وزیر اعظم کی وشو گرو کی شبیہ داغدار ؟

 

مشرف شمسی

بھارتیہ ٹی وی چینلوں کی سچ کا ڈھول پھٹ چکا ہے ۔ملک کا ایک بڑا طبقہ بھارتیہ قومی میڈیا کو پہلے ہی دیکھنا بند کر چکا تھا لیکِن مودی حمایتی کا اب بھی اس ٹی وی چینلوں پر یقین برقرار تھا۔لیکِن جس طرح سے قومی میڈیا نے بھارت پاک حالیہ سنگھرش کے دوران رپورٹنگ کی ہے اس سے مودی حمایتیوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی ہیں ۔ٹی وی چینل کھلے عام جھوٹ بول رہا تھا ۔بھارت کا اسلام آباد پر قبضہ۔کراچی کو برباد کر دیا گیا ۔پاکستان کے پچیس شہر برباد۔اس طرح کی خبریں پروس کر قومی چینل اپنے ہی ناظرین کے سامنے ننگے ہو چکے ہیں ۔رویش کمار جیسے صحافی گزشتہ پانچ سات سال سے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے ٹی وی چینلوں کو دیکھنا بند کر دیں ۔اُن کی باتوں کا بہت حد تک اثر ہوا ہے لیکِن ایک بہت بڑے طبقے کو اب بھی لگتا تھا کہ ٹی وی چینل صحیح خبر دیتے ہیں ۔چونکہ وہ خبر اُنکے جذبات کے مطابق ہوتا ہے اسلئے اُن خبروں کو صحیح مان لیا جاتا ہے ۔دراصل گودی میڈیا کا صرف ایک کام رہ گیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کی شبیہہ کو چمکدار بنائے رکھیں اور ہندو مسلم کے درمیان نفرت پھیلاتے رہیں ۔تاکہ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ بی جے پی کو ووٹ دیتے رہیں ۔جس طرح سے سات سے دس مئی تک رپورٹنگ کی گئی ہے اگر اُسی طرح کی رپورٹنگ رویش کمار اور اجیت انجم جیسے لوگ کر دیتے تو اب تک وہ لوگ جیل میں ہوتے اور انکا یو ٹیوب چینل کب کا بند ہو چکا ہوتا۔دراصل گودی میڈیا مودی کی شبیہہ چمکانے کے لئے اگر کوئی خبر نہیں ہوتی ہے تو سوتر یا ذرائع سے خبر دینے کا کام کرتے ہیں ۔کیونکہ گودی میڈیا جانتا ہے کہ اس طرح کی خبر چلانے پر اُنکی پکڑ بھی نہیں ہوگی اور جسے ہیرو بنانے کے خبر چلا رہے ہیں وہ بھی خوش ہو جائیں گے ۔بھارت کی میڈیا عالمی رینکنگ میں 180 ممالک میں 153 پر پہنچ چکا ہے ۔سات مئی سے دس مئی کی رپورٹنگ پر پوری دنیا ہنس رہی ہے لیکن قومی میڈیا کے ٹی وی چینلوں کے اینکروں کو شرم تک نہیں آ رہی ہے ۔سیز فائر کے بعد بھی معاملے کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں بلکہ اُنکی کوشش ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو کسی طرح سے سیز فائر کے سین سے ہٹا دیا جائے ۔لیکن ٹرمپ ہیں کہ رک ہی نہیں رہے ہیں اور مسلسل اس بابت بیانات دیتے جا رہے ہیں جو وزیر اعظم مودی کے لئے شرمندگی کا باعث بنتا جارہا ہے ۔ساتھ ہی اُنکی وشو گرو کی شبیہہ کو بھی داغدار کر رہا ہے ۔وزیر اعظم مودی خود امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے جنگ رکوانے کی بات کی تردید نہیں کر پا رہے ہیں ۔اسلیے گودی میڈیا سوتر یا ذرائع کا حوالہ دے کر ٹرمپ کی بات کی تردید کر رہے ہیں ۔صرف مودی ہی نہیں بلکہ بھارت سرکار کا کوئی وزیر ٹرمپ کی بات کا تردید کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا ہے ۔جبکہ وزیر اعظم مودی کے حمایتی اب تک یہ سمجھ رہے تھے یا اُنہیں سمجھایا گیا ہے کہ مودی وشو گرو ہیں اور اُنکے ایک فون پر روس اور یوکرین کی جنگ رک گئی تھی تو اب بھارت پاکستان کی جنگ میں بھارت جب آگے بڑھ رہا تھا جیسا کہ بھارت کی میڈیا دعویٰ کر رہا تھا تو امریکہ سے ٹرمپ نے کیسے جنگ رکنے کا اعلان کر دیا ۔دراصل مودی کی شبیہ دو باتوں پر منحصر کرتا ہے ۔مودی بہت سخت وزیر اعظم ہیں اور وہ دنیا کے کسی طاقتور رہنماء کے سامنے جھکتے نہیں ہیں اور دوسرا وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں ۔لیکِن حالیہ بھارت پاک سنگھرش میں امریکی صدر کا سیز فائر کا اعلان کرنے سے وزیر اعظم مودی کی وشو گرو کی شبیہہ ختم ہوتی نظر آ رہی ہے اور دوسرا مودی جو کہتا ہے وہ کرتا ہے کی شبیہہ بھی سیز فائر کی وجہ سے ختم ہو گیا ہے ۔حزب اختلاف یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ اگر سیز فائر پاکستان کے مطالبے پر ہوا تو پاکستان سے پہلگام کی واردات میں ملوث دہشت گردوں کو بھارت کے حوالے کرنے کی بات ہوئی ہے یا نہیں۔غرض کہ بھارت پاک کشیدگی اور پھر سیز فائر وزیر اعظم مودی کے لئے مشکل بنتا جا رہا ہے اور اپنی شبیہہ پھر سے بنانے میں بھارت کی گودی میڈیا بھی کچھ کر پائیگی ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔. ۔۔ ۔۔ ۔

