود کے سائے میں ایمان پروان چڑھتا ہے۔
ایسی عورت کسی قوم کے لیے صرف ایک فرد نہیں، بلکہ ایک پوری تربیت گاہ ہوتی ہے۔ اس کے بول میں شائستگی، نظر میں حیاء، عمل میں سچائی، اور قلب میں نورِ خدا ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف گھر کو جنّت بناتی ہے، بلکہ اپنے وجود سے معاشرے کو مہذب، متوازن، اور باوقار بناتی ہے۔ عورت کو اسلام نے پردہ دیا، مگر اس کے پیچھے چھپایا نہیں؛ بلکہ اسے عزّت کا قیمتی موتی بنا کر اُس صدف میں رکھا جہاں سے روشنی نکلے تو پورے خاندان کو منور کر دے۔ وہ عورت جو دین کے علم سے مزین ہو، اپنے مقام کو سمجھے، اور اپنے فرائض کو فخر سے ادا کرے—ایسی عورت نہ صرف گھر کی رونق، بلکہ قوم کی عزّت، ملت کی بنیاد، اور نسلوں کی تربیت گاہ ہوتی ہے۔
پس یاد رکھیے! عورت کا اصل مقام وہی ہے جہاں محبت پروان چڑھتی ہے، جہاں حیا زندہ رہتی ہے، اور جہاں سے کردار کا قافلہ شروع ہوتا ہے۔ وہ مقام نہ صرف عزّت کا ہے، بلکہ امت کی بقاء کا مرکز بھی ہے۔ اور جب عورت اپنے اس اصل مقام کو پہچان لیتی ہے، تو وہ زمانے کی آنکھوں میں نہیں، خدا کی نگاہ میں قیمتی بن جاتی ہے۔
آزادی اور فتنہ کا فرق — شعور و حیا کی روشنی میں:
آزادی… یہ لفظ بظاہر بہت خوشنما ہے، لیکن اگر اس کی معنویت کو شعور، حیاء، اور دینی بصیرت کی روشنی میں نہ سمجھا جائے، تو یہی آزادی فتنہ، بےراہی اور تباہی کا دروازہ بن سکتی ہے۔ اسلام نے عورت کو غلامی کی زنجیروں سے نکالا، اسے تعلیم کا حق دیا، کام کرنے کا اختیار دیا، اور خودمختاری کی نعمت سے نوازا۔ لیکن ساتھ ہی اُسے ایسا مہذب فریم ورک دیا جس میں عزّت، وقار، اور حیا کے رنگ بھی موجود ہوں۔ اسلام کی دی ہوئی آزادی ایسی سنہری قید ہے جو تحفّظ کی ضمانت، اور کردار کی عمارت ہے۔
اسلام یہ نہیں کہتا کہ عورت تعلیم حاصل نہ کرے—بلکہ وہ تو حکم دیتا ہے کہ "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے”۔ اسلام یہ بھی نہیں کہتا کہ عورت کام نہ کرے—بلکہ حضرت خدیجہؓ کی تاجرانہ زندگی اس کی روشن دلیل ہے۔ اسلام عورت کی خودمختاری سے نہیں، بےراہ روی اور بےپردگی سے خائف ہے۔ اصل فرق حدود کا ہے۔ جب آزادی شرعی اصولوں، حیاء، اور وقار کی چھت تلے ہو تو وہ عورت کو نکھارتی ہے، اسے معاشرے کی آنکھوں میں نہیں بلکہ ربّ کی نگاہ میں باوقار بناتی ہے۔ لیکن جب یہی آزادی پردے کو زنجیر، حیاء کو پسماندگی، اور حدود کو رکاوٹ سمجھنے لگے—تو یہی آزادی بگاڑ، فتنے، اور انتشار کی بنیاد بن جاتی ہے۔
آج کا المیہ یہی ہے کہ عورت کو آزادی کے نام پر ایسا راستہ دکھایا جا رہا ہے جو روشنی کا دھوکہ، اور فریبِ منزل ہے۔ وہ آزادی جو لباس سے حیاء چھین لے، نگاہوں سے حجاب، لہجے سے وقار، اور کردار سے پاکیزگی مٹا دے—وہ آزادی نہیں، فتنہ کا لباس ہے جو تہذیب کی چادر کو چاک کر دیتا ہے۔ اسلام کی اصل تعلیم یہ ہے کہ عورت اپنے مقام کو سمجھے، اپنے وقار کو جانے، اور اپنی حدود کو اپنی طاقت سمجھے۔ کیونکہ جس دن عورت نے شریعت کی حدود کو اپنی آزادی کا محافظ جان لیا، وہ دن اس کی حقیقی عزّت اور تحفظ کا دن ہوگا۔ پس، آزادی اگر شریعت کے سائے میں ہو تو وہ روشنی ہے، لیکن اگر وہ حیاء کی سرحد سے نکل جائے تو وہی روشنی شعلہ بن کر سب کچھ جلا سکتی ہے۔ لہٰذا، آزادی کو خواہشات کے ہاتھ نہ دیں، بلکہ شریعت کے ہاتھوں میں تھامیں—تاکہ وہ آزادی، فتنہ نہ بنے بلکہ فخر بن جائے۔
خواتین کی تعلیم — وقار اور بصیرت کی راہ:
