وقف تحریک : عدالت کے سائے میں

 

ڈاکٹر سلیم خان

جسٹس سنجیو کھنہ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی آئینی حیثیت پر حتمی فیصلہ کرنے سے قبل سبکدوش ہوگئے۔ انہوں نےجاتے جاتے اپنی ذاتی املاک ظاہر کرنے کی ایک صحت مندروایت قائم کردی۔ نئے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ اب اس مقدمہ کی سماعت کرے گی ۔ فی الحال اگلی سماعت 20 مئی تک ملتوی ہوئی ہے مگر اس سے قبل سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو یقین دلایا کہ مرکزی حکومت اس معاملے میں تفصیلی سماعت مکمل ہونے تک کوئی قدم نہیں اٹھائے گی ۔ اس کے جواب میں جب جسٹس گوئی نے کہا کہ ، "اگر کوئی افسر اس سے پہلے کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم یہاں موجود ہیں۔‘‘ توسالیسٹر جنرل مہتا نے مسکراتے ہوئے کہا، "اس سے پہلے تو میں ہی یہاں بیٹھا ہوں۔‘‘ اس پر عدالت میں سنجیدہ بحث کے دوران ایک خوشگوار ماحول بن گیا۔ سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ وہ آج مرکزی درخواست پر بحث نہیں کر پائیں گے، لیکن یہ ضرور چاہیں گے کہ عدالت عبوری ریلیف دے، دیگر وکلا مثلاً شادان فراست، راجیو دھون اور وشنو جین نے بھی اپنی اپنی بات عدالت کے سامنے رکھی۔

مذکورہ بالا بحث کو سمیٹتے ہوئے سالیسٹر جنرل مہتا نے کہا، "چونکہ اس معاملے میں قانونی دفعات پر روک لگانے کی درخواست کی گئی ہے، اس لیے بہتر ہو گا کہ اس پر آئندہ ہفتے سماعت کی جائے۔‘‘ اس طرح معاملہ ٹل گیا۔ سپریم کورٹ کے اندرگزشتہ سماعت میں جو کچھ ہوا اس کی بابت یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’آغاز تو اچھا ہے انجام خدا جانے‘۔ پچھلی عدالتِ عظمی کے اندرسماعت کی ابتداء چیف جسٹس سنجیو کھنہ کے اس سوال سے ہوئی کہ کیا اس معاملےکو ہائی کورٹ بھیجنا بہتر نہ ہوگا کیونکہ ہر ریاست کے حالات مختلف ہوتے ہیں ۔ اس لیے کیا اس کی صوبائی سطح پر سماعت ہونی چاہیے؟ یہ سوال تو واجب تھا مگر اس کے جواب میں کپل سبل کے دلائل تاریخ کے اوراق میں سنہری الفاظ سے لکھے جائیں گے ۔ اس استفسار کے جواب میں پھیلے سناٹے کو کپل سبل کی گرجدار آواز نے توڑا۔ وہ بولے مائی لارڈ یہ وقف کی زمین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اسلامی روح کی شناخت کا معاملہ ہے۔یہ مسجدوں، قبرستانوں ، مدرسوں اور قبرستانوں کی حفاظت کا معاملہ ہے۔

کپل سبل نے زور دے کر کہا کہ اسے ہائی کورٹ کو دے کر ٹکڑے ٹکڑے نہ کریں ۔ یہ انصاف کا معاملہ ہے ۔ اسے یہیں سن کر فیصلہ کریں ۔ جسٹس کھنہ کے استفسار پر یہ جواب ضروری تھا کیونکہ اگر یہ مقدمہ ہائی کورٹس کو بھیجا جاتا تو لڑائی منقسم ہوجاتی۔73 مقدمات کی مشترکہ قوت ریزہ ریزہ ہوجاتی۔ موجودہ تنازع کے اہم ترین نکات میں سے ایک وقف بائی یوزر کی شرط کا خاتمہ ہے ۔ اس پر کپل سبل نے نہایت جذباتی انداز میں سوال کیا کہ جس زمین کو صدیوں سے لوگ نماز پڑھنے، دعا کرنے ، قبر بنانے کے لیے استعمال کررہے ہیں اگر وہ سرکاری کے ریکارڈ میں نہیں ہے تو کیا اب وہ وقف نہیں مانی جائے گی؟ کیا تاریخ کو صرف ریکارڈ کا محتاج بنا دیا جائے گا؟ کیا دعاوں کی کوئی دستاویز ہوتی ہے؟ کیا مزار پر لگی چادر کا رجسٹریشن ہوتا ہے؟ وقف کی زمین پر غاصبانہ قبضے کی بابت موصوف نے کہا اگر کوئی30 سال سے کسی وقف زمین پر قابض ہوتو کیا اس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا؟ تو کیا اب قبضہ ہی انصاف کہلائے گا؟کیا انصاف کی بھی کوئی ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے مائی لارڈ؟

