گھوڑے کی پیشانی سے خیر و برکت وابستہ ہے!

مولانا محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ یوپی
رابطہ نمبر 9506600725
ایک علمی و فکری واٹسپ گروپ میں جس میں خود مجھے بھی شامل کرلیا گیا ہے، ایک تحریر گھوڑے کی حلت و حرمت پر آئی اور اس پر گروپ کے ارباب علم و فضل نے کافی بحث و مباحثہ کیا اور بعض نے احناف کے مسلک پر نقد و تبصرہ بھی کیا ۔ راقم الحروف کے دل میں آیا کہ چونکہ گھوڑے کا تذکرہ قرآن مجید میں آیا ہے اور یہ حیوانات قرآنی میں سے ہے اور اس کی پیشانی سے خیر و بھلائی وابستہ ہے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کو پسند فرمایا ہے ، کیوں نہ گھوڑے کے بارے میں جو تفصیلات ملتی ہیں، ان کا تذکرہ قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کی روشنی میں کردوں ، اسی خواہش کی تکمیل میں یہ مضمون راقم الحروف نے تحریر کیا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں، اس میں اس کا بھی ذکر ہوگا کہ گھوڑا بھیمة الانعام میں کیوں نہیں ہے، اس کی قربانی کیوں جائز نہیں ہے اور اس کے گوشت کو حرام یا مکروہ تنزیہی یا تحریمی کیوں قرار دیا گیا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ق ن
پیغمبر اسلام نے جانوروں میں گھوڑے 🐎 کو پسند فرمایا ہے ارشاد ہوا کہ قیامت تک گھوڑے کی پیشانی سے خیر و بھلائی بندھی ہوئی ہے ،، الخیل معقود فی نواصیھا الخیر الی یوم القیامة ۔( بخاری 1/ 399/)الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ یہ روایت حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ۔ (بخاری) ۔
اصل میں گھوڑے کا ذکر علامتی حیثیت رکھتا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جہاد کے لئے جو سواریاں استعمال کی جاتی تھیں، ان میں گھوڑا سب سے مفید ثابت ہوتا تھا ،اس لئے اصل مقصود یہ ہے کہ جذبئہ جہاد کو سرد نہ ہونے دیا جائے ،اسی لئے ایک روایت میں ہے کہ جس نے محض فخر و غرور اور نمائش کے جذبہ سے گھوڑوں کی پرورش کی اس کے لئے یہی گھوڑے بار گناہ ثابت ہوں گے ۔( بخاری شریف 1/ 402)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑ دوڑ کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے ،بعض دفع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود گھوڑ دوڑ کرائی ہے ، دبلے اور چست گھوڑوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفیاء سے ثنیة الوداع تک مقرر فرمایا ،جس کا فاصلہ پانچ تا چھ میل ہے اور دوسرے گھوڑوں کے لیے تنیة الوداع سے مسجد بنی زریق تک، جس کا فاصلہ کم و بیش ایک میل ہے ،خود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس دوڑ میں شریک رہے ہیں ۔ (بخاری شریف باب السبق بین الخیل۔)
لیکن ظاہر ہے یہ گھوڑ دوڑ اسی وقت جائز ہے، جب کہ وہ قمار و جوئے کی صورت سے خالی ہو ، اگر دو آدمی باہم شرط باندھ کر بازی لگائیں تو جائز نہ ہوگا کہ یہ قمار ہے ۔ (قاموس الفقہ جلد دوم صفحہ 391)
گھوڑے کا گوشت
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوئہ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑے کے گوشت کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ عہد نبوت میں ہم لوگوں نے گھوڑا ذبح کیا اور کھایا ۔( بخاری شریف باب لحوم الخیل)
اکثر فقہاء اور سلف صالحین ان احادیث کی روشنی میں گھوڑے کے گوشت کو بلا کراہت حلال قرار دیتے ہیں ،امام مالک رح کے نزدیک کراہت ہے ، ،امام ابو حنیفہ رح بھی مکروہ کہتے ہیں ،حرام نہیں کہتے ، اور گو خود مشائخ احناف کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی ،مگر عام طور پر حنفیہ کا رجحان اس کے مکروہ تحریمی ہونے کی طرف ہے ۔ (قاموس الفقہ جلد دوم صفحہ 391)
حنفیہ اور مالکیہ کے پیش نظر یہ ہے کہ قرآن نے انعام الٰہی کے طور پر گھوڑے اور خچر کا ذکر کیا ہے ،مگر اس موقع پر صرف سواری اور زینت کا ذکر ہے ، (نحل : 8)
کھانے کا ذکر نہیں کیا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا کھانا جائز نہیں ، ورنہ تو یہ نعمت ان دونوں نعمتوں سے بڑھ کر ہے اور ضرور تھا کہ اس کا ذکر کیا جاتا ،دوسرے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے خچر گدھے اور ہر درندہ جانور سے منع فرمایا ہے ۔ (نسائی 2/ 198)
