فلسطین: قبضہ اور مزاحمت

 

مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی کی تازہ تصنیف استعماری قوتوں کے خلاف مزاحمت اور استقلال کا حوصلہ فراہم کرتی ہے

 

از: نور اللہ جاوید، کولکاتا

 

"فلسطین” اور "غزہ” استعماریت کی تباہی کاری ، ہولناکی کا نکتہ عروج ہے، استعماریت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ اور عالمی طاقتوں کے مکر وفریب ، بے ضمیری اور عیاری کا کھلا ثبوت بھی ہے۔’ہولوکاسٹ‘کے مجرمین اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کیلئے گزشتہ 75برسوں سےاسرائیلی یہودیوں کو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔فلسطین نے مغرب کی انسانیت ، جمہوریت کا پردہ چاک کردیا ہے۔اس کے کھوکھلے نعرے بے نقاب ہوچکے ہیں۔اسرائیل کے ہرایک جرم میں امریکہ اور مغرب شریک اور برابر کا مجرم ہے۔7دہائیوں سے جاری سفاکیت فلسطینیوں کے عزم و حوصلے کے سامنے مکمل طور پر پست ہوچکے ہیں ۔حماس اور اس رفقائے کار عز م و حوصلہ کا دوسرا نام ہے۔فلسطین کے وجود کو ختم کرنے کی عالمی طاقتوں کی تمام سازشیں نہ صفر بے نقاب ہوچکی بلکہ ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کی آڑ میں مسئلہ فلسطین ، غزہ کی آزادی اور قبلہ اول کے بقا کے ایشو ہمیشہ ہمیش کیلئے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔مگر حماس کے بہادر غازیوں او ر شہیدوں نے اپنے گہرے اور تازے لہوؤں سے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ ہمیش کیلئے زندہ کردیا ہے اوردنیا کوباخبر کردیا ہے کہ اس کے حل کے بغیر امن کا قیام نہیں ہوسکتا ہے۔جبر و سفاکیت کی تمام حدیں پار کرنے کے باوجود اسرائیل ایک شکست خوردہ ملک بنتا جارہا ہے۔اب مغرب بھی اس کے ساتھ کھڑے ہونے میں شرمندگی محسوس کرنے لگا ہے۔امریکی عوام اور اشرافیہ کی ضمیر کے بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں ۔’’المیہ فلسطین‘‘ صرف سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کا موضوع نہیں ہے۔فلسطین اب انسانیت کا مسئلہ ہے اور ترقی یافتہ دنیا کیلئے’’ المیہ فلسطین ‘‘بدنما داغ بن گیا ہے ۔یہ المیہ دوبار نہیں دہرایا جائے اس کیلئے ضروری ہے کہ ’’المیہ فلسطین‘‘ کو علم و فن کے ہرایک شعبہ کا حصہ اور لاشعور کے شعور میں پیوست کردیا جائے۔

 

زندہ قومیں اپنے اوپر بیتنے والے المیوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرتی ہیں ۔بلکہ المیوں کے ذکر ، ماضی کے تلخ تجربات اور یادوں کے سہارے شاندار مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی اس عز م کو بھی دہراتی ہیں کہ ’’اس المیے کو دوبارہ دہرانے نہیں دیا جائے گا‘‘ (Never Again )یہ اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب المیہ ادب ، شاعری، فکشن ، نان فکشن ، تاریخ اور علوم سیاسیات کا موضوع بنادیا جائے۔بلاشبہ کئی عرب شعرا نے المیہ فلسطین کواپنے ادب کا موضوع بنایا ہے۔مشہور فلسطینی شاعر محموددرویش کی شاعری میں مسئلہ فلسطین اور ہجرت کا کرب ابھر کر سامنے آتا ہے اور وہ جس طرح منظر کشی کرتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔فلسطینی شاعر سمیع القاسم کی مشہور زمانہ نظم جسے اردو کے مشہور شاعر امجد الاسلام امجد نے "ہاں چلے حلقہ زنجیر کی بات” پڑھنے کے قابل ہے۔اردو ززبان میں سب سے پہلے علامہ اقبال نے اپن شاعری میں فلسطین کا ذکر کیا۔گرچہ اس وقت تک اسرائیل معرض وجود میں نہیں آیا تھا، مگر فلسطین کو چاک در چاک کی سازش رچی جاچکی تھی اور یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی جانے لگی تھی "یہودیوں کا ارض فلسطین پر حق ہے”۔اس کے بعد ہی اقبال نے فلسطین اور ارض مقدس کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا’ضرب کلیم‘ میں مشہور شعر ہے۔

 

ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

 