عدالتِ عظمیٰ کی بینچ نے جب وقف کے تاریخی و تہذیبی وراثت کی اہمیت کا اعتراف کیا تو کپل سبل بولے :’’قبرستان ، مسجد ، مدرسہ وغیرہ یہ محض تہذیبی وراثت نہیں بلکہ (ان کا تحفظ ہماری) ذمہ داری ہے۔یہ صرف عمارتیں نہیں ہماری عبادتگاہیں ہیں اور ان پر ہمارا حق ہے۔ یہ ہم سے کوئی کلکٹر یا رجسٹرار چھین نہیں سکتا ‘‘۔ ان الفاظ سے عدالت کی دیواریں ہل گئیں ۔عدالت میں موجود اس دل گداز منظر کی چشم دید گواہ خوشبو گیتا اختر نے اس سے متاثر ہوکر اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ :’’میں نے صرف بحث نہیں سنی میں نے انصاف کی سانسیں سنیں‘‘ وہ آگے لکھتی ہیں’’میں نے ان آنکھوں کو دیکھا جو بینچ کی طرف نہیں خدا کی جانب دیکھ رہی تھیں کہ آج انصاف اسی کے ہاتھ میں ہے۔میں نے ان ہاتھوں کو دیکھا جو کورٹ کی دیوار کو چھو رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں ۔ بس ہمیں سنا جائے اور صحیح فیصلہ کیا جائے ‘‘۔

خوشبو اخترکی چشم کشا پوسٹ کا یہ جملہ تاقیامت مہکتا رہے گا کہ : ’’میں آج وہاں گواہ بن کر کھڑی تھی ۔ میں نے دیکھا کہ مسلمان ڈرنے نہیں آیا تھا، وہ لڑنے آیا تھا ۔ دستاویزوں سے ، دلیلوں سے ، آئین سے‘‘۔ ان کی پوسٹ کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے کہ :’’میں آج یہ اس لیے لکھ رہی ہوں کہ کیونکہ کل کوئی کہے گا کہ یہ صرف ایک مقدمہ تھا تو میری تحریرکہے گی نہیں۔ یہ اس قوم کی موجودگی تھی جو کبھی عدالتوں سے نہیں ڈرتی بلکہ وہیں اپنا حق لیتی ہے‘‘۔اس مقدمہ کے سماعت کے دوران ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے سپریم کورٹ میں دلیل دی کہ ملک بھر میں 8 لاکھ وقف املاک ہیں، جن میں سے نصف یعنی 4 لاکھ سے زیادہ جائیدادیں ‘وقف بائی یوزر’ کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔انہوں نے وقف ایکٹ میں کی جانے والی ترمیم کے بعد ان جائیدادوں کے خطرے میں پڑ جانے پر تشویش کا اظہار کیا ۔ انہوں نے عدالت سے پوچھا کہ کیا ایودھیا کیس میں دیئے گئے فیصلے اس کیس میں لاگو نہیں ہوتے ہیں؟

