قربانی ایک اسلامی شعار

حضرت مولانامفتی انیس الرحمن قاسمی صاحب مدظلہ العالی
امیرشریعت امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ
اللہ تعالیٰ نے ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔(سورہئ فجر:۱،۲) جس سے معلوم ہوا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حج کا اہم رکن:وقوفِ عرفہ اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کو حاصل کرنے کا دن ہے۔رمضان کے بعد ان ایام میں اخروی کامیابی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے، لہٰذا ان میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کی فکر کرنی چاہیے،اپنے آپ کو اللہ کے ذکر واذکار میں مشغول رکھنے روزہ رکھنے، قربانی کرنے کے لیے وقف کرنا چاہیے۔ احادیث میں ان ایام میں عبادت کرنے کے خصوصی فضا ئل وارد ہوئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی دن ایسانہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو۔ (صحیح بخاری)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک عشرہئ ذی الحجہ سے زیادہ عظمت والے دوسرے کوئی دن نہیں ہیں، لہٰذا تم ان دنوں میں تسبیح وتہلیل اور تکبیر وتحمید کثرت سے کیا کرو۔ (طبرانی) اس لیے نویں ذی الحجہ کو بعد نماز فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر شخص کو تکبیر تشریق پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔
عیدالاضحی(عیدقرباں)کادن جوہم مسلمانوں کے لیے خوشی اورعیدکادن ہے،یہ حضرت ابراہیم واسماعیل اوران کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہم السلام کی قربانیوں اورحکم خداکی فرماں برداری کی یادگارہے اورقیامت تک قائم رہے گی،خداوند عالم کا ہزارہزار شکر ہے کہ ہم لوگوں کو اس شہنشاہ رب العالمین نے اپنے بندوں اوردوستوں میں ٹھہراکراپنے پیارے اور خلیل کی یاد قائم رکھنے کی خدمت ہمارے متعلق کردی، اگرہماری عقل وایمان کی آنکھوں میں کچھ بھی روشنی ہے تو ہمارے لیے اس سے بڑھ کرکوئی فخراورخوشی نہیں ہوسکتی کہ پروردگار عالم نے ہمیں اپنے مخلص بندوں کے ساتھ رکھا ہے،جیساکہ ارشادہے:(ترجمہ)ابراہیم کے ساتھ سب سے زیادہ مناسبت اورمشابہت ان لوگوں کو ہے، جوان کے ساتھ تھے اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کواوران کے ماننے والے مسلمانوں کو اوراللہ مومنوں کاوالی ہے۔(آل عمران:68)
قربانی کو واجب یا سنتِ مؤکدہ قرار دینے میں زمانہئ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے؛ مگر پوری امتِ مسلمہ متفق ہے کہ قربانی ایک اسلامی شعار ہے اور جو شخص قربانی کرسکتا ہے اس کو قربانی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، خواہ اس کو واجب کہیں، یا سنتِ مؤکدہ، یا اسلامی شعار۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں ہمیشہ قربانی کیا کرتے تھے باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اشیاء خوردنی نہ ہونے کی وجہ سے کئی کئی مہینے تک چولہا نہیں جلتا تھا۔حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں قربانی کو واجب قرار دیا ہے، حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد ابن حنبلؒ کی ایک روایت بھی قربانی کے وجوب کی ہے۔ ہندوپاک کے جمہور علماء نے بھی وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے؛ کیونکہ یہی قول احتیاط پر مبنی ہے۔عید قربان کے موقع سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب عمل جانورکی قربانی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ہے:”عیدالاضحی کے دن بندوں کے سب کاموں میں اللہ کے نزدیک زیادہ پیارا کام قربانی کاخون بہاناہے،اس سے بڑھ کراللہ کوکوئی عمل پسندنہیں،قربانی میں جو جانور ذبح کیا جاتا ہے، اسی طرح بلاکسی نقصان کے اپنے سینگھوں اور بالوں سمیت قیامت کے دن حاضر ہوگا اور قربانی کے جانورکاخون زمین پرگرنے سے پہلے بارگاہ خداوندی میں قبول ہوجاتاہے“۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فی فضل الاضحیۃ:4/83)
لیکن قربانی کرنے سے پہلے نمازعیددورکعت اداکرناواجب ہے اوریہ جماعت کے ساتھ اداکی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:”قربانی کے دنوں میں ہماراپہلاکام یہ ہے کہ ہم نمازپڑھیں اورنمازسے واپس آکر قربانی کریں، جو ایسا کرے گاتواس نے ہمارے طریقہ پرعمل کیا اور جس نے نمازسے پہلے قربانی کیاتووہ اس کے گھروالوں کے لیے گوشت ہے، عبادت میں اس کاشمار نہ ہوگا“۔(صحیح البخاری،باب سنۃ الأضحیۃ،رقم الحدیث:965)
عیدین کی نمازرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں عیدگاہ میں ہواکرتی تھی،البتہ ایک بار عید کے دن خوب بارش ہوئی تھی،آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے ”مسجد“ میں عید کی نماز پڑھی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:”ایک دفعہ عید کے دن بارش ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو عید کی نماز مسجد نبوی میں پڑھائی۔(سنن ابن ماجہ،باب ما جاء فی صلوٰۃ العید فی المسجد إذا کان مطر،رقم الحدیث:1313)
