قیادت ورہنمائی وقت کی ضرورت

 

محمد رضاء اللہ قاسمی

موبائل نمبر:9471905151

قیادت کیوں ضروری؟

انسان اس دنیا میں ایک معزز وقابل احترام مخلوق ہے۔اللہ نے اس کے اندر جو خوبیاں رکھی ہیں،ان میں ایک اہم خوبی”احساس ذمہ داری“ہے،جس سے وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ نے اس کو اپنی ذات کا بھی نگراں بنایا ہے اوراپنے قریبی ماتحتوں کا بھی نگراں مقرر کیا ہے۔اس اہم انسانی صفت کو اُجاگر کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان والوں کو خطاب کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی ترغیب دی ہے اوراس کا حکم دیتے ہوئے فرمایاہے:”تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اورہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔امام(امیر)نگہبان ہے اوراپنی رعایا(قوم)کے بارے میں جواب دہ ہے۔مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اوروہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔عورت اپنے شوہر کے گھر اوران کے بچوں کی نگہبان ہے اوراس کے بارے میں جواب دہ ہے اورغلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اوراس کے بارے میں جواب دہ ہے۔اس طرح تم میں سے ہرشخص نگراں ہے اوراس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔(بخاری، حدیث نمبر:7138)

یہ حدیث انسانوں کی ذمہ داریوں کو واضح کررہی ہے اورہر شخص کی اہمیت بتارہی ہے کہ اس کو اپنے اپنے دائرہ میں پوری ذمہ داری ادا کرنی ہے،اس ذمہ داری میں ہدایت ورہنمائی بھی ہے؛اس لیے ہر شخص اپنے گھر کے اورکام کے دائرہ میں ذمہ دارورہنما ہے۔گھر کے افراد کی رہنمائی کس طرح کی جائے،اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کے اخلاق وکردار کو بہتر بنانے اورتربیت کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:”کسی والد نے اپنے بیٹے کو اچھا اخلاق سکھانے سے بہتر تحفہ نہیں دیا“۔(ترمذی، حدیث نمبر:1952)

ان اخلاق میں دیانت،امانت،سچائی،بہادری اورعبادت کرنے کی ترغیب بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:”اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو اورجب دس سال کے ہوجائیں اورنماز نہ پڑھیں تو ان کو تنبیہ کرو اوران کا بستر اپنے بستر سے الگ کردو“۔(ابوداؤد،حدیث نمبر:495)

گھروالوں کی اخلاقی تربیت اس طرح ہو کہ وہ صبح اٹھیں اورنماز پڑھیں،ان کو صحت اور مال کی حفاظت کی ترغیب بھی ہونی چاہیے اوریہ بتانا چاہیے کہ بری صحبت کے برے اثرات ہوتے ہیں۔فضول خرچی اورموجودہ دور کے لہو ولعب کے سامان جیسے موبائل وغیرہ جو اخلاق وکردار کو خراب کررہے ہیں،ان سے وہ بچیں۔گھر کے ماحول کو دینی،تعلیمی واخلاقی بناکر رکھنا اورگھر کے تمام لوگوں کو اس کی رہنمائی کرتے رہنے کی کوشش گھر کے سربراہ وقائد کی ذمہ داری ہے۔موجودہ حالات سے باخبر کرنا،نیک سیرت افراد کو تلاش کر ان کے ساتھ رہنا اوراولاد کا نکاح سادہ طریقہ پر کرنا بھی ذمہ داری ہے۔اگرگھر کے افراد کے درمیان سکون واطمینان سے صبر وشکر کے ساتھ رہنے کی عادت ہوجائے تو اس کے اچھے اثرات پوری زندگی پر پڑتے ہیں اوراگر گھر کے افراد کے ساتھ رہنے میں غیبت اورعیب جوئی سے پرہیزنہ ہو، گھریلو کاموں میں دلچسپی نہ ہواورایک دوسرے کی مدد کا جذبہ نہ ہو تو اس کے بُرے اثرات زندگی پر پڑتے ہیں؛اس لیے گھر کے افراد کی روزانہ نگہبانی اورتربیت ضروری ہے۔تربیت میں لااُبالی پن سے پرہیز اورفضول امور میں وقت برباد کرنے سے بچاؤکی بات ہونی چاہیے۔اس کا جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت ہے کہ گھر کے افراد جسمانی،یا اخلاقی طور پر کسی کمزوری کی طرف تو نہیں جارہے ہیں۔ نماز،زکوٰۃ اوررمضان کے روزے کی پابندی کرتے ہیں یا نہیں؟حج فرض ہے تو اس کو ادا کرنے کی طرف فکر ہونی چاہیے۔آپسی تعلقات میں محبت کی چاشنی برقرارہے یا نہیں؟ایک ساتھ کھانے کی عادت گھروں کو بہتر ماحول فراہم کرتی ہے؛اس لیے اس کی کوشش ہونی چاہیے اور گھریلو کاموں میں باہمی مشورہ کو فروغ دینا چاہیے۔خوبیوں کا اعتراف کیا جائے۔حوصلوں کو بڑھایا جائے۔غلطی کی اصلاح کی جائے اورآپس کی رنجشوں کو دور کرنے کی سعی ہو۔دینی وعصری تعلیم اوراعلیٰ تعلیم وصلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کریں۔

