قربانی:ضرورت بھی عبادت بھی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
قربانی: بظاہر ایک چھوٹا سالفظ ہے، کثیر الاستعمال ہے، خواہی نخواہی ہر طبقے میں یہ لفظ اتنی کثرت سے بولا جاتا ہے کہ اس کے معنی مفہوم کو ہر آدمی سمجھتا ہے اور اس کی تفہیم کے لیے لغت اور ڈکشنری الٹنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی، منطق کی اصطلاح کا سہارا لیں تو یہ بدیہی ہے،یعنی جس کے معنی کو سمجھنے کے لیے غور وفکر اور ذہنی جمنااسٹک کی ضرورت نہیں ہے، تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو انسانی اخلاق واقدار، تعمیر سیرت وکردار اور قوموں کے عروج وزوال میں قربانی کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے، اپنی ہی زندگی کا جائزہ لیں تومعلوم ہوگا والدین کی بے پناہ قربانیوں کے طفیل ہی ہم اس روئے زمین پر چلنے پھرنے اور زندگی گذارنے کے لائق ہوئے، جاڑے کی پخ بستہ راتوں میں ماؤں نے حفاظت نہ کی ہوتی، اپنی نیند کو حرام نہیں کیا ہوتا، خودبھیگے بستر پر سوکر ہمارے لیے خشک بستر فراہم نہیں کیا ہوتا تو ہم کب کے مرکھپ گیے ہوتے، والد نے اپنی معاشی پریشانیوں کے باوجود اپنی ضرورتوں کی قربانی دیکر ہمارے لیے آرام وآسائش،تعلیم وتدریس کی راہ ہموارنہ کی ہوتی تو ہم مہذب سماج میں زندگی گذارنے کے اہل نہیں ہوتے، یہ ذاتی قربانی ہے جو ہر شخص اپنے بال بچوں کے لیے دینے کو تیار رہتا ہے۔
تھوڑا آگے بڑھیں، آپ کی ایک فکر ہے، ایک موقف ہے، ایک تحریک ہے، جس کا درست ہونا، حق ہونا برسوں کے تجربات سے یا وحی الٰہی سے ثابت شدہ ہے، لیکن آپ کے خاندان والے، گھر والے اعزواقربا اس تحریک کے خلا ف ہیں، نہ صرف خلاف ہیں، بلکہ آپ کا جینا دوبھر کیے دے رہے ہیں، ساتھ دینا تو بڑی بات ہے، وہ آپ کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں، ایسے میں اس موقف کو ثابت کرنے اور تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے آپ کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے، خاندان سے دوری اختیار کرنی پڑتی ہے، یہ بھی قربانی ہی کی ایک قسم ہے۔
آپ جس تحریک کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں، وہ آپ سے ہر قسم کی قربانی کا طالب ہے، جان بھی، مال بھی اور وقت بھی، آپ نے جہاں نعرہئ حق بلند کیا، خطرات سر پر منڈلانے لگے، جس میں جان بھی جا سکتی ہے، اگر آپ ہر قسم کی قربانی سے دامن بچا کر تحریک کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں تو یہ اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔
تاریخ میں ایک جلیل القدر نبی کا نام آتا ہے، جنہوں نے روئے زمین پر خدائے واحد کی پرستش کا نعرہ بلند کیا اور بتایا کہ عبادت کے لائق صرف اللہ رب العزت ہے، اسی کی بندگی کرنی چاہیے، اس کی پاداش میں انہیں اپنا گھر،بلکہ اپنا ملک تک چھوڑ نا پڑا، اتنا ہی نہیں، بادشاہ وقت نے دہکتی آگ میں ڈال دیا کہ معاملہ ختم ہوجائے؛ لیکن عزم کے پکے اس انسان نے ساری قربانی دے کر اپنی تحریک کو زندہ رکھا، بڑی آرزوؤں اور تمناؤں کے بعد بڑھاپے میں ایک لڑکا ہوا تھا، جب وہ کاموں میں ہاتھ بٹانے کے قابل ہوا تو حکم ہوا کہ اس کی قربانی دو، بچہ بھی بڑا حلیم تھا، بر د بار تھا، جس گھر میں پلا بڑھا تھا، وہاں اس نے والدین کی قربانی دیکھی تھی، اچھا خاصہ گھر چھوڑ کر وادیئ غیر ذی ذرع یعنی بنجر زمین میں بود وباش اختیار کرنا پڑا تھا، مزاج قربانی کا بنا ہوا تھا، باپ نے ذکر کیا، بیٹے نے سر تسلیم خم کر دیا، نہ صرف خم کیا؛ بلکہ ترکیب بتائی کہ مجھے اوندھے منہ لٹائیے،ہاتھ پاؤں باندھ دیجئے، کہیں ایسا نہ ہو آپ کی شفقت پدری جوش میں آجائے اور آپ قربانی سے رک جائیں، کس کی قربانی؟ بیٹے کی قربانی۔
پھر چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ بوڑھا باپ اپنے ہاتھوں بڑھاپے کے سہارا کو رسی سے باندھ دیتا ہے، چہرے کے بل لیٹا دیتا ہے، چھری حلق پر چلانا چاہتا ہے کہ قربانی قبول ہوجاتی ہے، خواب سچا ہوجاتا ہے، ابتلاء وآزمائش کی گھڑی ختم ہوتی ہے اور مینڈھا اس قربانی کے بدلے میں قبول کر لیا جاتاہے، کیسا رہا ہوگا وہ سماں، کیسی ہلچل عرش وفرش پر مچی ہوگی، دل بیتاب کتنا تڑپا ہوگا، آپ سب جانتے ہیں کہ قربانی کے اس کامل واکمل عمل سے گذر نے والے حضرت ابراہیم اور ان کے صاحب زادہ حضرت اسماعیل علیہما السلام تھے، قربانی کا ایسا نمونہ کسی اور نے اس روئے زمین پر کاہے کوپیش کیا ہوگا۔