تاہم اس آیت سے استدلال محل نظر ہے ، اول یہ کہ یہ آیت مکی ہے ،فقہاء اس پر متفق ہیں کہ گدھے کی حرمت غزوئہ خیبر کے موقع پر ہوئی ہے ، اس سے پہلے حلال تھا ، مگر اس آیت میں گدھے کا ذکر بھی ہے ،پس اس آیت سے حرمت پر استدلال کرنے کی صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ یہ تمام جانور مکہ ہی سے حرام تھے ، دوسرے عرب چونکہ گھوڑے گدھے اور خچر کو غذا کے لئے کم اور بار برداری اور سواری کے لئے زیادہ استعمال کرتے تھے ،اس لئے از راہ اتفاق سواری کا ذکر کیا گیا ، جیسے خنزیر غذائی مقصد کے لئے استعمال ہوتا تھا ،اس لئے قرآن نے اس کی حرمت کا ذکر کرتے ہوئے صرف گوشت کا ذکر کیا، دوسری چیزوں کا نہیں ، (سورہ بقرہ)
پس اس کا یہ مطلب نہیں کہ گوشت کے سوا خنزیر کے دوسرے اجزاء حلال سمجھے جائیں ۔
جہاں تک خالد بن ولید رضی اللہ عنہ والی روایت ہے تو محدثین عام طور پر اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں ۔ اس لئے صحیح یہ ہے کہ امام صاحب نے آلئہ جہاد کی وجہ سے گھوڑے کا گوشت مکروہ قرار دیا ہے ، اگر غذا کے طور پر اس کا استعمال عام ہو جاتا تو وسائل جہاد میں قلت پیدا ہو جاتی ۔ اور یہ بات غالبا کراہت تحریمی ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ ہاں اس سے کراہت تنزیہی ثابت ہوتی ہے ۔ اسی لیے صحیح یہی ہے کہ گھوڑے کا گوشت مکروہ تنزیہی ہے ۔ چنانچہ خود امام ابوحنیفہ رح سے اس بارے میں جو الفاظ منقول ہیں وہ یہ ہیں ؛
رخص بعض العلماء فی لحم الخیل وانا لا یعجبنی اکلہ ،،
ان الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی اس کو مکروہ تنزیہی سمجھتے تھے ۔ طحطاوی نے اس کو ظاہر روایت اور صحیح قرار دیا ہے اور یہ بھی آتا ہے کہ حضرت امام صاحب نے تحریمی والے قول سے وفات سے پہلے رجوع کرلیا تھا۔ (ملخص و مستفاد از قاموس الفقہ جلد دوم صفحہ 392)
💥گھوڑے کی قربانی کیوں جائز نہیں؟💥
علماء کرام لکھتے ہیں: قربانی کے جانوروں کی تعیین قرآن و سنت سے ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ الْأَنْعَـٰمِ
’’ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کا طریقہ مقرر کیا تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو ہم نے ان کو دیے ہیں، یعنی چوپایوں میں سے۔
(سورہ حج: 34)
بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ سے مراد فقہاء و مفسرین کے نزدیک
اونٹ، گائے، بیل اور بھینس، بکری، بکرا، دنبہ اور بھیڑ ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے گھوڑے کی قربانی ثابت ہی نہیں اگر گھوڑے کی قربانی جائز ہوتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضرور کرتے، جب کہ وہ زمانہ فقر و محتاجی کا بھی تھا۔
گھوڑا نہ تو "بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ” میں داخل ہے، نہ اس کی قربانی کا تذکرہ شریعت میں کہیں آیا ہے۔
گھوڑا جنگی سواری، زینت، اور مال و دولت کی علامت کے طور پر ذکر ہوا ہے، نہ کہ قربانی کے طور پر، ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَ زِينَةً
’’اور گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو (اللہ نے) سواری کے لیے اور زینت کے لیے پیدا فرمایا۔‘‘ (سورہ النحل: 8)
ائمہ کرام کے اقوال:
1. امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک گھوڑے کی قربانی جائز نہیں۔
2. فتاویٰ عالمگیری میں ہے
لا یجوز الأضحیۃ بالخیلِ ولا بالحمیر والبغال۔
"گھوڑے، گدھے اور خچر کی قربانی جائز نہیں۔”
(الفتاویٰ الهندیۃ، ج 5، ص 295)
یاد رکھیں
گھوڑے کا گوشت فی نفسہٖ حلال ہے۔ جن علاقوں میں گھوڑے کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان علاقوں میں ہرگز گھوڑے کا گوشت نہ کھایا جائے اور نہ کھلایا جائے کہ اس سے فتنہ اور انتشار امت کا خدشہ ہے، مگر گھوڑا قربانی کے مخصوص جانوروں میں شامل نہیں، اس لیے اس کی قربانی ناجائز ہے۔
قربانی ایک توقیفی (عبادی) عمل ہے، جس میں صرف وہی جانور شامل کیے جا سکتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقرر فرمایا ہو اور وہ بھیمۃ الانعام ہیں، گھوڑا اس قسم کے جانوروں میں ہر گز شامل نہیں ہے۔
نوٹ / گھوڑے کی زکوٰۃ ،مال غنیمت میں گھوڑے کا حصہ گدھے سے اختلاط یہ سب فقہی مسئلے ہیں، نیز حیوانات میں گھوڑے کی خصوصیات یہ سب، تفصیلات کی وجہ سے ہم حذف کرتے ہیں ۔
Comments are closed.