قربانی : ضروری احكام ومسائل

شمع فروزاں
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف الله رحمانی صاحب مدظلہ العالی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
صاحب استطاعت لوگوں پر بقرعید کی قربانی کرنا واجب ہے، (خلاصۃ الفتاویٰ:۴؍۳۰۹) جن لوگوں پر قربانی واجب ہو، ان کے لئے ایام قربانی میں جانور کی قیمت صدقہ کر دینا کافی نهیں، ان کے ذمہ قربانی باقی رہے گی، (عالمگیری: ۵؍۲۵۳) اگر قربانی واجب نہ ہو تب بھی اس کی قیمت صدقہ کر دینے سے نفل قربانی کرنا بہر حال بہتر ہے(المبسوط:۲؍۲۰، البحرالرائق: ۸؍۳۲۲)؛ کیوں کہ صدقہ کے ذریعہ صرف غرباء کی اعانت ہوتی ہے اور قربانی کے ذریعہ سنت ابراہیمی بھی تازہ کی جاتی ہے۔
قربانی کے سلسلہ میں تفصیل یہ ہے کہ بعض قربانیاں تو غریب اور مالدار دونوں پر واجب ہیں، بعض صرف مالداروں پر اور بعض صرف غرباء پر، مالدار اور غریب دونوں پر قربانی مَنّت ماننے کی وجہ سے واجب ہوتی ہے، مالدار پر بقرعید کی قربانی واجب ہوتی ہے جو غرباء پر واجب نہیں ہوتی، اور اگر بقرعید میں قربانی کی نیت سے جانور خرید کیا تو اگر وہ شخص غریب تھا تو اس خرید کئے ہوئے جانور کی قربانی بہر حال واجب ہوگئی؛ کیوں کہ یہ اس کے لئے ’’ نذر‘‘ کے درجہ میں ہے، اور اگر مالدار تھا تو وہی جانور قربانی کے لئے متعین نہیں ہوگا، اور خاص اس جانور کی قربانی اس پر واجب نہ ہوگی۔(فتاویٰ عالمگیری: ۵؍۲۹۱، کتاب الاضحیہ)
شرطیں
قربانی واجب ہونے کے لئے شرط ہے کہ:
۱-قربانی کرنے والا مالدار اور مستطیع ہو، مالدار ہونے سے مراد یہ ہے کہ گھر، گھر کے ضروری سامان، اور سواری کے علاوہ سونا چاندی اور زمین یا کسی اور شکل میں اتنی چیز موجود ہو، جس سے ساڑھے باون تولہ یعنی:۶۱۲؍ گرام چاندی خرید کی جا سکے، اور اگر ایسی زمین ہو جو کاشت کے لئے استعمال ہو رہی ہو تو اس کی سالانہ پیداوار اتنی مقدار میں ہو کہ سال بھر کی خوراک فراہم ہو جائے۔ (عالمگیری:۵؍۲۹۲، الدرالمختار: ۷۲۲، خلاصۃ الفتاویٰ: ۴؍۳۰۹)
۲-مسلمان ہو، کافر پر قربانی واجب نہیں۔
۳-مقیم ہو، مسافر نہ ہو(خلاصۃ الفتاویٰ: ۴؍۳۰۹) ؛ اسی لئے حاجی پر بقرعید کی قربانی واجب نہیں، (الشرح الصغیر: ۲؍۱۳۷، عالمگیری: ۵؍۲۹۳) ہاں اگر وہ پندرہ دن پہلے سے مکہ میں مقیم ہو تو بقرعید والی قربانی بھی واجب ہو جائے گی، (فتاویٰ عالمگیری: ۵؍۲۹۲، کتاب الاضحیۃ) خواہ وہیں کرے یا اس کی طرف سے اس کے وطن میں کی جائے۔
= بالغ اور عاقل ہونا ضروری نہیں؛ چنانچہ نابالغ نصابِ زکوٰۃ کا مالک ہو تو اس کے مال کا نگراں (وصی) یا اس کا ولی اس میں سے قربانی کرے گا۔ (تاتارخانیہ: ۲؍۴۶۵)