دینی اداروں کی قیادت:

قیادت ورہنمائی کا دوسرا میدان دینی ادارے ہیں۔دینی اورمذہبی ادارے کسی بھی معاشرے میں اخلاقی،روحانی اورسماجی تربیت کا مرکز ہوتے ہیں۔ان اداروں کی قیادت ورہنمائی حساس اورذمہ دارانہ کام ہے؛کیوں کہ یہ نہ صرف مذہبی عقائد کی حفاظت کرتی ہے؛بلکہ معاشرتی اقدار کو بھی مضبوط بناتی ہے۔دینی اورمذہبی قیادت کا کردار صرف مسجد،مدرسہ یا مکتب تک محدود نہیں؛بلکہ پورے معاشرے کو سنوارنے میں کلیدی کردار ہے،ایسی قیادت جو اخلاص،علم اوربصیرت کے ساتھ امت کی رہنمائی کرے،وہی کامیاب ہے۔

علم دین وہ روشنی ہے،جو انسان کو اللہ کی معرفت،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اورزندگی کے مقصد کی پہچان دیتی ہے۔دینی قیادت کے لیے محض ظاہری علم کافی نہیں؛بلکہ علم میں گہرائی،فہم اورحکمت ضروری ہے؛تاکہ وہ صحیح معنوں میں امت کی رہنمائی کرسکے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

”جو شخص بغیر علم کے شرعی مسئلہ بتائے تو وہ خود بھی گمراہ ہوا اوردوسروں کو بھی گمراہ کیا“۔(بخاری،حدیث نمبر:100)

ایک دوسری روایت میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:”جو شخص بغیر علم کے فتویٰ دے،اس پر زمین وآسمان کے فرشتے لعنت کرتے ہیں“۔(معجم ابن عساکر، حدیث نمبر:676)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کرام کو ہی اپنا اصلی وارث قراردیا ہے،ارشادفرمایاکہ]إن العلماء ورثۃ الأنبیاء[”علماء کرام انبیاء کرام کے حقیقی وارث ہیں“۔(ابن ماجہ،حدیژث نمبر:223)

علم دین میں مہارت کا مفہوم یہ ہے کہ قائد قرآن کی تفسیر،ترجمہ اوراس کے معانی کی گہری سمجھ رکھتا ہو۔صحیح احادیث کی پہچان،ان کا صحیح مفہوم اوران پر عمل کا فہم رکھتا ہو۔فقہ،اصول فقہ سے متعلق عبادات،معاملات،اخلاقیات اورسماجی اصولوں سے واقف ہو۔ان کے عقائد درست ہوں؛یعنی صحیح اسلامی عقیدہ کے جانکار ہو؛تاکہ گمراہیوں سے بچا جاسکے۔اسی کے ساتھ قائدنیک سیرت ہو۔علم میں مہارت اس لیے بھی ضروری ہے؛ تاکہ صحیح فتویٰ اورشرعی رہنمائی دینے،معاشرتی مسائل کا حل نکالنے،امت میں غلب فہمیوں کو دور کرنے،جدید چیلنجز کا جواب دینے اوراپنی ذات اورامت کی اصلاح کے لیے وافر مقدار میں ان کے اندر صلاحیت موجود ہو۔علم دین میں مہارت ایک دینی ادارہ کے قائدکی بنیادی ضرورت ہے،بغیر علم کے قیادت کرنا ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے میں لوگوں کو راستہ دکھانا،جو قائد علم،تقویٰ اوربصیرت کے ساتھ قیادت کرتا ہے،وہ امت کو کامیابی،سلامتی اوراللہ کی رضا کی طرف لے جاتا ہے۔