عورت… ایک نازک پھول سہی، مگر اگر اس کے ہاتھ میں شعور کی مشعل ہو، تو وہ صدیوں کو روشن کر سکتی ہے۔ تعلیم عورت کا حق ہے، مگر یہ حق صرف کتابیں پڑھنے اور ڈگریاں حاصل کرنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک فہم و فراست، کردار سازی اور تہذیبی بیداری کا سفر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لڑکیوں کو دین اور دنیا دونوں کا علم دیا جائے—ایسا علم جو ان کے دل میں اللّٰہ کی پہچان پیدا کرے، اور ذہن میں دنیا کا شعور بیدار کرے۔ انہیں قرآن کی روشنی بھی دی جائے اور سائنس کی سمتیں بھی دکھائی جائیں۔ وہ اقوالِ صحابۂ کرامؓ سے بھی واقف ہوں اور عصری چیلنجز سے بھی باخبر ہوں۔
لیکن اس تعلیم کے حصول میں حدود کا لحاظ، اور وقار کا پاس لازم ہے۔ مخلوط نظامِ تعلیم میں اکثر نظروں کی آوارگی، دلوں کی بےچینی اور حیاء کی پامالی جنم لیتی ہے۔ اگر تعلیم ایسے ماحول میں ہو جہاں پردہ، فاصلے، اور شرعی آداب ملحوظ نہ رہیں تو وہ علم روشنی نہیں، دھواں بن جاتا ہے۔ لباس میں سادگی ہو، گفتار میں نرمی ہو، اور نشست و برخاست میں اسلامی وقار اور تہذیب کی جھلک ہو۔ تعلیم یافتہ لڑکی اگر ماڈرن بننے کے شوق میں حیاء، پردہ اور وقار کو پیچھے چھوڑ دے، تو وہ ترقی نہیں بلکہ زوال کا آغاز ہے۔ ہمیں ایسی بیٹیاں چاہییں جو ڈاکٹر بھی ہوں مگر حیاء کا پردہ اوڑھے، استاد بھی ہوں مگر کردار کی روشنی بانٹیں، انجینیئر بھی ہوں مگر نظریں جھکائے، لہجے میں نزاکت اور گفتار میں شرم لیے۔
اسلامی تعلیم کا حاصل یہ نہیں کہ عورت اسکرینوں پر ناچتی، اشتہاروں میں سجتی، یا شہرت کی دنیا میں بہکتی نظر آئے، بلکہ مقصد یہ ہو کہ وہ علم و حلم کی پیکر، حیاء کی علامت، اور کردار کی معراج ہو۔ ایسی تعلیم ہو جو اسے سیرتِ فاطمہؓ، وقارِ زینبؓ، اور فہمِ عائشہؓ کا عکس بنا دے۔ یہی عملی رہنمائی ہے کہ: تعلیم عورت کا حق ہو، مگر بغیر وقار کے نہیں؛کام اس کا اختیار ہو، مگر بغیر حیاء کے نہیں؛ آزادی اس کی ضرورت ہو، مگر بغیر حدود کے نہیں۔ تب جا کر وہ عورت علم کی روشنی، کردار کی خوشبو، اور حیا کا چراغ بنے گی—جو صرف گھر نہیں، بلکہ پورے معاشرے کو سنوار دے گی۔
عورت: شعور، حیاء اور نسلوں کی معمار
قوموں کی تعمیر صرف عمارتوں سے نہیں، کردار سے ہوتی ہے—اور کردار کی بنیاد عورت کی آغوش میں رکھّی جاتی ہے۔ ایک باشعور، باادب، اور باضمیر لڑکی صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک چراغِ ہدایت ہے۔ اس کی زبان میں نرمی، نگاہ میں حیاء، اور دل میں دین کی روشنی ہو تو وہ ماں بن کر قوم کی تقدیر رقم کرتی ہے۔
تعلیم اگر دین کے سایہ، حیاء کی چادر اور حدودِ شریعت کی رہنمائی میں دی جائے تو اس کے ثمرات محض ڈگریاں نہیں، بلکہ کردار، بصیرت، اور امت کی اصلاح ہوتے ہیں۔ ایسی تعلیم صرف عورت کو نہیں سنوارتی، بلکہ اُس کے دامن سے ایک ایسی نسل پروان چڑھتی ہے جو دیانتدار، باحیا، اور حق شناس ہوتی ہے۔ یہی بیٹیاں جب ماں بنتی ہیں تو ان کے گود میں سعد بن ابی وقاصؓ جیسے مجاہد، امام مالکؒ جیسے عالم، اور امام شافعیؒ جیسے فقیہ پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا ہر عمل دین کی روشنی میں ہوتا ہے، ہر قدم شریعت کے مطابق، اور ہر سوچ آخرت کی فکر سے جڑی ہوتی ہے۔
لہٰذا ہم دعا گو ہیں: اے اللّٰہ!ہماری بیٹیوں، بہنوں، اور ماؤں کو عطا فرما: علمِ نافع، جو اندھیرے دور کرے؛ عملِ صالح، جو زنگ آلود دلوں کو جلا دے؛ اور کامل حیا، جو ان کی ذات کو دھڑکتے ایمان کا مظہر بنا دے۔ اے ربِّ کریم! انہیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں عطاء فرما، ان کی زبانوں پر قرآن ہو، دلوں میں خشیت، اور کردار میں فاطمہؓ، خدیجہؓ، عائشہؓ کا عکس۔ یہ دین کی علمبردار بنیں، حق کی محافظ، حیاء کی نمائندہ، نہ کہ مغرب کی فکری غلامی اور بے حیائی کی پرچھائیں۔ (آمین یا ربّ العالمین)
Comments are closed.