بجرنگ دَل پر پابندی عائد کیوں نہیں؟

 

از۔ مدثراحمدشیموگہ 831098052

کرناٹک میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران متعدد پرتشدد، فرقہ وارانہ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث تنظیم بجرنگ دل کے خلاف پابندی نہ لگنے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ سماجی تنظیموں، قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PFI) پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت پابندی لگائی جا سکتی ہے تو بجرنگ دل جیسے دائیں بازو کی شدت پسند تنظیم کو کیوں کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ 2008 میں کرناٹک کے مختلف اضلاع میں گرجا گھروں پر حملے ہوئے، جن میں 50 سے زائد چرچز کو نشانہ بنایا گیا۔ جسٹس بی کے سماسیکھر کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، ان حملوں میں بجرنگ دل کے کارکنان کے ملوث ہونے کے شواہد موجود تھے۔ 2022 میں شیموگہ میں بجرنگ دل کے کارکن ہرشا کے قتل کے بعد بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ ان فسادات میں اقلیتی برادریوں کی املاک اور دکانوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں بجرنگ دل کے کارکنان کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے۔بجرنگ دل کے کارکنان کو اخلاقی پولیسنگ کے نام پر نوجوانوں پر حملے، بین المذاہب جوڑوں کو ہراساں کرنے، اور عوامی مقامات پر زبردستی کارروائیاں کرنے کے کئی واقعات میں گرفتار کیا گیا۔ 2023 میں منگلورو میں تین کارکنان کو گوونڈا ایکٹ کے تحت نوٹس جاری کیے گئے۔2022 میں شیموگہ میں حلال گوشت کے خلاف ایک مہم کے دوران، پانچ بجرنگ دل کے کارکنان کو ایک مسلم گوشت فروش پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس واقعے نے علاقائی سطح پر فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ کر دیا۔اکتوبر 2021 میں ہبلی شہر میں مذہبی تبدیلیوں کے خلاف مظاہرے کے دوران ایک آئی پی ایس افسر کو سرعام گالیاں دینے کے الزام میں بجرنگ دل کے ایک لیڈر اور 100 کارکنان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ 2022 میں بی جے پی حکومت نے ریاست بھر میں 34 فرقہ وارانہ نوعیت کے کیسز واپس لے لیے، جن میں 113 بجرنگ دل کے کارکنان بھی شامل تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ حکومت کی پشت پناہی سے ایسے عناصر قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ یہ تمام واقعات اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ بجرنگ دل کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی ایک ممکنہ وجہ سیاسی تحفظ ہو سکتی ہے۔ ایک شہری نمائندہ گروہ نے حکومت سے تحریری طور پر سوال کیا ہے کہ جب PFI کو سنگین الزامات کے تحت ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے، تو بجرنگ دل کے خلاف ایسی کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے پاس کوئی واضح معیار موجود ہے جس کی بنیاد پر کسی تنظیم کو ملک کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے. بجرنگ دل کی بارہا فرقہ وارانہ اور پرتشدد سرگرمیوں کے باوجود کیا حکومت کے پاس کوئی قانونی یا سلامتی کی بنیاد نہیں کہ اس کے خلاف سخت قدم اٹھائے جائیں؟. کرناٹک کی سیاسی فضا میں بڑھتی ہوئی تقسیم اور اقلیتوں کے خلاف حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر عوام یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر کب تک سیاسی تعلقات رکھنے والی شدت پسند تنظیمیں قانون کی گرفت سے بچتی رہیں گی۔

 

Comments are closed.