حافظ منصور کا بہیمانہ قتل انتہائی افسوس ناک:ناظم امارت شرعیہ

پھلواری شریف،28مئی(پریس ریلیز)
امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ کے ناظم حضرت مولانامحمد شبلی القاسمی صاحب اپنے پریس بیان میں بتایاکہ ضلع دربھنگہ کے نستہ گاؤں میں بدھ کی صبح ایک دل خراش واقعہ نے پورے علاقےکو سوگوار کر دیا۔بلیا تیسی، بسفی بلاک ضلع مدھوبنی کے باشندہ اور نستہ پرائمری اسکول میں گزشتہ سولہ سترہ سالوں سے تعلیمی خدمات انجام دینے والے استاد حافظ منصور صاحب کو اسکول جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے سر میں گولی مار کر بے دردی سے شہید کر دیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب وہ روزانہ کی طرح اسکول جا رہے تھے اور اسکول سے محض دو سو میٹر کے فاصلے پر ایک سنسان مقام پر ان پر یہ حملہ کیا گیا۔حافظ منصورمرحوم نہ صرف اپنے طلبہ کے درمیان ایک مقبول استاد تھے؛ بلکہ ان کی شخصیت علاقے میں شرافت، سادگی اور دیانت داری کی پہچان بن چکی تھی۔وہ ہمیشہ تعلیمی میدان میں سرگرم رہتے اور بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ جیسےہی اس واقع کی اطلاع امارت شرعیہ کو ملی تو امیر شریعت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب کی ہدایت پر فوراً ناظم امارت شرعیہ، نے متاثرہ خاندان سے رابطہ قائم کیا اور ان کے چچاد بھائی جناب مقصود عالم سے واقعہ کی تفصیل معلوم کی اور غم زدہ خاندان کو تسلی دی ۔ واضح رہے حافظ منصور صاحب مرحوم کے پانچ چھوٹے بچے ہیں، جن میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ تمام بچے ابھی تعلیم کے ابتدائی مرحلہ میں ہیں اور والد کی ناگہانی موت سے ان کا مستقبل اندھیرا ہوگیا ہے۔
اس واقعے کے بعد لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ اگر ایک استاد، جو روزانہ ایک ہی راستے سے اسکول آتا جاتا ہے، اس طرح سرعام مارا جا سکتا ہے تو عام لوگوں کی حفاظت کا کیا حال ہوگا؟امارتِ شریعت بہار کے ناظم حضرت مولانا شبلی قاسمی صاحب نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ:ایک استاد کا قتل نہ صرف ایک فرد کا قتل ہے؛ بلکہ یہ علم، تہذیب اور سماج کے روشن چراغ کو بجھانے کے مترادف ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے میں سخت ایکشن لے، مجرموں کو فوری گرفتارکرے اوراسے واقعی سزا دے کر متاثرہ خاندان کو مکمل انصاف دیا جائے۔
حضرت ناظم صاحب نے حکومت بہار سے درج ذیل مطالبات کیے ہیں:
1. مجرموں کو جلد از جلد گرفتار کر کے سخت ترین سزا دی جائے۔2. مرحوم حافظ منصور کے اہل خانہ کی معقول مالی امداد دی جائے۔ 3.ان کے اہل خانہ کو سرکاری نوکری دی جائے۔ 4.ان کے سبھی بچوں کی بہتر تعلیم کا سرکار اپنی جانب سے نظم کرے۔ 5. اسکولوں اور اساتذہ کے تحفظ کے لیے خصوصی سیکورٹی اقدامات کیے جائیں۔
اس واقعے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا آج کے دور میں ایک استاد بھی محفوظ نہیں؟ ایک ایسا استاد جو نسلوں کو سنوارنے میں مصروف تھا، آج خود غیر سماجی عناسر کے ظلم کا شکار ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔( آمین)
Comments are closed.