گرمی کی شدت: فطرت کا بپھرا ہوا انتباہ

 

تحریر: ابوشحمہ انصاری

سعادت گنج،بارہ بنکی

 

موسمِ گرما اس برس جس قہرناک انداز میں وارد ہوا ہے، وہ نہ صرف جسم پر آفت کی مانند محسوس ہو رہا ہے بلکہ ذہن و دل پر بھی بے چینی کی ایک دبیز چادر تانے ہوئے ہے۔ سورج کی تپش نے جہاں زمین کو جھلسا دیا ہے، وہیں انسان کی برداشت کی حدیں بھی چکنا چور ہوتی جا رہی ہیں۔ درجہ حرارت کئی علاقوں میں 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے۔ یہ محض موسمی تبدیلی نہیں، فطرت کا بپھرا ہوا انتباہ ہے جسے اگر نظرانداز کیا گیا تو انجام ناقابلِ تلافی ہو سکتا ہے۔

شہروں کی تنگ و تاریک گلیوں سے لے کر دیہات کی سنسان پگڈنڈیوں تک، گرمی کی شدت نے سب کو یکساں طور پر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لیکن اس مار کا سب سے بڑا شکار وہ طبقہ بن رہا ہے جو صبح سے شام تک روزی روٹی کی تلاش میں تپتے فرش پر کام کرتا ہے۔ مزدور، رکشہ چلانے والے، دہاڑی دار، یا کھیتوں میں پسینہ بہانے والی خواتین، سب اس جھلسا دینے والے ماحول میں ایک ایک سانس کے لیے ترس رہے ہیں۔ نہ سایہ، نہ پانی، نہ سکون۔

گرمی کے اس موسم نے اسکول جانے والے بچوں کے لیے بھی حالات دشوار کر دیے ہیں۔ بھاری بستے، بند اسکول کی عمارتیں، پنکھوں کی بے بسی، اور گرمی سے بوجھل ہوا۔یہ سب مل کر بچوں کی توجہ تعلیم سے ہٹا رہے ہیں۔ کئی اضلاع میں والدین نے گرمی کی شدت کے سبب بچوں کو اسکول بھیجنا عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔ دوسری جانب، اسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک، پانی کی کمی، اور لو لگنے کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں جہاں طبی سہولتیں پہلے ہی ناکافی تھیں، اب وہاں گرمی سے اموات کی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔

اس قدرتی آفت کے بیچ بجلی کی لوڈ شیڈنگ عوام کے صبر کا مزید امتحان لے رہی ہے۔ دن کے اوقات میں جب درجہ حرارت اپنی انتہا پر ہوتا ہے، پنکھے بند ہو جاتے ہیں، کولر دم توڑ دیتے ہیں، اور فریج ٹھنڈک دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ بجلی کی غیر اعلانیہ کٹوتی صرف شہروں کی سہولتوں کو متاثر نہیں کر رہی، بلکہ دیہات میں زراعت پر بھی کاری ضرب لگا رہی ہے۔ فصلوں کو پانی نہیں مل پا رہا، نل اور ہینڈ پمپ جواب دے چکے ہیں، اور کسان بے بسی کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔

ماحولیاتی ماہرین برسوں سے خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ اگر انسان نے فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بند نہ کی تو موسم بگڑ جائیں گے۔ درختوں کی اندھی کٹائی، زمین کا بے دریغ استعمال، گاڑیوں کا دھواں، اور فیکٹریوں سے نکلتا زہریلا دھواں ۔ سب نے مل کر زمین کے قدرتی توازن کو بگاڑ دیا ہے۔ اب جو کچھ ہم بھگت رہے ہیں، وہ اسی بے اعتدالی کا نتیجہ ہے۔

پانی کی قلت نے تو جیسے حالات کو اور زیادہ سنگین بنا دیا ہے۔ پانی کا حصول اب ایک عام آدمی کے لیے عیش نہیں، جدوجہد بن چکا ہے۔ شہری علاقوں میں ٹینکر مافیا سرگرم ہو چکا ہے، جو من چاہی قیمت پر پانی فروخت کر رہا ہے۔ دیہات کی خواتین کئی کلومیٹر دور پیدل چل کر پانی لاتی ہیں، اور جو پانی وہ لاتی ہیں، وہ پینے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم روز بروز شدید ہوتی گرمی کو تو محسوس کرتے ہیں، لیکن اس کے اصل اسباب اور حل سے نظریں چرا لیتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس صورتحال کو وقتی پریشانی نہ سمجھیں بلکہ ایک بڑے ماحولیاتی بحران کا حصہ تسلیم کریں۔ درخت لگانے کی مہم صرف تصویروں اور تقریروں تک محدود نہ رہے، بلکہ یہ ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کرے۔ اسکولوں میں ماحولیاتی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے، گھروں میں پانی اور بجلی کے استعمال میں کفایت برتی جائے، اور حکومت کی سطح پر جامع منصوبہ بندی کی جائے تاکہ شہروں کی آبادی اور گرمی کے دباؤ کو متوازن کیا جا سکے۔

گرمی کا یہ موسم، جو پہلے آم، برسات اور چھٹیوں کی علامت ہوتا تھا، اب ایک خوف کا روپ اختیار کر چکا ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ ہم نے فطرت کے ساتھ کیا کیا اور اب فطرت ہمیں کیا سکھانا چاہتی ہے۔ یہ موسم ہمیں خبردار کر رہا ہے کہ وقت بہت کم ہے، اور اگر ہم نے اب بھی کچھ نہ کیا تو کل ہمیں اپنے بچوں کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ملے گا۔

یہ صرف موسم نہیں، ایک آزمائش ہے۔ انسان اور فطرت کے تعلق کا امتحان۔ اس کا سامنا ہمیں مل کر کرنا ہوگا، اور یہی وقت ہے کہ ہم سنجیدگی، سمجھ داری اور اجتماعی شعور کے ساتھ اس چیلنج کا مقابلہ کریں۔ تبھی شاید یہ جھلساتی گرمی ہمیں جینے کا سلیقہ سکھا دے۔

 

Comments are closed.