قربانی کو دکھاوا، گندگی اور تکلیف پہنچانے سے دور رکھیں

مفتی امدادالحق بختیار قاسمی
استاذ حدیث وشعبہ افتاء جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد انڈیا
ماہِ ذی الحجہ کے ایام شروع ہو چکے ہیں، یہ بہت مبارک ایام ہیں، ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان دنوں میں کوئی بھی عبادت: چاہے وہ روزے ہوں، نمازیں ہوں، خیر خیرات ہوں، دوسرے ایام کے مقابلہ میں ان ایام کی عبادتیں اللہ تعالی کو بہت محبوب ہیں؛ لہذا ہمیں ان ایام میں عبادتوں کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، ہو سکے تو روزوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔
اسی مہینہ میں حج جیسی عظیم عبادت ادا کی جاتی ہے، جس کے لیے انسانی آبادی کے کونے کونے سے لاکھوں کی تعداد میں فرزندان توحید اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچتے ہیں اور اپنے عشق و محبت اور اطاعت و فرمانبردای کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی مہینہ کی نو تاریخ کو عرفہ کا دن ہے، جو سال کے تمام دنوں میں سب سے بہتر، مبارک اور افضل دن ہے، یہ آسمان سے رحمتوں کے نزول کا دن ہے، اس دن روزہ رکھنے سے دو سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
اس مہینہ کی خصوصیت ہے کہ اس میں حرمین شریفین کے ساتھ پوری دنیا میں اللہ کی بڑائی بآواز بلند بیان کی جاتی ہے، چنانچہ حجاج لبیک اللہم لبیک اور تکبیر تشریق کی صدائیں بلند کرتے ہیں تو پوری دنیا کے مسلمان مرد اور خواتین نمازوں کے بعد اور دیگر اوقات میں تکبیر تشریق اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ ۔۔۔۔ کے ذریعہ اللہ تعالی کی کبریائی اور بڑائی کا اظہار کرتے ہیں۔
ذی الحجہ کے انہی دنوں میں قربانی اور سنت ابراہیمی کی عبادت ہے، جس کے ذریعہ یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ اللہ کے حکم آگے ہمیں اپنی تمام چیزیں قربان کرنی ہے؛ حتی کہ اگر کبھی جان کی قربانی کی نوبت آئے، تو اس کی بھی پرواہ نہیں کرنی ہے۔
قربانی کی عبادت کو سوشل میڈیا سے دور رکھیں
قربانی ایک عبادت ہے اور عبادت کے لیے ضروری ہے کہ اس کو صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے؛ ورنہ وہ عبادت ضائع ہو جاتی ہے، اللہ تعالی کے یہاں اس عبادت کی کوئی قدر وقیمت اور اہمیت نہیں ہوتی، اس پر نہ صرف یہ کہ کوئی ثواب نہیں ملتا؛ بلکہ بعض اوقات سزا ہوتی ہے؛ لہذا قربانی جیسی عبادت کو بھی بہت احتیاط اور اخلاص سے کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے برعکس دیکھا یہ جاتا ہے کہ جب قربانی کے ایام قریب آتے ہیں، تو قربانی کی پوسٹ، فوٹوز اور ویڈیوز سے سوشل میڈیا کو بھر دیا جاتا ہے، قربانی سے متعلق طرح طرح کی غیر ضروری بلکہ فالتو پوسٹ کی جاتی ہیں۔
قربانی سے متعلق مختلف طرح کے جوکس والی امیج اور ویڈیوز شیئر کی جاتی ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شئیر کی جاتی ہیں، حتی کہ جانور ذبح کرنے اور گوشت بنانے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی جاتی ہیں، یہ ایک نامناسب عمل ہے، جس سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے، بہت سی دفعہ ہمارا یہ عمل دوسروں کی تکلیف کا سبب بنتا ہے، اسی کے ساتھ ہمارا یہ عمل ریا کاری اور دکھاوے کے دائرے میں آتا ہے، جو شرک اور بڑا گناہ ہے، جس سے ہماری قربانی کی عبادت ضائع ہو جاتی ہے، ہمیں اللہ تعالی کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے:
لَن يَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ ٱلتَّقۡوَىٰ مِنكُمۡۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمۡ لِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡۗ وَبَشِّرِ ٱلۡمُحۡسِنِينَ. ٣٧ سورة الحج.