اس کامل انسان کی قربانی کی یاد گار آج تک قائم ہے، یہ بتانے کے لیے کہ ہم سب کو ملک وملت کی فلاح وبہبود کی غرض سے ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے، قربانی کا یہ ذوق صرف ذاتی نہ ہو، بلکہ اجتماعی طور پر یہ مزاج پروان چڑھے، ہر آدمی اپنی جان ومال کو اجتماعی کاموں کے لیے قربان کرے، اس کے لیے علامتی طور پر جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے، جانور کی قربانی میں مال بھی خرچ ہوتا ہے اور محبت کے وہ جذبات بھی جو جانوروں سے فطری محبت وانسیت اور ان کی نگہداشت سے انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں، اسی لیے اسلام میں مال خرچ کرنے کے ساتھ قربانی کا طریقہ بھی بتایا گیا، تاکہ انسان کا مزاج جانور کی قربانی کے ذریعہ اپنی قربانی تک پہونچ جائے،اس لیے بعض دانشوروں کی جانب سے جو یہ تجویز آتی رہتی ہے کہ جانور کی قربانی کے بجائے اس کام پر خرچ کی جانے والی رقم کو فلاحی کاموں میں لگادیا جائے، غریب بچیوں کی شادی کرادی جائے، یہ تجویز قربانی کے فلسفہ سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں ذریعہ اور مقصد دونوں کی اہمیت ہے اور جو طریقہ قربانی کا بتایا گیا، اسی طریقے سے قربانی ہوگی تو انسانوں میں وقت پڑنے پر جان کی قربانی کا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوگا، پھر یہ معاملہ ذاتی نہیں رکھا گیا کہ ہر آدمی اپنی سہولت سے جب چاہے قربانی کرلے اور جس تاریخ میں چاہے جانور کو ذبح کر دے، ایسا کرنے سے قربانی کا صرف انفرادی جذبہ پیدا ہوگا،ہر دو اکی اپنی تاثیر ہوتی ہے اور کھانے کے طریقے بھی بتائے جاتے ہیں،تو بھلا قربانی کے معاملے میں اسے کیوں فراموش کر دیا جاتا ہے، جب کہ مطلوب یہ ہے کہ اجتماعی قربانی کا مزاج پیدا کیا جائے، اس کے لیے چند ایام مقرر کیے گیے؛ تاکہ ان ایام میں ہی قربانی دی جائے اور اعلان کر دیاجائے کہ میری نمازیں، میری قربانی اور میری حیات وموت سب خالق کائنات ہی کے لیے ہے، اسی کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی گذارنی ہے، چاہے اس کے نتیجے میں ذاتی مفادات، خواہشات، امیدیں اور توقعات سے دستبردار ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔
جانور جب ذبح ہوجاتا ہے تو اس کی آنکھیں عموما کھلی رہتی ہیں اور ہم سے پوچھتی ہیں کہ میں نے تمہارے اندر قربانی کے صفات پیدا کرنے کے لیے اپنی جان دیدی، لیکن تم نے اپنی خواہشات کی قربانی دی یا نہیں، اگر میری جان کے جانے سے تمہارے اندر قربانی کا جذبہ پیدا ہو گیا اور تم خود غرضی اور ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ گئے اور تم نے ملک وملت کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کا عزم کر لیا ہے، تو مجھے اپنی جان کے جانے کا غم نہیں، ہمیشہ بڑے مقاصد کے حصول کے لئے قربانی دینی ہوتی ہے اور ہم نے قربانی دیدی؛لیکن اگر ایسا نہیں ہو پایاتو میری جان اکارت گئی،تم نے واجب تو ادا کر دیا،گناہ سے بچ بھی گئے؛لیکن مقصد حاصل نہیں ہو؛اتو کچھ نہیں ہوا،
ہم اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اور گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا واقعی جانور کی کھلی آنکھوں کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہم ہیں، اگر نہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے یہاں نہ تو جانور کا گوشت پہونچتا ہے اور نہ خون، اصل دل کی وہ کیفیت پہونچتی ہے جسے تقویٰ کہا جاتا ہے، اور تقویٰ وہ ماسٹر کی(Master key) اور شاہ کلید ہے جس سے قربانی کے دروازے کھلتے ہیں اور ہماری سوچ، ہمارا عمل، زندگی گذارنے کا طریقہ، معاشرت، معیشت سب کچھ بدل جاتا ہے، اور ہم سماج کے لیے، ملک کے لیے، ملت کے لیے، مفید سے مفید تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
(مضمون نگار امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے نائب ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر ہیں)
Comments are closed.