وبائی امراض،لاک ڈاؤن اورکرفیو کے زمانہ میں اگر بڑی جماعتوں کے ساتھ نماز ادا کرنے میں دشواری ہوتو ایسی صورت میں مختصر جماعت کے ساتھ ہر جگہ عیدالاضحی کی نماز ادا کی جائے گی،چاہے گھروں کے دالان ہوں،بیٹھک ہوں،چھت ہوں،یا احاطے ہوں،بشرطیکہ دوسرے لوگ بھی شامل ہوسکتے ہوں،ایسی جگہوں پر عید کی نماز خطبہ کے ساتھ ادا کی جائے گی۔بخاری شریف میں ہے: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے غلام ابن ابی عتبہ زاویہ نامی گاؤں میں رہتے تھے، انہیں آپ(رضی اللہ عنہ) نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں اور بچوں کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح نماز عید پڑھیں اور تکبیر کہیں۔(صحیح البخاری،رقم:987)
نماز عید ادا کرنے کے بعد قربانی مناسب جگہوں میں انجام دیں اورصفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔قربانی کرنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ یہ قربانی کیاچیزہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے،پھرصحابہ نے عرض کیا کہ ہم کو اس میں کیاثواب ملتاہے؟ آپ نے فرمایاکہ ہرایک بال کے بدلے ایک نیکی“۔(سنن ابن ماجۃ،باب ثواب الأضحیۃ:2/1045)
اس لیے مسلمانوں کوچاہیے کہ وہ شوق اورخوشی سے تندرست اورصحیح وسالم،بے عیب جانوروں کی قربانی کریں،حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوکر ارشادفرمایا:”قربانی میں ایسے اندھے جانور کی قربانی جائزنہیں ہے،جس کااندھاپن ظاہر ہو اوربیمار نجس کی بیماری ظاہر ہو، ایسے لنگڑے کی جس کالنگڑاپن ظاہرہو اور ایسا بوڑھا جو مذبح تک نہ جاسکے“۔(سنن أبی داؤد،باب مایکرہ من الضحایا،رقم الحدیث:2802)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین اورفربہ جانورکی قربانی دی تھی۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوچتکبرے مینڈے کی قربانی دی،چنانچہ میں نے آپ کودیکھاکہ آپ اپنے پیرمبارک کوان دونوں کے چہرے کے ایک حصہ پررکھے ہوئے اللہ کانام اورتکبیرپڑھ رہے تھے،چنانچہ آپ نے دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا“۔(صحیح البخاری،باب من ذبح الأضاحی بیدہ،رقم الحدیث:5558)
ذی الحجہ کی دسویں تاریخ سے بارہویں کی غروب تک قربانی کاوقت ہے،حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:”قربانی تین دن تک کیاجاسکتاہے،ان میں پہلادن سب سے افضل ہے“۔(مختصر الکرخی حاشیۃ البخاری،باب من قال:الأضحی یوم النحر)
قربانی کاگوشت خودکھائے،اپنے دوست واحباب اورمتعلقین کوکھلائے اورفقراء ومساکین کوہدیہ دے،اس میں کوئی قیدنہیں ہے کہ کس کوکتنادے اور خود کتنا کھائے، البتہ مذہب حنفی کے مطابق تہائی گوشت فقراومساکین کودینامستحب ہے، روایتوں میں آیاہے کہ کچھ دنوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع فرمایاتھا،اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”کھاؤ،دوسروں کوکھلاؤ اورجمع کرکے رکھو“۔(صحیح لمسلم،باب بیان ماکان من النھی عن أکل لحوم الأضاحی،رقم الحدیث:1972)
بڑے جانورمثلااونٹ،بیل اوربھینس کی قربانی سات آدمی کی طرف سے کیا جاسکتا ہے اورسات حصہ ایک آدمی کی اپنی طرف سے بھی قربانی میں دے سکتاہے،البتہ بکری،دنبہ، مینڈھا وغیرہ میں صرف ایک آدمی قربانی کرسکتاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:”بڑے جانور سات آدمی کی طرف سے قربانی میں دیا جاسکتا ہے“۔(سنن أبی داؤد،باب البقروالجزورعن کم تجزی،رقم الحدیث:2808)
عیدخوشی کادن ہے،اس دن اللہ کی طرف سے بندوں کی مہمان نوازی کی جاتی ہے؛ اس لیے اس دن روزہ رکھناحرام ہے۔حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”ان دونوں دن کے روزہ رکھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے، ایک:تمہارے روزہ کے افطارکے دن،دوسرا:جس دن تم اپنی قربانی کے گوشت کو کھاتے ہو“۔(صحیح البخاری،باب صوم یوم الفطر،رقم الحدیث:1990)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودن کے روزہ رکھنے سے منع فرمایاہے، ایک: یوم الاضحی،دوسرے: یوم الفطر“۔(صحیح لمسلم،باب تحریم صوم یومی العیدین،رقم الحدیث:۸۳۱۱)
حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک قربانی صرف تین دن کی جاسکتی ہے؛یعنی 12ذی الحجہ تک،یہی رائے حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی تھی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، یا کسی ایک صحابی سے 13ذی الحجہ کو قربانی کرنا ثابت نہیں ہے۔اگر کوئی شخص 12ذی الحجہ تک قربانی نہ کرسکے تو 12ذی الحجہ کے بعد اس رقم کو بطورصدقہ کسی غریب ومستحق کودے دے۔اللہ جل شانہ ہم سب کو عیدقرباں کی نعمتوں اوربرکتوں سے نوازے۔(آمین)
Comments are closed.