= نیز قربانی واجب ہونے میں مردوعورت کے احکام برابر ہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری: ۵؍۲۹۲)
= قربانی واجب ہونے کی شرطوں میں قربانی کے آخری وقت کا اعتبار ہے، مثلاً: ۱۲؍ ذوالحجہ کو غروب آفتاب سے پہلے غریب مالدار ہو گیا یا کافر کو مسلمان ہونے کی توفیق ہوگئی تو اب اس پر قربانی واجب ہوگئی۔ (خلاصۃالفتاویٰ: ۴؍۳۰۹)
جانور اور ان کی عمریں
چار طرح کے جانور ہیں، جن کی قربانی کی جا سکتی ہے:
۱-اونٹ اور اونٹنی: جو پانچ سال کا ہو اور اس کا چھٹا سال شروع ہوگیا ہو؛ البتہ اونٹ کے مقابلہ اونٹنی کی قربانی بہتر ہے۔
۲-بیل اور گائے: جو دو سال کے ہوںاور تیسرے سال میں قدم رکھ چکے ہوں، گائے کی قربانی بیل سے بہتر ہے، بھینس (نرومادہ) بھی گائے بیل کے حکم میں ہے۔ (الجاموس نوع من البقر،عالمگیری: ۵؍۲۹۷) ؛ البته گائے كی قربانی وهاں كرنی چاهئے، جهاں قانونی طور پر اس كی ممانعت نهیں هو۔
۳-بکری، بکرا (غنم): اسی حکم میں مینڈھا اور دنبہ بھی ہے، ان جانوروں کی عمر بھی کم سے کم ایک سال ہونی چاہئے؛ البتہ دنبہ چھ ماہ کا ہو اور سال بھر کا محسوس ہو تو کافی ہے، بکرے میں نر کی قربانی افضل ہے۔
۴-بھیڑ (نرومادہ): اس کی عمر بھی ایک سال ہونی چاہئے؛ البتہ چھ ماہ کا جانور ایک سال کا محسوس ہو تو اس کی قربانی کی جا سکتی ہے، بھیڑ میں بھی نَر کی قربانی افضل ہے۔ (خلاصۃ الفتاویٰ: ۴؍۳۱۳، الثمر الدانی: ۳۹۰، باب فی الضحایا)
وہ جانور جو اِن پالتو جانوروں میں سے کسی کے وحشی اور جنگلی جانور کے اختلاط سے پیدا ہوا ہو تو اگر اس جانور کی ماں جنگلی ہو، تب اس کی قربانی کافی نہیں ہوگی، اور وہ پالتو ہو تو کافی ہو جائے گی۔ (خلاصۃ الفتاویٰ: ۴؍۳۱۵)
جانوروں میں فضیلت کے اعتبار سے ترتیب اس طرح ہے:
اونٹ، گائے، بیل، بکری، بھیڑ؛ البتہ اونٹ یا گائے کے ساتویں حصہ کے مقابلہ بکری وغیرہ کی قیمت زیادہ ہو تو بکری کی قربانی افضل ہوگی۔ (خلاصۃ الفتاویٰ: ۴؍۳۱۴)
جو عیوب قربانی میں مانع ہیں
قربانی کے جانور کو شدید قسم کے عیب اور خامی سے پاک ہونا چاہئے؛ چنانچہ درج ذیل جانوروں کی قربانی درست نہیں ہوگی:
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئی ہو، اندھا ہو، ایک آنکھ ہو، پاؤں میں اتنا لنگ ہو کہ مذبح تک جانا دشوار ہو جائے، بہت مریض ہو، دونوں کان کٹے ہوئے ہوں، سرین کٹی ہوئی ہو، مکمل دُم کٹی ہوئی ہو، پیدائشی طور پر کان نہ ہو، ایک ہی کان ہو، دوسرا کان پیدائشی طور پر نہ ہو، یا کٹ گیا ہو، کوئی بھی عضو ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گیا ہو، ناک کٹی ہوئی ہو، تھن کٹا ہوا