ترجمہ: اللہ تعالی کے پاس نہ جانور کا گوشت پہنچتا ہے اور ان کا خون؛ البتہ اللہ تعالی کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے؛ ہم نے ان جانوروں کو تمہارے قابو میں دیا ہے؛ تاکہ تم ان پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جیساکہ اللہ تعالی نے تمہیں اس کی ہدایت دی ہے اور اچھے اعمال کرنے والوں کو خوش خبری سناؤ۔
اسی کے ساتھ نبی ﷺ کی یہ حدیث بھی ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: قَالَ اللهُ تبارك وتعالى: «أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ.» (صحيح مسلم، باب من أشرك في عمله غير الله، حديث: 2985)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے: میں شرکاء کے شرک سے بے نیاز ہوں، جو کوئی ایسا عمل کرے، جس میں وہ میرے ساتھ کسی اور کو شریک کرے، میں اس کو اور اس کے شرک کو چھوڑ (مردود کر)دیتا ہوں۔
قانونی طور پر ممنوعہ جانور کی قربانی سے پرہیز
ہمارے یا برادران وطن کے ہر تہوار کے موقع پر چند مسلم رہنماؤں اور ذمہ دار حضرات کے ساتھ پولیس انتظامیہ میٹنگ کرتی ہے اور امن و امان قائم رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کی اپیل کرتی ہے اور یہ بہت اچھی روایت ہے، ایسا ضرور ہونا چاہیے؛ لیکن ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ الحمد للہ ہمارے تہوار کے موقع پر کسی کو جان بوجھ کر تکلیف پہنچانے کی کوشش نہیں کی جاتی، کسی سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اگر ہمارے تہوار اور تہوار کی فلاں چیز سے تکلیف ہو تو اپنے گھر میں بیٹھیں، ہماری عید کے موقع پر تلواریں نہیں لہرائی جاتیں، ہماری عید کے موقع پر کسی کی عبادت گاہ کے سامنے بھیڑ لگاکر، اکسانے والے گانے نہیں گائے جاتے، چیخ و پکار نہیں کی جاتی، کسی سے اس کی عبادت موخر (Delay)کرنے کی اپیل نہیں کی جاتی، کہیں شراب پی کر اور ہوش و حواس کھوکر ہنگامہ نہیں کیا جاتا۔
اس سب کے باوجود ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں جناتی شیطان ہمارے دشمن ہیں، وہیں انسانی شیطان بھی ہمارے خیر خواہ نہیں ہیں، عید اور عبادت کے موقع پر ان کی ناپاک کوشش رہتی ہے کہ وہ بہانے بہانے سے ہماری عید کو اور ہماری عبادت کو خراب کردیں، اپنی ’’گائے ماتا ‘‘ کے نام پر جھوٹا الزام لگا کر، دوسروں کے گھروں میں ’’ ماتم‘‘ کا ماحول پیدا کردیں؛ لہذا ہمیں ان شیطانوں سے بھی ہوشیار رہنا چاہیے۔
قربانی کرنا سنت اور واجب ہے اور اپنی جان کی حفاظت کرنا فرض ہے، لہذا جب اس ملک میں گائے کی قربانی اور اس کی خرید و فروخت جان کے لیے خطرہ ہے، تو ایسی صورت میں شریعت آپ کو مجبور نہیں کرتی کہ آپ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال کر گائے کی قربانی ضرور کریں؛ بلکہ شریعت نے اور بھی بہت سے جانوروں کی قربانی کو درست قرار دیا ہے؛ لہذا موجودہ صورت حال میں ہمیں گائے کے بجائے دوسرے جانوروں کی قربانی کرنی چاہیے اور گائے کی خرید و فروخت اور اس کی قربانی سے مکمل احتراز کرنا چاہیے۔
