غیرمسلموں کے ساتھ ازدواجی تعلقات

ڈاکٹر قاضی محمدفیاض عالم قاسمی
ناگپاڑہ ممبئی۔
اسلام میں نکاح محض ایک معاملہ یاجنسی تسکین کاذریعہ ہی نہیں،بلکہ اس کی حیثیت عبادت کی بھی ہے۔ایسی عبادت جومردوعورت کی باہمی رضامندی سے وجود میں آتی ہے۔جس طرح نماز پڑھنے کے لئے بعض ایسی شرائط ہیں کہ ان کے بغیرنماز نہیں ہوتی، اسی طرح نکاح کے صحیح ہونے کے لئےبھی بعض ایسی شرائط ہیں کہ ان کے بغیرنکاح منعقدہی نہیں ہوتاہے۔من جملہ شرائط میں سے یہ ہے کہ عاقدین (لڑکا ولڑکی دونوں) مسلمان ہوں،ورنہ ان کانکاح آپس میں نہیں ہوسکتاہے۔
مسلمان وہ ہےجودس چیزوں پرایمان رکھے۔(١)اللہ کے وجود(٢)اس کی وحدانیت، (٣)اس کی تمام صفات، (٤)اس کےسارے نبیوں (٥)اوراس کی بھیجی ہوئی سبھی کتابوں پر (۶)اورآخرت کے(یعنی قیامت حساب وکتاب وغیرہ) دن پر ایمان رکھے،(۷)نیزحضوراقدس جناب محمد رسول ﷺ کے آخری نبی ہونے پر اس کایقین ہو، (۸)اس طرح کہ آپ کے بعد کسی قسم کاکوئی (نیا) نبی نہیں آسکتا،(۹)اورضروریاتِ دین یعنی ان تمام چیزوں پر ایمان لائےجن کاحضورﷺ کے ذریعہ آنابالضرورۃ (بلاشک وشبہ)معلوم ہے، (١۰)اوران باتوں کازبان سے اقراربھی کرے۔(مجموعہ قوانین اسلامی، دفعہ نمبر:١)۔ زبان سے اقرارکرنااس لیے ضروری ہےتاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ فلاں آدمی مسلمان ہے،پس اگر کسی نے اقرارنہیں کیاتو وہ اللہ کے نزدیک مسلمان کہلائےگا، دنیامیں مسلمان نہیں کہلائے گا، اسی طرح اگر کوئی صرف زبان سے اقرارکرے،لیکن دل میں ایمان و یقین نہ ہو تو دنیامیں مسلمان کہلائے گا، حقیقت میں یعنی اللہ کے نزدیک مسلمان نہیں ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ:اوراللہ تعالیٰ نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے،اورتمہاری بیویوں سےبیٹےاورپوتےپیداکئے۔(سورۃ النحل:۷۲)دوسری جگہ ارشادہے :ترجمہ:اورتم مشرکوں سے نکاح نہ کرو،یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔(البقرة: ۲۲۱)
اس آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک مسلمان کانکاح کسی مشرک یاکافر سے نہیں ہوسکتاہے۔ایسانکاح شرعا باطل ہے۔مشرک وہ شخص ہے جو اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ رکھتاہو، کسی نبی کی رسالت اورنبوت پر ایمان نہ رکھتاہو، آسمانی کتابوں پربھی اس کاایمان نہ ہو، آخرت پر اس کایقین نہ ہو، اس کے بجائے کئی خداؤں پر اس کا ایمان ہو، یا خداکی صفات میں کسی دوسری مخلوق کو شریک سمجھتاہو، مثلا وہ بتوں کی پوجاکرتاہو، یاکسی بڑی شخصیت کو اپنا خداسمجھتاہو،تواس کو مشرک کہتے ہیں۔اگر کوئی آدمی کسی بھی خداپرایمان نہیں رکھتاہے، یا کسی بھی پیغمبر کو نہیں مانتاہے، یا بعض پیغمبر کو مانتے اور بعض کو نہیں،تو اس کو کافر کہاجاتاہے۔ مثال کے طورپر ہندو، جین، سکھ، بدھسٹ، پارسی، یہ لوگ مشرک بھی ہیں اور کافر بھی ۔ان کے ساتھ کسی مسلمان مرد یامسلمان عورت کانکاح باطل ہے، نکاح منعقدہی نہیں ہوتاہے، اسی طرح بعض وہ فرقے جو بظاہر مسلمان ہیں یاسرکاری دستاویز میں ان کو مسلمان سمجھاجاتاہے لیکن اوپر مسلمان کی تعریف پر وہ صادق نہیں آتےہیں،اس لئے مسلمان نہیں ہیں،پس ان کے ساتھ بھی کسی مسلمان مر دیامسلمان عورت کانکاح درست نہیں۔وہ فرقے یہ ہیں:قادیانی:یعنی ایسے لوگ جو مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں اور ان کی اتباع کرتےہیں۔غالی شیعہ :یعنی ایسے لوگ جن کے بارے میں یقینی طورپرمعلوم ہو کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدامانتے ہیں،یا نبی مانتے ہیں، یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم ان ہی پر نازل ہوناتھا، لیکن حضرت جبرئیل علیہ السلام سے غلطی ہوگئی اور وہ وحی لیکر حضرت محمدﷺ کے پاس چلے گئے۔ یا ان کایہ عقیدہ ہو کہ حضرت محمد ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مرتد ہوگئے تھے۔بہائی:وہ لوگ جن کاایمان ہو کہ مرزاحسین علی نوری بہاء اللہ بھی اللہ کے نبی یارسول ہیں۔بابی:وہ لوگ جن کا ایمان ہو کہ سید علی محمد باب اللہ کے نبی یارسول ہیں۔شکیلی:وہ لوگ جن کاایمان ہو کہ شکیل بن حنیف عیسیٰ علیہ السلام ہیں، یا امام مہدی ہیں، یا وہ خود رسول یا نبی ہیں۔
