قربانی کاجانور تول کرخرید وفرخت کرنا

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
اس وقت قربانی کے ایام بھی قریب آرہےہیں۔اورقربانی کے جانوربھی منڈیوں میں فروخت کے لئیے آگئیے ہیں۔جانور کی خریدوفروخت میں اکثرایساہوتاہے۔کہ جانورفروخت کرنے والے جانورکی قیمت۔کبھی فربہ ہونے کی بنیاد پر۔یاکبھی خوبصورت اورجاذب نظرہونے اورتیزطرارہونے کی بنیادپر زیادہ بتاتےہیں۔اوراتنازیادہ بتاتےہیں کہ خریدارکتناکم کرائے۔کم قیمت کے جانورکوبھی زیادہ قیمت کا سمجھ بیٹھتے ہیں اورخانورخریدنے میں ٹھگی کاشکارہوجاتےہیں۔ اب سوال یہ ہےکہ جانوروالے کوخسارے سےاورخریدار کو”غش“ اوردھوکہ وغرر سے بجانے کے لئیے کیاچھوٹے جانوروں کو تول کر فروخت کیاجاسکتاہے؟ جس کامقصد گوشت خریدنا نہیں ہوتا۔محض صحیح قیمت کااندازہ لگاناہوتاہے۔ یوں بھی اس پرگوشت کااطلاق نہیں ہوگا۔بلکہ گوشت ذبح اورکھال اتارنے کے بعد ہوگا۔ نیز یہ بات بھی سامنے رہنی چاہئے کہ جب انسان کسی زندہ جانور کی قیمت لگاتاہے تووہ بھی ذہنی اعتبار سے جانور کوتولتاہی ہے آپ اسے ”ذہنی اوردماغی تول “بھی کہ سکتے ہیں۔ یاذہنی اندازہ مگر ہے دونوں تول ہی اوراسی دماغی تول اورگوشت کے تخمینہ کے بعد خریدار اورفروخت کنندہ دونوں قیمت لگاتاہے۔ دیکھنا یہ ہےکہ اس میں کیا شرعی کوئی قباحت ہے ؟۔یااس کی شریعت میں اجازت ہے؟ ۔ ہم اس پر شرعی نقطہ نظرسے روشنی ڈالیں گے۔ وباللہ التوفیق۔
خریدوفرخت کے معاملہ میں شریعت اس بات کویقینی بناتی ہےکہ خریدوفروخت کے معاملہ کو دھوکہ۔اورخسارہ دونوں سے پاک کیاجائے۔ اورکوئی کسی ناتجربہ کار شخص کو بہت زیادہ منہگا سامان نہ بیچ دے۔اورنہ خود خسارا اٹھائے۔۔اسی لئیے۔ مسلم۔ترمذی۔اورابن ماجہ کتاب البیوع کے مطابق حضرت حبان بن منقذ کورسول اللہ صلى الله عليه واله وسلم نے یہ جملہ یاد کروایا تھاکہ جب بھی خریدوفروخت کامعاملہ کروتو ”لاخلابۃ“ کہہ دیاکرو ۔کیونکہ اکثر وہ سرمیں چوٹ کی وجہ سے خریدوفروخت میں دھوکہ کھاجایاکرتے تھے۔اورلوگ اس کافائدہ اٹھاکر ان کو گھٹیاسامان دیتے اورٹھگ لیتے توجب بھی وہ معاملہ کرتے ”لاخلابۃ فی البیع“ کہ خریدوفروخت میں کوئی دھوکہ دھڑی نہیں ہے۔اورخیار تین دن کا ہے۔ کہ دیاکرتےتھے۔ ۔امام نووی اورعلامہ تورپشتی نے حدیث کی شرح میں اس کی صراحت کی ہے۔ اسی طرح خریدوفورخت میں دھوکہ دینے والے شخص کے بارے میں حضور صلى الله عليه واله وسلم نے فرمایا:”من غش فلیس منا ”جس نے دھوکہ دھڑی سے کام لیا وہ ہمارے طریقے اوردین سے ہٹاہواانسان ہے۔اس حدیث کو ابوھریرہ سے مسلم ۔ترمذی اورصحیح ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ کہ ایک حضور کا ایک گندم ڈھیرسے گزرہوا حضور نے اس ڈھیر میں اپنی انگشت مبارک داخل فرمائی گندم کاڈھیر اندرسے پانی سے ترتھا اوراوپر خشک گندم رکھ اسے چھپادیاگیاتھا۔ حضورنے اس کی یہ حرکت دیکھ کرفرمایا۔۔”من غش فلیس منا“ اورآج بکرا منڈی آپ دیکھتے ہوں گے لوگ کیاکیانہیں کرتے ۔