ہو، جو اپنے بچے کو دودھ نہیں پلا سکتی ہو، زبان اس قدر کٹی ہوئی ہو کہ چارہ نہیں کھا سکے، جانور کو جنون اس درجہ کا ہو کہ چرنا اور چارہ کھانا مشکل ہو جائے، اونٹ جو غلاظت کھانے کا عادی ہو گیا ہو، جانور اتنا کمزور ہو کہ ہڈی میں گودا نہ ہو، چار پاؤں میں سے کوئی ایک کٹا ہوا ہو، وہ بکری جس کے ایک تھن کا اور وہ اونٹنی یا گائے جس کے دو تھن کا دودھ خشک ہو گیا ہو۔ (فتاویٰ عالمگیری: ۵؍۲۹۷-۲۹۹)
البتہ یہ سارے عیوب مالداروں کی قربانی کے لئے رُکاوٹ ہیں، غرباء جن پر قربانی واجب نہیں هے اور وہ اپنی طرف سے قربانی کریں، وہ عیب زدہ جانوروں کی قربانی بھی کر سکتے ہیں، (حوالۂ سابق) اسی طرح قربانی کے لئے ذبح کرنے کی تدبیر کرتے ہوئے جانور میں کوئی عیب پیدا ہو جائے تو اس کی بھی قربانی درست ہوگی۔ (حوالۂ سابق)
جو عیوب قربانی میں مانع نہیں
نیچے ان عیبوں کا ذکر کیا جاتا ہے، جن کے پائے جانے کی صورت میں بھی قربانی درست ہو جاتی ہے:
= جانور کو دانت نہ ہو اور اس کے باوجود وہ چارہ کھا سکتا ہے۔
= بکرا جس کو پیدائشی طور پر زبان نہ ہو، گائے بیل میں یہ عیب ہو تو اس کی قربانی نہیں ہو سکتی۔
= خارش زدہ لیکن فربہ ہو۔
= جس کو پیدائشی سینگ نہ ہو، یا اس طرح ٹوٹ گئی ہو کہ بالکل جڑ سے نہ ٹوٹی ہو۔
= جس کا کان بہت چھوٹا ہو، کان میں سوراخ ہو، کان لمبائی میں پھٹا ہو۔
= دیوانہ مگر فربہ ہو اور چارہ وغیرہ کھا سکتا ہو۔
= لنگڑا جو تین پاؤں پر چلنے کے ساتھ ساتھ چوتھے پاؤں کو چلتے ہوئے زمین سے ٹکائے؛ البتہ کجی کے ساتھ چلے۔
= زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے اب بچہ پیدا کرنے کے لائق نہ ہو۔ (خلاصۃ الفتاویٰ: ۴؍۸۰)
عیبوں کے سلسلہ میں اُصول یہ ہے کہ اگر اس سے کوئی خاص فائدہ یا ظاہری خوبصورتی بالکل ختم ہو جائے تو اس جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی، اور اگر ایسا نہ ہو تو قربانی جائز ہوگی۔
قربانی کے جانور کو زیادہ سے زیادہ فربہ، خوبصورت اورتخلیقی اعتبار سے مکمل ہونا چاہئے؛ اس لئے کہ یہ قربانی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا بدل ہے اور رشتۂ فرزندی، نیز حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پیغمبرانہ اوصاف وخصائل اور سعادت وسلامتی کی وجہ سے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جس قدر محبوب تھے، وہ محتاج اظہار نہیں، اس کا تقاضہ ہے کہ ایسا جانور خدا کی نذر کیا جائے جو مکمل ہو اور اپنے تخلیقی کمال وجمال کی وجہ سے قربانی کرنے والے کو ایک گونہ محبوب ومرغوب ہو کہ اصل میں یہ اپنی چاہت اور محبت ہی کی قربانی ہے!