وقف ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ کی سماعت اور عدالت کے رویہ پر معروف قانون داں سلمان خورشید کا خیال ہے کہ اس معاملے میں وہی ہوا ہے جو کسانوں کے قانون میں ہوا تھا۔ سپریم کورٹ نے محسوس کرلیا ہےکہ کچھ متنازع دفعات پر پابندی لگنی چاہئے ۔ کورٹ نے اسی بات کا واضح اشارہ دیا ہے کہ اگر حکومت کے دلائل کمزور ہوئے تو وہ متنازع دفعات کو رَد کردے گا ۔ حکومت کے اوسان خطا ہونے کی یہی وجہ ہے اور اسی لیے ۷؍ دن کا وقت مانگاگیا ۔سلمان خورشید کے مطابق  وقف بائے یوزر کے معاملے میں کورٹ کا تبصرہ آئندہ کی سماعتوں کا رُخ بتاتا ہے۔کپل سبل کی بحث کا سب سے اہم پہلو آئین ہند کی دفعات 25, 26, 29 اور30 کے تحفظ کا مسئلہ تھا ۔ انہوں نے آئین کی دفع 26 کا حوالہ دے کر کہا کہ اگر مجھے وقف کو کچھ دینا ہے تو مجھے اس بات کا ثبوت دینا ہوگا کہ میں 5 سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہوں، اگر میں مسلمان ہی پیدا ہوا ہوں تو ایسا کیوں کروں گا۔ میرا پرسنل لاء یہاں لاگو ہوگا۔ وقف کرنے والے پر مسلمان ہونے کی شرط بھی نامعقول ہے کیونکہ ہر شخص اپنی دولت کسی کو بھی دینے کے لیے آزاد ہے ۔ اس شخص کا دستاویزات فراہم کرنا کافی ہونا چاہیے ۔

 

سی جے آئی نے اس دلیل کی تائید میں کہا کہ آرٹیکل 26 سیکولر ہے اور یہ تمام کمیونٹیز پر لاگو ہوتا ہے۔ معروف وکیل حذیفہ احمدی نے بھی عرض کیا کہ ایکٹ کے سیکشن 3(R) کے تین پہلوؤں کو نوٹ کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر اگر ’اسلام پر عمل کرنا‘ کو ایک ضروری مذہبی عمل سمجھا جائے تو اس کا اثر شہریوں کے بنیادی حقوق پر بھی پڑ سکتا ہے۔ احمدی نے کہا کہ اس سے ابہام پیدا ہوتا ہے۔ہندوستان کی سیاست کا یہ ایک خوش آئند پہلو ہے کہ اس باروقف ترمیمی قانون کی ایوان میں پورے حزب اختلاف نے متحدہ طور ہندو انتہا پسندوں کی ناراضی سے بے پروا ہو کر مخالفت کی اور یہ سلسلہ سپریم کورٹ کی سماعت کے بعد بھی جاری رہا۔ وقف قانون پر عدالتِ عظمیٰ سے راحت کے بعد عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وقف ترمیمی  قانون مکمل طور پر غیر آئینی ہے اور اسی مؤقف کو وہ پہلے بھی جے پی سی اور پارلیمنٹ میں اٹھا چکے ہیں۔

سنجے سنگھ کے مطابق سپریم کورٹ نے مرکز سے جو سوالات کئےہیں، ان کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ابھی بھی وقت ہے، مان لو کہ یہ ملک بابا صاحب کے لکھے ہوئے آئین سے چلے گا، کسی  کے فرمان سے نہیں۔ وقف قانون کے خلاف عدالت پہنچنے والے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ یہ بہت طویل لڑائی ہے۔ فی الحال ہمیں ابتدائی کامیابی ملی ہے لیکن آگے کی حکمت عملی کو ہمیں بہت سوچ سمجھ کر اور نہایت مثبت انداز میں طے کرنا ہو گا۔ ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے بھی سپریم کورٹ کی جانب سے ملنے والی وقتی راحت کا خیرمقدم کرتے ہوئے طویل لڑائی کے عزم کا اظہار کیا ۔ انہوں نے بھی وقف قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔انہیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ اسے رَد کردے گا یا پھر ان میں ترمیم کا حکم دے گا۔ ان بیانات اور رجحانا ت کا اشارہ ہے کہ وقف ترمیم کے خلاف عدالت سے لے کر سیاسی و عوامی سطح پر کی جانے والی یہ مزاحمت ضرور کامیاب ہوگی۔ ان شاء اللہْ۔

(بشکریہ : رفیق منزل)

Comments are closed.