اگر دینی ادارہ کے قائد کو دینی علم کی گہری سمجھ نہ ہو تو وہ دین میں اپنی رائے داخل کرسکتا ہے،غلط فتویٰ دے سکتا ہے،یا مسائل کا حل شریعت کے مطابق نہیں کرسکتا،جس سے امت گمراہی میں جاسکتی ہے۔ناسمجھ قیادت غلط رسم ورواج کو دین کا حصہ سمجھ بیٹھتی ہے اوربدعات کو فروغ دے سکتی ہے،جس سے دین کی اصل روح متاثر ہوتی ہے۔جب قیادت کمزور،جاہل،یا غیر ذمہ دارہوتو نہ صرف ادارہ زوال کا شکار ہوتا ہے؛بلکہ لوگوں کا اعتماد بھی اٹھ جاتا ہے،نتیجتاً دین کی دعوت کمزور پڑتی ہے۔بعض اوقات علمی مہارت کی کمی کے باعث قائدین صرف ادارہ کو طاقت اوردولت کا ذریعہ سمجھتے ہیں،جس سے دیانت داری ختم اورخیانت یا بدعنوانی بڑھ سکتی ہے۔غیر مذہبی قائد اکثر مالی فائدہ،شہرت یا سیاسی اثر ورسوخ کے پیچھے ہوتا ہے اورادارہ کی سمت دین کی خدمت سے ہٹ کر دنیاوی فائدوں کی طرف مڑجاتی ہے۔ایسے اداروں میں علما، دعاۃ، مبلغین،مدرسین،کارکنان،ذمہ داران کی روش بدل جاتی ہے؛کیوں کہ غیر مذہبی قیادت کی علمی حیثیت نہیں ہوتی ہے اورفیصلے صرف انتظامی یا مالی بنیادوں پر کرنے لگتی ہے۔دینی ادارہ کے قائد کو جب دین کی اصل ضروریات کا علم نہ ہوتو وہ پالیسی اورفیصلے اس شعور کے بغیر بنائے گا،جو دین کی تبلیغ اورتربیت کے لیے اہم ہیں۔رفتہ رفتہ ادارے میں دین کی جگہ ظاہری رسمیں،مالی معاملات،یا بے مقصدر سرگرمیاں آجاتی ہیں،جس سے ادارہ اپنی اصل شناخت کھوبیٹھتا ہے اوردین کا نقصان ہوتا ہے۔اس طرح اگر دینی ادارہ میں غیرمذہبی (یعنی غیر عالم کی)قیادت قائم رہی تو مستقبل میں ادارہ دینی کاموں سے دورہوجائے گا،تعلیم وتربیت کی جگہ محض کاروباری اوررسمی سرگرمیاں رہ جائیں گی،دینی طبقے اس ادارہ سے دور ہوجائیں گے اوراداروں کا وقار واثر ورسوخ ختم ہوجائے گا۔