دوسرا مشہور شعر ہے:

 

جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل

تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار

 

علامہ کے بعد فیض احمد فیض اردو کے وہ مشہور شاعر ہیں جنہوں نے فلسطین پر نظم لکھی اور فلسطینی کرب کو اجاگر کیا ۔فیض احمد فیض کی مشہورزمانہ نظم "ہم دیکھیں گے” جو آج کل ہر انقلابی مجلسوس میں پڑھا جاتا ہے۔ دراصل اس نظم کا عنوان فیض احمد فیض نے پہلے "فلسطینی جہاد” رکھا تھا۔اردو میں فلسطین اور ارض مقدس کے خلاف مغرب کی سازش کو شاعری کا موضوع بنانے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔2024میں اردو کی مشہور شاعرہ ، مصنفہ اور ناول نگار سلمی اعوان کی کتاب "لہورنگ فلسطین” منظر عام پر آئی ۔یہ کتاب اُردو اَدب میں اپنی نوعیت کا پہلا عظیم ناول ہے جس میں فلسطین کی تاریخ بھی ہے، عرب موسیقی کی دُھنیں بھی ہیں، محبت کی داستانیں بھی اور وہ سازشیں بھی جو یہودی ریاست کے قیام کے سلسلے میں عرصۂ دراز سے ہوتی آئی ہیں جن سے فلسطین ایک آتش کدے میں تبدیل ہو گیا ۔ فکشن اور شاعری میں مزاحمت اور بلند آہنگی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ تلخیص، استعارے اورا شاروں میں زیادہ باتیں ہوتی ہیں اور موضوع میں تشنگی باقی رہ جاتی ہے ۔معروضیت ، حقائق پر دلائل اور جانچ و پرکھ نہیں ہوتی ہے؛ اس لئے المیہ فلسطین کو سمجھنے کیلئے تاریخ اور سیاسیات کے موضوعات کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے۔

 

حالیہ برسوں میں اردو زبان میں مسئلہ فلسطین اور اس کی تاریخ پر کئی کتابیں آئی ہیں ۔اس فہرست میں دارالعلوم دیوبند کے نوجوان فاضل خورشید عالم داؤدقاسمی کی تازہ تصنیف "فلسطین : قبضہ اور مزاحمت” شامل ہے ۔خورشید عالم داؤد قاسمی افریقی ملک زامبیا کے مون ریز ٹرسٹ اسکول میں اسلامی علوم کی ترویح و ترقی جیسے عظیم خدمات کو انجام دے رہے ہیں۔ تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کو بھی انہوں اپنا مشغلہ بنارکھا ہے۔بھارت کے اردو اخبارات میں وہ تسلسل کے ساتھ کالم اور مضامین لکھتے ہیں اور اردو حلقے میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا بھی جاتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ان کے قلم میں پختگی ، فکرمیں بلندی اور مشاہدہ و تجربات میں گہرائی آتی جارہی ہے۔

 

خورشید عالم داؤد قاسمی نے اپنی اس کتاب میں فلسطین کی تاریخی حقیقت ، عالمی استعمار کی عیاری و مکاری کا ذکر کرتے ہوئے ارض مقدس کے ٹکرے ٹکرےکرنے کی سازشوں کاذکر کرتے ہوئےصہیونی ریاست کے قیام پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے اس بیانیہ کی زور دار انداز میں تردید بھی کی ہے کہ ارض مقدس پر یہودیوں کا حق ہے۔ انہوں نے تاریخی حقائق کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ ارض مقدس سے مسلمانوں کا رشتہ نہ صرف جغرافیائی ہے بلکہ مذہبی ہے۔بیت مقدس کی شرعی حیثیت ، اسلامی اہمیت پر انہوں نے تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ اس شہر زیتون کے ہرحصے سے مسلمانوں کی شاندار تاریخ وابستہ ہے۔

 

