قبولیت کے چند دن!

شمع فروزاں
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
یہ دور تجارتی اور صنعتی ترقی کا ہے، بڑی بڑی کمپنیاں مارکیٹ میں اپنا مال پیش کرتی ہیں، لوگ اس کی خصوصیات کو دیکھ کر خریداری کا فیصلہ کرتے ہیں، سامان کی قیمت متعین ہوتی ہے اور آج کل تو ہر سامان پر اس کی قیمت بھی طبع کر دی جاتی ہے؛ لیکن اس مطبوعہ قیمت میں بھی ڈسکاؤنٹ کی سہولت رکھی جاتی ہے، جو تاجرین اپنے گاہکوں کو دیتے ہیں، کبھی کبھی کم وقت میں زیادہ مال کی فروختگی پر اور ایک بڑی تعداد استفادہ کرے، اس کے لئے آفر رکھے جاتے ہیں، جیسے ہمارے ملک میں قومی دنوں۱۵؍ اگست، ۲۶؍ جنوری اور ملک میں بسنے والی مختلف قوموں کے تہواروں کی مناسبت سے آفر رکھے جاتے ہیں، رمضان المبارک اور عید الفطر کے موقع سے بھی ایسی رعایت کا رواج چلا آرہا ہے، اس کامقصد لوگوں کو ترغیب دینااور ضرورت مندوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔
یہ تو مادی تجارت ہے؛ لیکن دین اور شریعت جو روحانی تجارت کی رہنمائی کرتا ہے، اس میں بھی آفر کا ایک نظام ہے، اس آفر کا حاصل یہ ہے کہ کم سے کم وقت میں اہل ایمان زیادہ سے زیادہ اجروثواب حاصل کریں، اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض مہینوں ، بعض دنوں اور بعض راتوں کو خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے، اس میں کی جانے والی عبادتیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہیں، اور یہ نسبت دوسرے اوقات کی نیکیوں سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے، ایسی ہی قبولیت کے شب وروز میں ایک رمضان المبارک ہے، جس کا بحمد اللہ مسلم معاشرہ میں بڑے پیمانے پر استقبال ہوتا ہے، مسجد تنگ پڑ جاتی ہے، جگہ جگہ تلاوت قرآن کی گونج سنی جاتی ہے،غریبوں اور ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور مسلمان آبادیوں میں ایک خاص کیفیت محسوس کی جاتی ہے، اسی طرح بعض اور ایام ہیں، جن کی خصوصی فضیلت کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات میں آیا ہے، ایسے ہی مبارک ایام واوقات میں ایک ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے، جس کا ذکر خود قرآن مجید میں آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں کی قسم کھائی ہے (اعراف:۱۴۲) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ ان دس راتوں سے ذی الحجہ کا عشرہ اول مراد ہے۔(الجامع الاحکام تفسیر قرطبی: ۲۰؍۳۹)، ذی الحجہ کا مہینہ اُن حرام مہینوں میں شامل ہے، جو بہت حرمت والے ہیں، خود قرآن مجید میں اس کا ذکر آیا ہے، (توبہ:۳۶)، حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے (بخاری، عن ابی بکرہؓ، حدیث نمبر: ۴۶۶۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان ایام سے بڑھ کر عمل کے اعتبار سے کوئی افضل دن نہیں ہے، صحابہؓ نے عرض کیا: جہاد بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں، یہ جہاد سے بھی بڑھ کر ہے، سوائے اس شخص کے جو اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد کے لئے نکلا اور کوئی چیز ساتھ لے کر واپس نہ آسکا (بخاری، عن ابن عباسؓ، حدیث نمبر: ۹۶۹)؛ اس لئے اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ عشرہ ذی الحجہ افضل ہے یا عشرہ رمضان المبارک ؟ علامہ ابن تیمییہؒ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن رمضان المبارک کے آخری دس دنوں سے افضل ہے، اور رمضان المبارک کی آخری دس راتیں ذو الحجہ کی دس راتوں سے افضل ہیں (مجموعۃ الفتاویٰ: ۲۵؍۲۸۷)
ان ہی دس دنوں میں یوم عرفہ یعنی ۹؍ ذی الحجہ ہے ، جو حج کا اصل دن ہے اور دس ذی الحجہ یعنی عید قرباں کا دن بھی شامل ہے، جس کی خصوصی فضیلت ظاہر ہے، عشرہ ذی الحجہ کے اعمال میں ایک روزہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذو الحجہ کے نو دنوں کے روزے رکھا کرتے تھے، یعنی پہلی ذی الحجہ سے نویں ذی الحجہ تک : کان یصوم تسع ذی الحجہ الخ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۲۴۳۷)، اسی عشرہ میں ۹؍ ذی الحجہ کی تاریخ یعنی یوم عرفہ آتا ہے، جس کے بارے میں ابو قتادہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ میرا خیال ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کے لئے کفارہ ہو جائے گا: صیام یوم عرفۃ احتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی قبلہ والسنۃ بعدہ (عن ابن ابی قتادۃ ، حدیث نمبر: ۴۷۹)