 

————————–+-++-+——————-

غزہ میں جنگ بندی نہیں ھوتی ھے تو سفارت کاری بے معنی ۔

 

مشرف شمسی

 

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خلیجی دورے میں غزہ اور فلسطین کے لئے ایک روڈ میپ خلیجی ممالک کی جانب سے ٹرمپ کے سامنے رکھے جانے کی خبر ہے ۔اس روڈ میپ پر امریکی صدر اور اُنکی ٹیم غور و خوض کر رہی ہے اور اس تجویز کو امریکی صدر کے قبول کرنے کی امید کی جا رہی ہے اور اس بابت ڈونالڈ ٹرمپ کوئی بڑا اعلان کر سکتے ہیں ۔دراصل مغربی ایشیا میں تین مسلم ممالک جن میں ترکیہ ،سعودی عرب اور ایران پوری دنیا کے مسلمانوں کا رہنماء بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور اُن تینوں کی اپنے اپنے طریقے سے زبردست سفارت کاری چل رہی ہے ۔

ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد ایران ہمیشہ امریکہ اور مغربی ممالک کے آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا رہا ہے۔لیکِن ایران کبھی بھی مغربی ممالک کے سامنے جھکا نہیں ہے جبکہ ایران کے خلاف امریکہ اور اسکے حواری ممالک پابندیاں عائد کرتے رہے ہیں اور آج بھی ایران پر کئی طرح کی پابندیاں لگی ہوئی ہیں ۔اُسکے باوجود ایران اپنے قدرتی وسائل کا استعمال کر نہ صرف فوجی اعتبار سے خود کفیل بننے کی کوشش کرتا رہا ہے بلکہ صنعتی طور پر بھی وہ روز مرہ کی استعمال کی چیزیں اپنے ملک میں ہی بنانے لگا ہے۔ایران میں کامیاب انقلاب کے بعد روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے پوری دنیا کے اہل تشیع کو متحد کرنے کی بات نہیں کی بلکہ فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کو اپنا نصب العین بنایا ۔ایران نے اسرائیل کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور اسرائیل کے خلاف ہمیشہ دباؤ بنا کر رہا۔ایران کبھی بھی عالمی قانون کی خلاف ورزی کے دائرے میں نہیں آیا جیسا صدام حسین نے غلطی کی تھی ۔اقوام متحدہ میں قرار داد پاس کرا کر پوری دنیا عراق پر ٹوٹ پڑی۔ایران کبھی بھی مغرب کے داؤں میں نہیں آیا اور ضرورت کے حساب سے دوست اور دشمن منتخب کرتا رہا اور یہی عالمی حکمت عملی بھی ہے۔صدام حسین کو ختم کرنا تھا تو کہا جاتا ہے کہ ایران نے خفیہ طور پر امریکہ کی مدد کی ۔یہی وجہ ہے کہ عراق اور امریکہ کی جنگ میں عراق کے شیعہ علاقے میں کوئی بمباری نہیں ہوئی ۔ساتھ ہی اپنے ہمسایہ ملک سے ایران دشمن حکمراں کو ختم کرنے میں ایران کامیاب رہا۔پھر عراق میں امریکی ٹیکنوکریٹ حکومت قائم ہوئی اور اس حکومت کوختم کرنے میں بھی ایران کا ہاتھ رہا۔غرض کہ ایران نے ہمیشہ اپنا محاسبہ کیا اور عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے ملک کے مفاد میں سفارت کاری کرتا رہا ۔ایران کبھی بھی امریکہ یا کسی اور ملک کے دباؤ میں نہیں آیا ۔