یہ سارے فرقے حکومت کی نظرمیں مسلمان ہیں، لیکن خداکی نظر میں مسلمان نہیں ہیں، کیوں کہ یہ لوگ حضرت محمد ﷺ کی رسالت یا آپ کی پیغمبری پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، یا آپ کو اللہ کاآخری نبی نہیں مانتے ہیں، تو ان لوگوں سے کسی مسلمان مرد یامسلمان عورت کا نکاح نہیں ہوسکتاہے۔
اس طرح کاحکم تنگ نظری نہیں،اورنہ ہی اس وجہ سے کہ غیرمسلم گھٹیاہیں،بلکہ ایک مسلمان خاندان کے ایمان وعمل اوران کی تہذیب کی حفاظت مقصود ہے،اسلام سے پہلے بھی دوسرے مذاہب میں اس طرح احکام موجود تھے،یہودیوں کے یہاں اسرائیلی کاغیراسرائیلی سےنکاح جائزنہیں۔(خروج:۳۴/۳۱)، عیسائی مذہب میں بھی غیرعیسائی سے نکاح جائزنہیں۔(کرنتھیوں:۶/۱۴-۱۵)اورہندومذہب میں تو ایک ذات کے لوگوں کے لیے دوسری ذات میں نکاح کی اجازت نہیں ہے، چہ جائے کہ دوسرے مذہب والوں سے نکاح درست ہو۔(آسان تفسیرقرآن کریم۱/۸۴)
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب فرماتے ہیں:اسلام کا تصور یہ ہے کہ رشتۂ نکاح میں دونوں فریق کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی ہونی چاہئے ، یہ ہم آہنگی رشتوں کو پائیدار بناتی ہے ، جو لوگ وقتی طورپر کسی پر دل پھینک دیتے ہیں اور اس بنیاد پر ازدواجی رشتہ سے بندھتے ہیں ، عموماً ان کے درمیان تعلق میں استحکام باقی نہیں رہتا ، ہم آہنگی کے لئے ایک ضروری شرط فکر و عقیدہ کی موافقت بھی ہے ، سوچئے کہ اگر ایک شخص اللہ کو ایک مانتا ہو اور اللہ کے سوا کسی کے سامنے اپنی پیشانی رکھنے کو سب سے بڑا جرم تصور کرتا ہو ، اس کی اس شخص کے ساتھ ۲۴؍گھنٹے کی زندگی میں کیسے موافقت ہوسکتی ہے ، جو سینکڑوں مخلوقات کا پجاری ہو ، جب دونوں کے مذہبی تہوار آئیں گے تو اگر وہ اپنے نظریہ میں سنجیدہ اورسچا ہوتو کیا ان کے درمیان نزاع پیدا نہیں ہوگی ؟ جب اولاد کی تعلیم و تربیت اور ان کی مذہبی وابستگی کا مسئلہ آئے گا تو کیا آپس میں کھینچ تان کی نوبت نہیں آئے گی ؟ یقیناً آئے گی ؛ اسی لئے اسلام میں جو چیزیں نکاح میں رکاوٹ مانی گئی ہیں ، جن کو فقہ کی اصطلاح میں’’ موانع نکاح‘‘ کہا جاتا ہے ، ان میں ایک اختلاف دین بھی ہے ۔
مشاہدہ ہے کہ اس طرح کے جوڑے اپنی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ انہیں اپنے اہل خانہ کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے والدین ان کی شادی کی تقریبات میں شرکت نہیں کرتے ہیں، دونوں میاں بیوی کوان کے سسرال والے افراد خانہ نہیں سمجھتے،اس وجہ سے اس طرح کے جوڑے ہمیشہ معاشرتی زندگی کے مسائل کاسامناکرتے رہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ایسے لوگ اپنے رشتے داروں اور معاشرے میں اپنا وقار کھو دیتے ہیں۔ ان کے بچوں کو معاشرے میں بھی اسی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،بلکہ وہ اپنے والدین سے کہیں زیادہ سخت چیلنجوں کاسامناکرتے ہیں۔ اس طرح کی شادیاں عام طور پر زیادہ عرصہ تک نہیں رہتیں اور تھوڑے ہی عرصے میں طلاق یاخلع کے ذریعہ علیحدگی ہوجاتی ہے۔اس لئے شریعت مطہرہ نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ نکاح کو سرے سے ناجائز قراردیاہے۔فقط
Comments are closed.