اسی کے ساتھ حکومت سے یہ اپیل ہے کہ جہاں بڑے شہروں میں گائے وغیرہ کی خرید وفروخت پر پولیس کی کڑی نگرانی رہتی ہے، وہیں اس سے بھی پہلے اور اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ’’ گاؤ رکشک ‘‘ کے جھوٹے نام پر چند ’’ راکشس‘‘ جو شیطانیت اور دہشت گردی کا ننگا ناچ کر رہے ہیں، ان درندوں کو سخت لگام دینے کی بھی ضرورت ہے۔
گندگی سے دوری اور صفائی کا اہتمام کریں
قربانی کے دنوں میں بہت سے مسلمان اپنے گھروں میں قربانی کرتے، بہت سے اپنی گلی میں کرتے ہیں، بہت سے سڑک پر کرتے ہیں، بعض حضرات گلی میں ڈیرے، شامیانے اور ٹینٹ لگاکر جانور کاٹتے، وہیں پر پکوان کرتے۔ ان میں سے بعض حضرات گلی اور سڑک پر خون بہتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں، پانی سے خون بہانے اور صاف کرنے کا اہتمام نہیں کرتے، جس سے آنے جانے والوں کے کپڑے خراب ہوتے ہیں، گزرنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
جانور کی ہڈیاں، انتڑیاں اور پیٹی اور غلاظت باہر روڈ پر پھینک دیتے ہیں، تھوڑی دیر کے بعد اس میں سے ایسی بد بو نکلتی ہے ، کہ وہاں سے گزرنا دشوار ہو جاتا ہے، سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے، الٹی اور قے آنے کی کیفیت ہو جاتی۔
ذرا سوچیں کہ جب ہماری یہ حالت ہوتی ہے توغیر مسلموں کی کیا حالت ہوتی ہوگی اور وہ ہماری اس عبادت سے کیا تاثر اور پیغام لیتے ہوں گے اور اس میں اسلام کا قصور ہے یا ہم مسلمانوں کا؟
جبکہ اسلام نے طہارت اور نظافت کی حد درجہ تاکید کی ہے، چھوٹی سے چھوٹی چیز میں طہارت اور نظافت کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے، دوسروں کو تکلیف پہنچانے کو حرام قرار دیا ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْعَرِيِّ؛ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "الطُّهُورُ شَطْرُ الإِيمَانِ. ترجمہ: طہارت آدھا ایمان ہے۔ (صحيح مسلم، باب في الوضوء، حديث: 223)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: ” «الْإِسْلَامُ نَظِيفٌ فَتَنَظَّفُوا فَإِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَظِيفٌ» ". رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَفِيهِ نُعَيْمُ بْنُ مُوَرِّعٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ. (مجمع الزوائد، باب النظافة، حديث: 8579)
ترجمہ: سیدہ عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام صاف ستھرا ہے، لہذا نظافت کا اہتمام کرو؛ کیوں کہ جنت میں صرف نظافت پسند انسان ہی داخل ہو سکتا ہے۔
اسی کے ساتھ یہ چیز بھی قابل توجہ ہے کہ قربانی کے دنوں میں صاف صفائی نہ ہونے اور گندگی پھیلنے کے جتنے ذمہ دار عوام الناس ہیں، اتنا ہی ذمہ دار حکومت کا صفائی کا عملہ بھی ہے، حکومت کو چاہیے کہ قربانی کے ان تین دنوں میں صفائی کے عملہ کو سخت ہدایات دی جائیں، ان کی کڑی نگرانی کی جائے، عملہ کے افراد کو بڑھایا جائے، صفائی کے تعلق سے ایک میٹنگ لے کر، تمام ممکنہ اسباب اختیار کیے جائیں۔
Comments are closed.