خوب پانی پادیتے۔۔بکرے کوانجکشن لگوادیتے اورایسی چیزیں کھلادیتےہیں جس سے بکرا کچھ کھاتاپیتابھی نہیں ہے اورخوب فربہ رہتاہے۔ ایسے دھوکہ دیاجاتاہے خریداروں کو۔ نیز یہاں پہلے اس بات کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہےکہ ۔۔قدیم فقہاء احناف نے جانوروں کو اعراف وعادات کی تبدیلی اورمعتبریت سے ہٹ کر کیلی یاوزنی اشیاء میں شمارنہیں کیاہے۔اوراسی وجہ ہدایہ اورفتح القدیر وغیرہ میں جانورکو وزن سے فروخت کرنے کو ناجائز گرداناگیاہے۔جبکہ یہ بات مسلم ہےکہ زمانہ قدیم میں واقعی جانورہویاکوئی بڑی چیز اسے ترازو میں وزن کرنے کا نہ توکوئی آلہ تھا۔اورنہ ہی اس کاتصور ورواج۔مگرآج کے زمانے میں جانورہی کیا بزے بڑے پہاڑ کے ٹکڑوں کو بھی وزن کرناممکن ہوگیاہے۔ اس لئیے قدیم فقہاء احناف کی بات اپنی جگہ اس زمانے کے اعتبارسے درست تھی مگر جوچیز پہلےناممکن تصورکی جاتی تھی اب سب ممکن ہوگئی ہے۔اورترقی کے منازل طے کرکے انسانی زندگی کاحصہ بن چکی ہے۔۔دوسری بات یہ ہےکہ کیلی اوروزنی چیزوں میں بھی اعراف تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ سیب ۔انار۔آم۔اورسنترے پہللے عددی تھے اب وزنی ہوگئیےہیں۔اناج کی جملہ اقسام پہلے کیلی تھیں اب وزنی ہوگئی ہیں۔کیلے کہیں وزنی ہیں۔اورکہیں عددی۔ ہمارے بچپن میں مچھلیاں ۔ساگ سبزی ساری چیزیں دھان۔چاول اوراناج کے بدلے گاوں میں ملاکرتی تھیں۔مگراب اس کاتصورہی نہیں ہے۔ ظاہرہے یہ سب لوگوں کے اعراف پر مبنی ہیں۔ عرف بدلے کاتومسئلہ کاحکم بھی تبدیل ہوگا۔ اورفقہاء کے اختلاف کو حجت وبرھان اختلاف نہیں۔بلکہ عصروزمان کے اختلاف پر محمول کیاجائیےگا۔ یہی وجہ ہے کہ آن لائن فتوی کی سائٹ پر موجودتفصیل کے مطابق اس بارے میں دارالعلوم دیوبند سے پوجھے گئیے سوال کے جواب میں عدم جواز کافتوی بھی موجودہے۔اورجوازوگنجائش کابھی۔ہدایہ اورفتح القدیر کی عبارت کوسامنے رکھ کر عدم جوازکی بات کہی گئی ہے۔اوردوسرے فتوے میں گنجائش۔ حالانکہ ویب سائٹ پردونوں جواب کی بجائیے ایک جواب ہوناچاہئیے۔ اورپہلی رائیے سے رجوع کی وضاحت ہونی چاہئیے۔۔جبکہ۔بنوری ٹاون۔فتوی آن لائن۔اوردیگر مصری وعربی فتاوی کیسائٹوں پر بلاتردد قربانی یاغیرقربانی کے جانوروں کووزن سے فروخت کرنے کو جائز کہاگیاہے۔۔ قربانی کے جانور وزن سے خریدوفروخت کےجوازکی حتمی رائے
معاملات کے باب میں شریعت کی ہدایت اور فقہی اصولوں کودیکھتے ہوئیے یہ بات حتمی طورپرکہی جاسکتی ہے کہ قربانی کا جانور شرائط قربانی کے مطابق۔بالکل درست ہو اورقربانی کی نیت سے محض جانورکےوزن کااندازہ لگانے کےمقصد سے تاکہ نہ لینے والاٹھگی کاشکارہواورنہ فروخت کرنے والے کااس مہنگائی کے دورمیں خسارہ ہو ۔قربانی کاجانوروزن سے خریدنا اوربیچنا جائزاوردرست ہے۔اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔واللہ ولی التوفیق۔
Comments are closed.