اگر کسی مذہبی ادارہ کا ذمہ دار غیر عالم شخص بن جائے توسب سے پہلا قدم یہ ہے کہ اس شخص کو براہ راست یا معتبر واسطے سے حکمت اورنرمی سے سمجھایا جائے کہ دینی ادارے کی خاص ذمہ داریاں کیا ہیں اوراس کا اصل مقصد کیا ہے۔ادارہ میں موجود دینی شخصیات کو مشاورت میں شامل کیا جائے اوراجتماعی طور پر اس شخص تک دین کی اہمیت اورادارہ کے مقاصد کی وضاحت پہنچائی جائے۔ادارہ میں ایسی پالیسیاں اورضوابط بنائے جائیں،جن میں دینی اصولوں کی پابندی لازمی ہو؛تاکہ کوئی بھی ذمہ دار شخص چاہے وہ خود دین پر عمل نہ کرتا ہو،ان اصولوں کے خلاف نہ جاسکے۔ایسے غیرمذہبی ذمہ دار کو کنٹرول کرنے کا ایک عملی راستہ یہ ہے کہ ادارہ کی مجلس شوریٰ یا بورڈ میں بااثر اورعلم والے دینی افراد کو شامل کیا جائے؛تاکہ فیصلوں میں دین کی آواز موجود رہے۔اگر حالات بہت خراب ہوں اورغیر مذہبی قیادت دین یا ادارہ کو نقصان پہنچارہی ہو تو مناسب اورپُرامن طریقے سے اس کی تبدیلی کوشش کی جاسکتی ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ فوری طور کوئی تبدیلی نہ آسکے،ایسے میں مایوس نہ ہوں،اپنی ذاتی سطح پر کام جاری رکھیں اوردیکھیں کہاں کہاں آپ دین کی خدمت جاری رکھ سکتے ہیں۔یادرکھیں! سخت رویہ،لڑائی یا بدتمیزی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔حکمت،نرمی،دعا اور اجتماعی مشورہ سب سے مؤثر راستے ہیں۔دینی اداروں میں صرف چہرے نہیں،نظام بھی مضبوط ہوناچاہیے۔

سماجی قیادت:

قیادت ورہنمائی کا تیسرا میدان سماج ہے؛اس لیے سب سے پہلے اپنے قرب وجوار اور پڑوسیوں کے دین وایمان اوراخلاق واعمال کو بہتر بنانے کی فکر ہو،ا ن کو تعلیم وتربیت، روزگار میں ترقی کرنے اورغربت وبیماری سے بچنے کے راستوں کی جانکاری دی جائے۔ خواتین اور نوجوانوں کے نکاح کرانے میں مدد ہو۔لوگوں کو وقتی ضرورت میں تعاون دیا جائے۔ ہمسائیگی کے حقوق بالخصوص خوشی وغمی کے موقع پر ادا کئے جائیں۔آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیے حوصلہ افزائی ہو۔سماج جب تک متحد رہتا ہے،ترقی کرتا ہے اورجب آپسی اختلافات ہوتے ہیں،جھگڑے بڑھتے ہیں،سودی کاروبار ہوتا ہے اورفواحش وگناہ کبیرہ بڑھتے ہیں تو اللہ کی نصرت اٹھ جاتی ہے اورآبادی کے لوگ تنزلی کا شکار ہوجاتے ہیں؛اس لیے سماج کے علماء وذمہ دار افراد کو چاہیے کہ وہ معاشرہ کو بری باتوں اورغلط عادتوں سے روکیں،ان کو خارجی وداخلی برائیوں سے بچائیں اورباہم اتحاد کو قائم رکھیں،حق والوں کا حق ادا کرائیں اورانصاف کو قائم کریں،باہمی رابطہ کو مضبوط کریں اورآپسی تعلقات کو درہم برہم کرنے والی عادتوں کو بڑھنے نہ دیں۔

اسی کے ساتھ معاشرہ کو بہتر بنانے کے لیے مقامی قیادت کو آگے بڑھانا چاہیے۔نوجوانوں کو اس کی فکر کرنی چاہیے کہ مقامی تعلیمی ادارے معیاری ہوں،وہاں سے طلبہ وطالبات تعلیم کے ساتھ اچھے اخلاق اور وسیع فکر وخیال کے حامل بن کر نکلیں،مقامی آبادی میں بہتر تعلیم کے لیے فکر مند ہو اورطلبہ کی موجودہ ضروریات کے مطابق مطالعہ گاہ(لائبریری)قائم کیا جائے،جس میں ان کی سہولت اور تعلیمی ضرورت کا نظم ہو۔نیز جہاں طلبہ یکسو ہوکر پڑھ سکیں۔جو طلبہ مقامی اسکول سے فارغ ہوجائیں،ان کی اعلیٰ تعلیم کے لیے رہنمائی،غربت ونادار طلبہ کے لیے سرکاری وغیرسرکاری اسکالرشپ کا نظم،سودی قرض سے حفاظت اوراچھے کالجوں میں داخلہ کرانے کی کوشش ہونی چاہیے۔