خورشید عالم داؤد قاسمی نے 2009سے لے کر 2024کے درمیان اسرائیلی جارحیت ، طوفان الاقصیٰ ، ابراہمی معاہدہ کی آڑمیں مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ ہمیش کیلئے دفنانے ، عرب حکمرانوں کی بے حسی ، بے غیرتی اور خود غرضیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔مغرب اور امریکہ جوحقوق انسانی کا سب سے بڑا چمپئن بنتا ہے اور وہ اس کے نام پر آزاد قوموں کی زندگی میں دخل اندازی کا جواز پیدا کرتا ہے۔خورشید عالم قاسمی نے مغرب کی عیاری اور فریب کاری کا پردہ چاک کرتے ہوئے سوالات کھڑے کئےہیں، ارض مقدس پر اسرائیلی بربریت اور غزہ کے بے قصور نوجوانوں اور بچوں پر ہولناک بم برسائے جانے پر آخر مغرب خاموش کیوں ہے۔ حقوق انسانی، انسانی اقدار کی یادیں یہاں کیوں نہیں آتی ہے۔گزشتہ 7دہائیوں کے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں وہ اس نتیجے میں پہنچتے ہیں مسئلہ فلسطین مذاکرات و مکالمات سے حل نہیں ہونے والے ہیں ۔مزاحمت ہی واحد راستہ ہے اور اس کے ذریعہ ہی فلسطین کی آزادی مل سکتی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ "اس قضیہ کا حل صرف مجاہدانہ جوش و خروش اور طاقت و قوت کے استعمال کا جذبہ صادق ہے۔یہ اس لئے حریف صرف اور صرف یہی ز بان ہے سمجھتا ہے۔”

انہوں نے یہ سطر اس دور میں لکھی ہے کہ جب عقل مندوں نے ’ حماس کے 7اکتوبر 2023میں اسرائیل میں شب خون مارا اور اسرائیل کے خفیہ نظام اور سیکورٹی انتظامات کی پول کھولنے والے اقدامات کو بے وقوفی اور خودکشی سے تعبیر کیا تھا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ حماس نے طوفان الاقصی ٰ کے ذریعہ اس تصور کو ہمیشہ ہمیش کیلئے ختم کردیاکہ اسرائیل ناقابل تسخیر قوت ہے۔حماس کی اس کارروائی کی اہل غزہ بڑی قیمت چکارہے ہیں ۔غزہ مکمل طور پر تباہ و برباد ہوچکا ہے۔70ہزار سے زائد افراد شہادت کا جام نوش کرلیا ہے۔مگر دوسری طرف غزہ کے عوام ہیں جو اپنی سرزمین کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔غزہ کے نونہالوں کے بلندعزائم اور نوجوانوں کی بلند حوصلگی کے سامنے اسرائیل کی حالت پاگل کتے کی طرح ہوگئی ہے۔سفاکیت کا دلدادہ نیتن یاہوکے خلاف اس کی اپنی عوام سڑکوں پر ہے۔اسرائیل کے ہمدرد ممالک پیچھے ہٹنے لگے ہیں ۔اسرائیل کے سابق وزیر دفاع یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اسرائیل اس جنگ کا جواز کھوچکا ہے۔عرب ممالک کے دانشوروں نے حماس سے دوری بنالی اور مشورہ دیا جانے لگا کہ وہ اسرائیل کے سامنے خودسپردگی کردے ۔مگر تاریخ نے ثابت کردیا کہ حماس کی کارروائی اور اہل غزہ کا عزم و استقلال مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ ہمیش کیلئے زندہ کردیا ہے۔اس کے بغیر دنیا ترقی امن یافتہ نہیں ہوسکتی ہے۔جذبہ ایمان اور نظریاتی پختگی شہادتوں سے ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ بے عملی اور کوتاہیوں سے مرتی ہے۔اہل غزہ سراپا عزم، جہد مسلسل کی تصویر اور استعمار کے خلاف مزاحمت کی علامت ہیں۔اس اعتبار سے نوجوان فاضل مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی حق بجانب ہے اس قضیہ کا حل صرف مجاہدانہ جوش و خروش اور طاقت و قوت کے استعمال کا جذبہ صادق ہے۔

 

یہ کتاب تاریخ کے زمرے میں آئے گی یا نہیں یہ موضوع بحث ہے مگر یہ بات طے ہے کہ جب مستقبل میں کوئی مورخ حماس کی مزاحمت اور اسرائیلی بربریت اور عالمی طاقتوں کی مجرمانہ چشم پوشی پر پروفائلنگ کرنے کا ارادہ کرے گا، تو برادرم خورشید عالم قاسمی کی یہ کتاب ان کیلئے حوالے کے طور پر ضرور کام آئے گی۔مزاحمت کی یاد دلانے والی کتابوں کا ضرور مطالعہ کیا جانا چاہیے کہ تاکہ المیوں سے نسلیں باخبر رہے اور المیوں کی یادیں ہی بہتر مستقبل کی تعمیر کا حوصلہ دیتی ہے۔

 

اس کتاب کو مرکز میڈیا اینڈ پبلی کیشنز پرائیوٹ لمیٹڈ، ممبئی نے شائع کی ہے۔ طباعت کے اعتبار سے بھی جاذب نظرہے۔ کتاب 313 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس شاندار کتاب کی تصنیف کیلئے مولانا قاسمی دل کی گہرائیوں سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

 

Comments are closed.