البتہ اس سے صغیرہ گناہ مراد ہیں، جو کبیرہ گناہ ہیں، وہ اس سے معاف نہیں ہوتے، ان کے لئے شریعت کے مقرر کئے گئے اصول کے مطابق مقررہ افعال کو انجام دینا ، لوگوں کے حقوق سے متعلق گناہ ہو تو ان حقوق کو ادا کرنا یا معاف کرانا اور توبہ کرنا ضروری ہے (مرقاۃ المفاتیح: ۴؍۱۴۱)البتہ حجاج کو میدان عرفات میں روزہ نہیں رکھنا چاہئے؛ تاکہ وہ اس دن اچھی طرح یوم عرفہ کی دعاؤں کا اہتمام کریں، حضرت ام فضل بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتی ہیں کہ عرفہ کے دن لوگوں کو شک تھا کہ آج آپ روزہ سے ہیں یا آپ نے روزہ نہیں رکھا ہے؟ میں نے اس کو جاننے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پانی کا ایک پیالہ بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے نوش فرما لیا (بخاری، حدیث نمبر: ۱۶۵۸) گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عملی طور پر واضح فرما دیا کہ آپ آج روزہ کی حالت میں نہیں ہیں؛ لہٰذا یوم عرفہ کو حجاج کے لئے روزہ نہیں رکھنا بہتر ہے۔
روزہ کے علاوہ اس عشرہ میں بعض دیگر اعمال بھی مستحب ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تلقین فرمائی ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں :
ما من أیام أعظم عند اللہ ولا أحب الیہ من العمل فیھن من ھٰذہ الأیام العشر فاکثروا فیھن من التھلیل والتکبیر والتحمید (مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۳۱)
ذو الحجہ کے ابتدائی دس دنوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم دن نہیں ہے اور ان دنوں کے اعمال سے بڑھ کر کسی دن کے اعمال اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب نہیں ہیں؛ اس لئے تم ان دنوں میں لا الٰہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمدللہ کا کثرت سے اہتمام کرو۔
تکبیر کی ہی ایک صورت تکبیر ِتشریق ہے، یوں تو ۹؍ ذی الحجہ کی فجر سے ۱۳؍ ذی الحجہ کی مغرب تک ہر نماز باجماعت کے بعد تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے؛ لیکن اس کے علاوہ بھی زیادہ سے زیادہ تکبیر پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اس عشرہ میں بازار میں نکلتے ، زور سے تکبیر تشریق پڑھتے اور ان کے ساتھ ساتھ دیگر حضرات بھی پڑھتے: یخرجان الی السوق فی أیام العشر یکبر ان ویکبر الناس بتکبیر ھما (صحیح بخاری، کتاب العیدین باب فضل العمل فی ایام العشر)
اسی طرح تیسرا کلمہ (سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا الٰہ الا اللہ، واللہ اکبر وللّہ الحمد) ایک ایسا جامع کلمہ ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ’’تسبیح ،تہلیل ‘‘ یعنی لا الٰہ الا اللہ، اور تکبیر اور تحمید چاروں کو شامل ہے؛ اس لئے اگر ان ایام میں اس کلمہ کو زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی اوپر جو روایت گزری ہے، اس پر مکمل عمل ہو جائے گا، غرض ان دس ایام کا ایک اہم عمل زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے، اور ذکر میں قرآن مجید کی تلاوت اور درود شریف کا پڑھنا بھی شامل ہے، نیز ذکر نہایت آسان عبادت ہے، جس کے لئے نہ باوضو ہونے کی شرط ہے ، نہ کسی خاص ہیئت میں بیٹھنے کی، نہ یہ کہ ذکر کرتے ہوئے بندہ کوئی اور کام نہیں کر سکتا، اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی کیفیت نقل فرمائی ہے کہ وہ کھڑے کھڑے بیٹھے بیٹھے اور لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کیا کرتے ہیں: ویذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم (آل عمران: ۲۰۰)
یہ سب عشرہ ذی الحجہ کے افعال ہیں، افسوس کہ حج کرنے والے حج کا اہتمام کرتے ہیں، قربانی کرنے والے قربانی کا اہتمام کرتے ہیں؛ لیکن عشرہ ذی الحجہ کی یہ عبادتیں جو تمام مسلمانوں کے لئے ہیں، امیر کے لئے بھی غریب کے لئے بھی، مسافر کے لئے بھی مقیم کے لئے بھی، مردوں کے لئے بھی اور عورتوں کے لئے بھی، اس کی طرف سے عمومی بے احتیاطی برتی جاتی ہے۔
Comments are closed.