ذی الحجہ میں بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم اور اس کی حکمت

 

مولانا محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ یوپی

رابطہ نمبر 9506600725

 

بعض اہل تعلق نے یہ سوال کیا ہے کہ ابھی تک ہم لوگ یہی سنتے، پڑھتے اور دیکھتے آئے ہیں کہ ذی الحجہ کا جب چاند 🌙 نظر آجائے تو قربانی کرنے والے کو اپنا بال اور ناخن نہیں کاٹنا چاہیے اور بہتر یہ ہے کہ جو قربانی نہیں کر رہا ہے وہ بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت میں ایسا کرے ، اگر چہ یہ عمل مستحب ہے ۔

لیکن اس وقت بہت سے علماء اور اہل علم اس کو مباح کہتے ہیں کہ ایسا کرے یا نہ کرے دونوں برابر ہے ۔ اس چیز نے کنفیوژن پیدا کردیا ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ پہلے یہ باتیں کیوں نہیں بتائی گئیں ، نیز انہوں نے اس عمل کی حکمت و مصلحت کے بارے میں بھی سوال کیا ہے ، ذیل کی تحریر اسی پس منظر میں ترتیب دی گئی ہے ، جس میں اہل علم کی افادات و تحقیقات سے فائدہ اٹھایا گیا ہے ۔ اس تحریر کے پڑھنے کے بعد ساری تفصیلات سامنے آجائیں گی اور بہت حد تک اشکالات دور ہو جائیں گے ۔ مضمون طویل ضرور ہے ،لیکن افادیت سے خالی نہیں ہے ۔

م۔ ق۔ ن ۔

 

ذو الحجه كے شروع كے دس دنوں میں ہميشه يه مسئلہ یہ زیرِ بحث آتا ہے کہ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہے، کیا اس کے لیے ان دس دنوں میں ناخن اور بال کاٹنا جائز ہے یا نہیں؟ يه بات شروع سے مختلف فيه رہى ہے۔

امام ابو حنیفہ، امام مالكـ، امام شافعى (ايكـ روايت كے مطابق) اور بعض دیگر فقہاء رحمهم الله تعالى کے نزدیک یہ عمل مباح ہے، یعنی ان دنوں میں ناخن یا بال کاٹنا اور نه كاٹنا دونوں برابر ہيں۔

امام احمد بن حنبل اور بعض دیگر علماء کے نزدیک، جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، اس کے لئے بال اور ناخن نہ کاٹنا واجب ہے، اور اگر وہ ایسا کرے تو گناہگار ہوگا۔

ان كى دليل حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا كى حديث ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: "جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔” (صحیح مسلم)۔

پہلى رائے كى دليل حضرت عائشه رضي الله عنه كى حديث ہے جو صحيحين وغيره ميں متعدد سندوں اور مختلف الفاظ سے مروى ہے قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهْدِي مِنَ الْمَدِينَةِ، فَأَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِهِ، ثُمَّ لَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُهُ الْمُحْرِمُ. يعنى رسول اللہ صلى الله عليه وسلم مدینہ منورہ سے قربانی کا جانور بھیجتے، تو میں ان جانوروں کے گلے میں ہدیہ (قربانی) کی علامت کے طور پر قلادے (ہار) گوندھتی، پھر آپ صلى الله عليه وسلم (ایسا کرنے کے باوجود) ان چیزوں سے اجتناب نہیں فرماتے تھے جن سے مُحرِم (احرام باندھنے والا) اجتناب کرتا ہے۔”

ان حضرات كا كہنا ہے كه حضرت عائشه رضي الله عنہا كى حديث زياده مضبوط اور زياده صحيح ہے، امام طحاوى شرح معانى الآثار ميں فرماتے ہيں: "مجيء حديث عائشة رضي الله عنها أحسن من مجيء حديث ‌أم ‌سلمة رضي الله عنها؛ لأنه جاء مجيئا متواترا، وحديث ‌أم ‌سلمة رضي الله عنها، فلم يجئ كذلك۔

دوسرے كچهـ حفاظ حديث كى رائے ہے كه حضرت ام سلمه كى حديث ان كى رائے ہے، يه نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كا ارشاد نہيں، يه بات امام طحاوى نے شرح معانى الآثار ميں كہى ہے "فقيل: إنه موقوف على أم سلمة رضي الله عنها”، اور يہى بات امام دارقطنى نے بهى فرمائى ہے: "الصحيح عندي أنه موقوف” (البدر المنير لابن الملقن(9/ 276)، حافظ ابن عبد البر نے اس حديث كو ضعيف قرار ديا ہے، ( التمهيد لابن عبد البر(11/ 78 ۔