ایام واوقات
۱۰=؍ ذوالحجہ کی طلوع صبح سے ۱۲؍ ذوالحجہ کے غروب آفتاب تک قربانی کا وقت ہے، رات میں بھی قربانی کی جا سکتی ہے؛ لیکن دن میں کرنا زیادہ بہتر ہے؛ اس لئے کہ رات کی تاریکی میں غلطی کا احتمال رہتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اگر روشنی کا معقول نظم ہو تو رات میں بھی قربانی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (ہدایہ ربع سوم: ۴۳۰، )
۱۰=؍کو قربانی کرنا ۱۱؍ اور ۱۲؍ سے افضل ہے۔
=جہاں عید کی نماز پڑھی جاتی ہو، وہاں نماز عید سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں ہے، (رحمۃ الامۃ: ۱۴۸) حدیث میں صراحۃً اس سے منع فرمایا گیا ہے۔(بخاری عن براء بن عازب، حدیث نمبر: ۹۶۵)البتہ جہاں عید کی نماز نہ ہوتی ہو، وہاں طلوع صبح یعنی فجر کے بعد ہی سے قربانی کی جا سکتی ہے۔(رحمۃ الامۃ: ۱۴۸)
=قربانی کے وقت میں اس جگہ کا اعتبار ہوگا جہاں قربانی کی جائے، اگر جانور کا مالک خود شہر میں ہو اور اس کے لوگ دیہات میں ہوں، اور وہ اپنے لوگوں کو قربانی کی ہدایت کر چکا ہو تو قربانی طلوع صبح کے معاًبعد ہو سکتی ہے، اور خود دیہات میں ہو اور جانور شہر میں ہو تو اب نماز عید کے بعد ہی قربانی کرنا درست ہوگا۔ (عالمگیری: ۵؍۲۹۶، الباب الرابع فیما یتعلق بالمکان والزمان)
=اگر ذوالحجہ کے چاند کا مسئلہ مشکوک ہو جائے اور ۱۲؍ ذوالحجہ کے متعلق ۱۳؍ تاریخ ہونے کا شبہ ہو تو بہتر ہے کہ اس تاریخ سے پہلے ہی قربانی کر لی جائے، اور اگر ۱۲؍ کو قربانی کی جائے، جس کے ۱۳؍ ہونے کا شبہ ہے، تو اس کا گوشت صدقہ کر دیا جائے، قربانی کرنے والا اس میں سے خود نہ کھائے۔(عالمگیری: ۵؍ ۲۹۵، الباب الثالث فی وقت الاضحیۃ)
شرکت کے ساتھ قربانی
=قربانی کے جانوروں میں اونٹ، اونٹنی، بیل، گائے اور بھینس میں سات حصے ہوں گے، اس سلسلہ میں صریح حدیثیں موجود ہیں، (مسلم: ۱؍ ۴۲۴، باب جواز الاشتراک فی الھدی، کتاب الحج ، ترمذی: ۲؍۲۷۶، باب فی الاشتراک فی الاضحیۃ)اگر ایک جانور میں سات سے کم افراد مثلاََ پانچ چھ شریک ہوں تو کوئی حرج نہیں(ہدایہ ۴؍ ۴۲۹)؛ لیکن اگر ایک جانور آٹھ افراد کی طرف سے ذبح کیا جائے تو کسی کی طرف سے بھی قربانی ادا نہ ہوگی۔ (حوالۂ سابق)
=تمام شرکاء کے لئے ضروری ہے کہ ان کی نیت عبادت کی ہو، جیسے: قربانی یا عقیقہ کی نیت سے شریک ہوں، اگر ان میں سے ایک کی نیت بھی صرف گوشت حاصل کرنے کی نیت ہو تو قربانی درست نہیں ہوگی: ولو نویٰ احدھم اللحم بطل الکل. ( خلاصۃ الفتاویٰ: ۴؍۳۱۵)
=اگر ایک جانور میں مختلف لوگ شریک ہوں تو ضروری ہے کہ گوشت باضابطہ وزن کے ذریعہ سبھوں میں برابری کے ساتھ تقسیم ہو، محض اندازہ سے تقسیم عمل میں نہ آئے؛ البتہ اگر اس تقسیم میں پایہ، کلیجی، سر وغیرہ کے حصے بھی لگائے جائیں تو اندازہ یا کمی بیشی کے ساتھ تقسیم درست ہوگی۔ (خلاصۃ الفتاویٰ: ۴؍ ۳۱۵)
گوشت اور چرم کے مصارف