آبادی کے تناسب سے مدارس،اسکول،کالج قائم کرانے کی کوشش ہونی چاہیے،جہاں تعلیم وتربیت دونوں کا نظم ہو اورباصلاحیت افراد تیار ہوں،یہ ادارے پرائیویٹ اورسرکاری دونوں طرح کے ہوں۔سرکاری سطح پر تعلیمی اداروں کے لیے درخواستیں دینی چاہیے اورزبانی وعملی کوشش کرنی چاہیے۔اسی طرح ہمسائیگی کے حقوق ادا کرنے میں رشتہ دار وغیر رشتہ دار،ہم مذہب ودوسرے مذہب سب کو شامل کیا جائے۔سب کے لیے تعلیم،صحت،روزگار اورامن وسکون کے لیے کوشش ہواورفرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ اصول پر عمل ہو:”اپنے لیے جو پسند ہو،وہی دوسروں کے لیے پسند کریں“۔(بخاری،حدیث نمبر:13)

اس بارے میں عصبیت کو راہ نہ دیں اوروسعت ظرفی سے کام کریں۔خدمت خلق میں اپنا نفس وذات سامنے نہ ہو؛بلکہ جو بھی خدمت ہو وہ اللہ کے لیے ہو،اللہ کی رضا وخوشنودی ہی اصل مطلوب ہے اوراسی کے قبضہ میں سارے بندوں کے قلوب ہیں؛اس لیے اللہ کے بندوں سے محبت ہو،نفرت نہ ہو،ان کے کاموں اورضرورتوں کی تکمیل میں خوشی ہو،معاشرہ میں موجودہ مہنگائی،غربت اورمعاشی ناہمواری سے لوگوں میں تناؤ پیدا ہوتا ہے؛اس لیے تناؤ وذہنی افسردگی کو دور کرکے لوگوں کے چہروں پر ہنسی ومسکراہٹ لانا بڑی نیکی ہے۔

سماج میں حکومتی سطح پر بہت سارے منصوبے عوام کی فلاح کے لیے ہوتے ہیں؛اس لیے مقامی سطح پر ان منصوبوں سے عوام کو فائدہ پہونچانا اوراس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا بھی بڑی خدمت ہے؛اس لیے اسے بھی نیکی کا کام سمجھ کر انجام دینا چاہیے۔سماجی طور پر ایک طبقہ کمزور ہوتا ہے اوردوسرا مضبوط ہوتا ہے،کمزور طبقہ کی مدد اوردل جوئی کی زیادہ ضرورت ہے،ان کا انسان کی حیثیت سے احترام اورعزت اللہ کو پسند ہے۔ہمارے ملک میں مذہبی طور پر بھی اورغیرمذہب والے بھی کچھ ایسے لوگ ہیں،جو سماجی اورمعاشی طور پر نابرابری کے شکار ہیں،اس طبقہ کے ساتھ ہمدردی دنیاوی غرض کے بغیر،کسی سیاسی فائدہ کو سامنے رکھے بغیر ہونی چاہیے،ایسا کرنے والے یقینا اللہ جل شانہ کی نصرت ومدد کے مستحق ہوں گے۔

اسی میں وہ طبقہ بھی آتا ہے،جو والدین کے سایہ اٹھ جانے کی وجہ سے یتیم ہوتا ہے،یا ایسی خواتین ہیں جو شوہر کی وفات کے بعد بیوہ ہوگئی ہیں،ان کے ساتھ ہمدردی،شفقت ہماری ذمہ داری ہے۔

ہمارے ملک میں مختلف مذاہب کے افراد بستے ہیں اوربہت زیادہ ان کے عبادت خانے، مساجد،منادر،گردوارے وغیرہ ہیں،ان جگہوں پر مذاہب کے اہم افراد علماء، مشائخ، پروہت، گرو وغیرہ رہتے ہیں،ان تمام دھرم گروؤں کا احترام اوران کی مذہبی کتابوں اورعبادت گاہوں کی بے توقیری سے احتراز ضروری ہے۔یہ احترام عملی طور پر اورمحسوس ہونا چاہیے؛تاکہ ان کے اندر غلط فہمی نہ ہو اوران کے ماننے والوں میں غلط پیغام نہ جائے۔معاشرہ کی پاکیزگی کے لیے ضروری ہے کہ فحش وبرے کاموں اورگندی خصلتوں کی اشاعت وپروپیگنڈہ نہ ہو؛اس لیے بے حیائی کو روکیں اوراس کا چرچہ بھی نہ ہونے دیں۔اللہ جل شانہ نے فحاشی کو حرام قراردیا ہے اوراس کے قریب جانے اوراس کا تذکرہ کرنے سے بھی منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:

(ترجمہ)”کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بے حیائی کے کاموں کو حرام قراردیا ہے،چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی۔نیز ہر قسم کے گناہ کو اورناحق کسی سے زیادتی کرنے کو اوراس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک مانو، جس کے بارے میں اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے،نیز اس بات کو کہ تم اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاؤ،جن کی حقیقت کا تمہیں ذرا بھی علم نہیں ہے“۔(سورہئ اعراف:33)

خود بھی بدگمانی سے بچنا اورسماج کے افراد کو بھی بدگمانی سے بچانا ضروری ہے۔بدگمانی بے علمی وکم علمی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔گھرہو یا سماج،ہم مذہب ہوں یا غیر مذہب،رشتہ دار ہوں یا دوست واحباب بدگمانی وکم علمی تعلقات کو خراب کردیتی ہے۔آپس میں لڑائی کرادیتی ہے؛ اس لیے آپس میں ملاقات اوربات چیت ہوتے رہنی چاہیے۔معاملات میں شفافیت اور کھلاپن ہونا چاہیے۔ہمارے ملک ہندوستان میں مختلف مذاہب کے مابین بدگمانیوں کو جنم دینے والے جوموضوعات ہیں،ان پر کھل کر بات چیت ہونی چاہیے۔اگر کوئی تاریخی غلطی ہے تو ان غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے اورآگے بڑھنا چاہیے۔انسانیت کو آگے رکھنا ہی تمام بدگمانیوں کو ختم کرنا ہے۔

سماج میں برابر مختلف امور پر باہم مشورہ ہونا چاہیے۔یہ مشورہ خیر کے کاموں اورانسانیت کی خدمت کے موضوعات پر ہونا چاہیے۔مشورہ کو قوم کا مزاج بنانا چاہیے اورہرایک موضوع پر مشورہ کرنا چاہیے؛تاکہ صحیح فیصلہ تک پہونچ سکیں؛کیوں کہ رشدوہدایت اورخیروصلاح اس سے وابستہ ہے،جب تک مشورہ کا نظام باقی رہے گا، فساد وضلالت اورگمراہی راہ نہیں پاسکے گا،امن وسکون کا ماحول رہے گا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:”مشورہ عین ہدایت ہے اورجو شخص اپنی رائے سے ہی خوش ہوگیا،وہ خطرات سے دوچار ہوا“۔(مدخل:4/28)

ساتھ ہی مشورہ ہمیشہ ایسے افراد کے ساتھ ہو،جو اس کے جانکار وماہر ہو اورمتعلقہ معاملے میں پوری بصریت اورتجربہ رکھتا ہو۔رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:”عقل مندوں سے مشورہ کرو،کامیابی ملے گی اوران کی مخالفت نہ کرو، ورنہ شرمندگی ہوگی“۔(مسند الشھاب القضاعی،حدیث نمبر:722)

زمین وجائیداد کی صحیح تقسیم نہ ہونے سے باہمی ناراضگی بڑھتی ہے اورتعلقات خراب ہوتے ہیں؛اس لیے وراثت کی تقسیم ہو،یا دیگر معاملات کے ذریعہ حاصل شدہ مالیت میں تقسیم کا مسئلہ ہے۔ایمان ودیانت کے ساتھ تقسیم ہی مستقبل کو بہتر کرنے کا صحیح ذریعہ ہے؛اس لیے ان کو فوری طور پر بروئے کار لانا چاہیے اورہرحال میں صحت ودیانت کے ساتھ معاملہ کو حل کرنا چاہیے۔تاخیر یا ٹال مٹول سے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔

غرض یہ کہ قیادت کی ذمہ داری میں دینی،مالی،سماجی،جانی اورعزت وآبرو کی حفاظت وغیرہ تمام امور ہوتے ہیں؛ اس لیے سارے ہی امور پر نگاہ ہونی چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام پر عمل کی توفیق عطافرمائے۔(آمین)

 

Comments are closed.