یہاں تک کہ چین اور روس کے ساتھ اپنے رشتے برابری پر بنائے۔روس جب یوکرین کے ساتھ جنگ میں پھنسا ہے تو غزہ جنگ شروع کرا کر حالانکہ ایران سات اکتوبر 2023 کے حملے میں خود کو شامل نہیں بتاتا ہے امریکہ اور مغربی ممالک کا توجہ اسرائیل اور غزہ جنگ کی جانب موڑ دیا۔آج غزہ جنگ کا نتیجہ ہے کہ امریکہ کو احساس ہو چکا ہے کہ مغربی ایشیا میں اُسکی موجودگی خطرے میں آ چکی ہے ۔اسلئے امریکہ بھی حالات کو دیکھتے ہوئے ایران سے بات کر رہا ہے اور امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان گفتگو نتیجہ خیز رہے گی ۔گفتگو نتیجہ خیز اسلئے بھی رہے گا کہ امریکہ فوجی اعتبار سے ایران کا پراکسی یمن کو حتمی شکست نہیں دے پایا بلکہ یمن برابری پر امریکی ٹھکانوں پر حملھ کرتا رہا ۔امریکہ اور یمن کے درمیان سمجھوتہ ہو گیا ہے یہ جملہ ہی بدلتے مشرقی وسطیٰ کی جانب اشارہ کر رہا ہے ۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان ماضی میں بھروسے کی کمی تھی۔چین نے سعودی اور ایران کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا ۔کیونکہ ایران جانتا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اب تک اس خطّے میں شیعہ اور سنی کر ہی اپنی چوہدراہٹ قائم کی ہے۔سعودی عرب چاہتا تھا کہ ایران جوہری طاقت نہیں بنے لیکِن ایران نے آگے بڑھ کر سعودی حکومت سے کہا کہ ایران خود سعودی عرب میں جوہری ری ایکٹر لگانے کے لئے تیار ہے۔ایران نے سعودی حکومت کے شبہ کو ختم کیا۔اب سعودی اور ایران دونوں ایک پیج پر آ چکے ہیں ۔دوسری جانب سعودی عرب امریکہ کو قائل کر دیا کہ یمن جنگ میں انکا نقصان ہے تو ٹرمپ انتظامیہ اپنا نقصان دیکھتے ہوئے یمن سے معاہدہ کر لیا۔اب اسرائیل یمن کی زد پر تنہا ملک ہے ۔یمن اسرائیل کے خلاف سپر سونک میزائل استعمال کر اسرائیل کا تنہا انٹرنیشنل ہوائی اڈے کو مفلوج بنا دیا ہے۔اسرائیل کے سر سے امریکہ کا ہاتھ ایک طرح سے اٹھا ہوا نظر آتا ہے ۔اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسرائیل کی مدد کے چکّر میں امریکہ خود غزہ میں نسل کشی کے دائرے میں نہ آ جائے۔خیر وجہ جو بھی ہو لیکِن اسرائیل مشرقی وسطیٰ میں تنہا ہو چکا ہے اور 45 کیلومیٹر کے علاقے میں اسرائیل حماس کو ختم کر اپنا تسلط قائم نہیں کر پا رہا ہے ۔جبکہ اسرائیل کے سابق وزیراعظم اسحاق رابن کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اس خطّے میں اپنا دبدبہ قائم رکھنا ہے تو اُسے لمبی جنگ سے دور رہنا ہوگا اور اسرائیل کو کسی سپر پاور کا بھرپور ساتھ رہے تبھی اسرائیل کا وجود قائم رہ سکتا ہے ۔اب جبکہ اسرائیل تنہا بھی ہو چکا ہے اور بظاھر امریکہ نے اسرائیل کے سر سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔یعنی اسرائیل کا وجود خطرے میں آ چکا ہے ۔