=بہتر ہے کہ قربانی کے جانور کے تین حصے کئے جائیں، ایک حصہ خود استعمال کرے، ایک حصہ اقرباء واحباب (جو مالدار ہوں) پر خرچ کرے اور ایک حصہ فقراء اور ناداروں پر۔(ہدایہ :۴؍ ۴۳۴)
=تاہم ضرورت اور حالات کے لحاظ سے اس تناسب میں کمی بیشی ہو جائے تو حرج نہیں، یہاں تک کہ اگر پورا جانور کسی ایک ہی مد میں استعمال کر لیا جائے تو بھی کوئی کراہت نہیں۔
= یہی حکم چرم قربانی کا بھی ہے کہ اس کو خود بھی استعمال کر سکتا ہے، مالداروں کو بھی دے سکتا ہے اور فقراء کو بھی؛ لیکن جانور کا کوئی بھی حصہ ’’ گوشت، پایہ، سر، چمڑا، ہڈی‘‘ فروخت کر دیا جائے تو اب اس کی قیمت صدقہ کر دینا واجب ہے، اور صرف فقراء ہی اس کے حقدار ہیں۔
=اسی طرح اُجرت میں بھی جانور کا گوشت یا جانور کا کوئی حصہ دینا جائز نہیںہے ، اجرت الگ سے ادا کرنی چاہئے۔ (ہدایہ :۴؍ ۴۳۴، الشرح الصغیر: ۱۴۷)
=چِرم قربانی کی رقم اساتذہ کی تنخواہ، مساجد ومدارس کی تعمیر وغیرہ میں خرچ نہیں کی جا سکتی، ایسے مدارس جہاں نادار طلبہ کے کھانے کا نظم نہ ہو، وہ بھی اس کے حقدار نہیںہیں۔
قربانی کی قضاء
=اگر قربانی کے دنوں میں قربانی نہیں کی؛ حالاں کہ قربانی اس پر واجب تھی تو بعد میں اس پر قضاء واجب ہوگی، اگر اس پر قربانی واجب تھی اور کوئی متعین جانور اس نے قربانی کی نیت سے نہیں لیا تھا تو قضاء کرنے کی دو صورتیں ہیں: یا تو زندہ جانور کو صدقہ کر دے، یا اس کی قیمت صدقہ کر دے، اور اگر غنی یا محتاج آدمی نے کوئی متعین جانور قربانی کی نیت سے خرید کیا تھا، یا کسی جانور کے متعلق قربانی کی نذر مانی تھی، ایام قربانی گزر گئے اور جانور کو ذبح نہیں کر پایا تو بعینہ اسی جانور کو صدقہ کر دینا واجب ہے، نیز اب اس کا مصرف صرف فقراء ہیں، نہ خود استعمال کر سکتا ہے نہ مالدار دوست احباب پر خرچ کر سکتا ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری: ۵؍۲۹۴)
=اگر کوئی مالدار قربانی کا جانور خرید کرے، ایام قربانی میں گم ہو جائے، وہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کر دے، بعد میں وہ اصل جانور مل جائے تو اس کی قربانی واجب نہیں ہے؛ لیکن اگر کوئی محتاج (جس پر قربانی واجب نہیں تھی) کے ساتھ یہی بات پیش آئے تو اس گمشدہ جانور کے مل جانے کی صورت میں اس کی بھی قربانی کرنی ہوگی۔ (عالمگیری: ۵؍۳۰۰)
= اسی طرح قربانی کی نیت سے خرید کئے ہوئے جانور کو اگر کسی عذر کے باعث وقت سے پہلے ذبح کرنا پڑا تو وہ صدقہ کا جانور شمار ہوگا، اس کا اپنی ذات کے لئے استعمال کرنا درست نہیں ہوگا، صرف فقراء ہی اس کے مستحق ہوں گے۔ (عالمگیری: ۵؍۳۰۰)
چند آداب واحکام
=مستحب طریقہ ہے کہ قربانی کے جانور کو چند دنوں پہلے سے اپنے یہاں لا کر رکھا جائے، اس کے گلے میں قلادہ ڈالا جائے، اس کے اوڑھنے کا نظم کیا جائے ، مذبح کی طرف نرمی سے لے جایا جائے، پکڑ کر کھینچا نہ جائے، قربانی کے بعد اس کی رسی، قلادہ وغیرہ کو صدقہ کر دیا جائے، اس کے بال نہ تراشے جائیں، دودھ بہتر ہے کہ نہ دوہا جائے، تکلیف کا اندیشہ ہو تو پانی کی چھینٹ ماری جائے، یہ بھی کافی نہ ہو تو دودھ دوہ کر صدقہ کر دیا جائے، بال کاٹےتو اس کا بھی صدقہ کر دینا واجب ہے، (حوالۂ سابق) قربانی کے جانور پر سواری نہ کی جائے، (حوالۂ سابق) بہتر ہے کہ جانور کو خود ذبح کرے، آپ ﷺ کا یہی معمولِ مبارک تھا،(بخاری: ۲؍۸۳۴، مسلم: ۲؍۱۵۵، ابو داؤد: ۲؍۳۸۸)جانور کو قبلہ رُخ لٹائے، اس کے بعد پڑھے:
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ.
(ابو داؤد: ۲؍۳۸۶، ابن ماجہ: ۲؍۲۲۵)
میں اُس ذات کی طرف اپنا رُخ کرتا ہوں، جس نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے، میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہوں، جو خدا کی طرف یکسو تھے، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بے شک میری نماز، میری عبادت، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے، جو تمام عالم کے پروردگار ہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے ، اور میں اللہ کا فرماں بردار ہوں۔
پھر اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر جانور کو ذبح کر دے، ذبح کرنے کے بعد بہتر ہے کہ یہ دعاء پڑھی جائے:
اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْهُ مِنِّيْ كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِيْبِكَ مُحَمَّدٍ وَ خَلِيْلِكَ إبْرَاهِيْمَ عليهما السلام.
اے اللہ! اس قربانی کو میری طرف سے قبول فرما لیجئے، جیسا کہ آپ نے اپنے حبیب محمد ﷺ اور اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے قربانی قبول فرمائی ہے۔
اور اگر کسی اور کی طرف سے قربانی کرنی ہو تو تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کے بجائے تَقَبَّلْہُ مِنْ……کہہ کر اسی کا نام لے، قربانی کی نیت یا اس کی دعاء عربی ہی میں کرناضروری نہیں ہے، اگر اردویا اپنی مادری زبان ہی میں اس کا مفہوم ادا کردے تو یہ بھی کافی ہے۔
=قربانی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ وسلام مکروہ ہے(المیزان الکبریٰ: ۲، باب الاضحیۃ) ؛ البتہ جانوروں کو ذبح کرنے کے عام طریقہ کے مطابق ’’ بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ کہے۔ (بخاری: ۲؍۸۳۵، مسلم: ۲؍۱۵۵)
=قربانی کا ارادہ ہو تو ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد سے ہی بال اور ناخن تراشنا ترک کر دے، (مسلم: ۲؍۱۶۰)قربانی کے دنوں میں قربانی کے جانور میسر نہ ہوں تو از راہِ تشبہ مرغی ذبح کرنا مکروہ ہے۔(عالمگیری: ۵؍۳۰۰)
= قربانی میں نیابت درست ہے، یعنی اگر ایک شخص دوسرے شخص کے حکم سے یا اس کے علم میں لا کر اس کی طرف سے قربانی کرے تو درست ہے۔(عالمگیری: ۵؍۳۰۲)
= میت کی طرف سے بھی قربانی کی جا سکتی ہے اور خود رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بھی؛ اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ان کو آپ ﷺ کی طر ف سے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (ابو داؤد: ۲؍۳۸۵، ترمذی: ۱؍۲۷۵)
Comments are closed.