امام طحاوى فرماتے ہيں كه احرام كے دوران جماع كا حكم شديد تر ہے، اگر قربانى كے لئے جماع كى ممانعت نہيں تو كسى اور چيز كى ممانعت كيسے ہوگى؟ پهر امام طحاوى فرماتے ہيں: "وهو قول أبي حنيفة، وأبي يوسف، ومحمد، رحمة الله عليهم أجمعين، وقد روي ذلك أيضا عن جماعة من المتقدمين”۔

بہر حال مستند حدیث میں

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا ارادہ ہو تو وہ بال، ناخن یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے ، جب تک قر بانی نہ دے دے. ‘‘ ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوتے ہی ان چیزوں سے رک جائے۔

اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے ، نیز بلا ضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے، اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔

البتہ بعض اکابر فرماتے ہیں کہ قربانی نہ کرنے والے بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرکے عام لوگوں کی قربانی کے بعد ناخن اور بال وغیرہ کاٹیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ بھی ثواب سے محرو م نہیں ہوں گے۔ نیز اس میں یہ ملحوظ رہے کہ اگر زیر ناف بال اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو ایسی صورت میں ان کی صفائی کرنا ضروری ہے۔

 

مذکورہ حکم کی حکمتیں:

 

اور اس کی دو حکمتیں علماء و محققین سے منقول ہیں:

 

1۔ پہلی حکمت:

بعض علماء نے اس کی حکمت یہ ذکر کی ہے کہ اس کی ممانعت حجاجِ بیت اللہ سے مشابہت کے لیے ہے کہ ان کے لیے حج کے ایام میں بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا منع ہوتا ہے، لہٰذا جو لوگ حج پر نہ جاسکے اور قربانی کررہے ہوں تو وہ بھی حجاج کرام کی کچھ مشابہت اختیار کرلیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس رحمت کا کچھ حصہ انہیں بھی عطا فرمادیں گے جو حجاج بیت اللہ پر نازل ہوتی ہیں۔ اور انہی کے ضمن میں قربانی نہ کرنے والے بھی مشابہت اختیار کرلیں تو وہ بھی رحمت کے حق دار بن جائیں۔

 

یہ توجیہ ہمارے بعض اکابر علماء سے منقول ہے، خصوصاً جو بیت اللہ اور شعائرِ حج کا عاشقانہ ذوق رکھتے ہیں، اور یہ توجیہ اپنی جگہ درست بھی ہے۔ لیکن محققین علماء کرام اور شراح حدیث نے اس توجیہ پر کلام کیاہے، اس لیے کہ اگر مقصود حجاج کی مشابہت ہو تو حجاج کرام کے لیے تو سلا ہوا لباس اور خوشبو کا استعمال وغیرہ بھی ممنوع ہے، اگر مشابہت مقصود ہوتی تو تمام احکام میں ہوتی۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ مشابہت کے لیے تمام امور میں مشابہت ضروری نہیں ہوتی، رحمتِ خداوندی متوجہ کرنے کے لیے ادنیٰ مناسبت بھی کافی ہے۔ لیکن اس پر پھر سوال ہوتا ہے کہ اگر بعض امور میں ہی مشابہت کافی تھی تو بھی بال، ناخن اور جسم کی کھال وغیرہ کاٹنے کی ممانعت میں ہی کیوں مشابہت اختیار کی گئی؟ احرام کی چادروں اور خوشبو کی پابندی میں بھی مشابہت ہوسکتی تھی! اس لیے مذکورہ حکم کی ایک اور حکمت بیان کی گئی ہے، جو تحقیق کے زیادہ قریب اور راجح ہے، وہ درج ذیل ہے:

2۔ دوسری حکمت:

اس حکمت کو سمجھنے سے پہلے قربانی کی حقیقت اور فلسفہ سمجھنا ضروری ہے۔

 

قربانی کا فلسفہ:

درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جاندار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔

 

یکم ذی الحجہ سے بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کی راجح حکمت:

اب جب کہ قربانی کا مقصد معلوم اور مستحضر ہوگا تو گویا قربانی کرنے والے نے اپنے آپ کو گناہوں کی وجہ سے عذاب کا مستحق سمجھا کہ میں اس قابل ہوں کہ ہلاک ہوجاؤں اور میری جان خدا کے لیے قربان ہوجائے، لیکن شریعت نے جان کے فدیہ میں جانور کی قربانی مقرر کردی، سو یہ جانور انسان کی نیابت میں قربان ہورہاہے، تو قربانی کے جانور کا ہر جزو قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جز کا بدلہ ہے ۔ لہٰذا جس وقت جانور قربانی کے لیے خریدا جائے یا قربانی کے لیے خاص کیا جائے اس وقت انسانی جسم جس حالت میں ہو، مختص کردہ جانور اس انسانی جسم کے قائم مقام ہوجائے گا، اور جانور قربانی کے لیے خاص کرنے کے بعد جسم کا کوئی جز (نال، ناخن، کھال وغیرہ) کاٹ کر کم کردیا گیا تو گویا مکمل انسانی جسم کے مقابلے میں جانور کی قربانی نہیں ہوگی، جب کہ جانور انسانی جان کا فدیہ قرار پاچکاتھا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ قربانی اور نزولِ رحمت کے وقت انسانی جسم کا کوئی عضو و جزو کم ہو کر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فیضان الٰہی کی برکات سے محروم نہ رہے،تاکہ اس کو مکمل فضیلت حاصل ہو اور وہ مکمل طور پر گناہوں سے پاک ہو ، اس لیے آں حضرتﷺنے مذکور حکم دیا ہے ۔

 

یکم ذی الحجہ مقرر کرنے کی وجہ:

اس کے لیے قریب ترین کسی زمانے کی تعیین کی ضرورت تھی، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ہر شخص جب اپنا جانور خریدے یا قربانی کے لیے خاص کرے اسی وقت سے اسے ناخن یا بال کاٹنا منع ہو۔ لیکن دینِ اسلام نے زندگی کے ہرمعاملے میں نظم وضبط اور نظام پر زور دیاہے، دین کی عبادات سے لے کر انفرادی اور اجتماعی احکام کو دیکھ لیاجائے، غور کرنے پر ہر حکم میں نظم واضح نظر آئے گا۔ لہٰذا نظام کا تقاضا تھا کہ قربانی کرنے والے تمام مسلمانوں کے لیے ایک وقت مقرر کرکے نظم قائم کردیا جائے ، اس کے لیے ایک قریب ترین مدت مقرر کی گئی۔

 

پھر یہ بھی ہوسکتاتھا کہ عیدالاضحی سے ایک آدھ دن پہلے وقت مقرر کردیاجاتا، لیکن اس کے لیے ذی الحجہ کا چاند مقرر کیا گیا، اس لیے کہ قربانی کی عبادت کا تعلق عید الاضحٰی اور حج کی عبادت سے ہے، جیساکہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد عیدالفطر ہے، اور اسلام نے شرعی احکام کو اوقات کے ساتھ جوڑا ہے، اور ان کا مدار قمری مہینے اور تاریخ پر رکھاہے، چناں چہ رمضان المبارک چاند دیکھ کر شروع اور چاند دیکھ کر ختم ہوتاہے، ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی حج کی تیاری تقریباً اختتام کو پہنچتی ہے، اور ذی الحجہ کے چاند سے عیدالاضحیٰ کا دن اور صحیح وقت متعین ہوتاہے، لہٰذا قربانی کی تعیین میں بھی ذی الحجہ کے چاند کو دخل ہوا۔ نیزضمنی طور پر اس بات کی ترغیب بھی دے دی گئی کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قربانی کا جانور کچھ ایام پہلے لے کر پالیں، تاکہ ان سے انسیت قائم ہونے کے بعد قربانی کرنے سے نفس کی قربانی اور جان نثاری کے جذبات مزید ترقی پائیں۔ اسی طرح جانور جلدی لے کر، اس کی خدمت کرنے، اور بال، ناخن وغیرہ نہ کاٹنے سے جو میل کچیل کی کیفیت ہوگی تو اس سے انسان کو اپنی حقیقت کی طرف بھی دھیان ہو اور تواضع وعاجزی کی ترقی بھی بنے۔

 

صحيح مسلم (3/ 1565)

 

‘سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئاً»۔’

نوٹ / متعدد اہل علم کی تحریروں سے مستفاد ہے یہ مضمون ۔

Comments are closed.