شام میں اسد حکومت کے ختم ہونے کے بعد ترکیہ مشرقی وسطیٰ میں ایک مضبوط ملک کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔لیکِن شام میں نئی حکومت آنے کے بعد جس طرح سے شام کی زمین پر اسرائیل نے قبضہ کیا اُس سے ترکیہ کی شام میں موجودگی کمزور ہوئی لیکِن غزہ میں اسرائیل کے پھنسے ہونے اور یمن کا مسلسل اسرائیل پر حملے سے ترکیہ کو شام میں کاروائی کا موقع مل گیا ہے۔اسرائیل ایسے موقع پر ترکیہ سے لڑنے کی حالت میں نہیں ہے ۔ساتھ ہی ترکیہ میں عوام غزہ کی حمایت میں سڑکوں پر آ چکے ہیں ایسے میں ترکیہ کا اسرائیل کے خلاف سخت ہونا لازمی ہو گیا ہے اور موجودہ خطّے کی حالات بھی ترکیہ کے ساتھ ہے ۔

اسرائیل چہار جانب پھنس چکا ہے ۔سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک چاہتے ہیں کہ فلسطین کے ساتھ اسرائیل کا بھی وجود قائم رہے اور دونوں ممالک امن و شانتی سے ایک دوسرے کے اچھے پڑوسی بن کر رہیں۔یہ تبھی ممکن ہو پا رہا ہے جب ایران نے اپنے پراکسی کے ذریعہ اسرائیل کو کمزور کر دیا اور اپنی سفارت کاری سے امریکہ اور اسرائیل کو جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔سعودی عرب میں ڈونالڈ ٹرمپ جو اعلانات کر رہے ہیں یہ ایران کی وجہ سے ممکن ہو پا رہا ہے اور سعودی عرب بھی ایران کی سفارت کاری کا حصہ بن چکا ہے ۔لیکِن جب تک غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوتی ہے اور فلسطین کے قیام کا اعلان نہیں ہوتا ہے یہ سبھی سفارت کاری بے معنی ہوگی۔

میرا روڈ ،ممبئی

موبائیل 9322674787

Comments are closed.