آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
اجتماعی قربانی اور قربانی کی نیت
سوال:- آج کل مکانات کے تنگ ہونے اور قربانی کے لئے جگہ میسر نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر اجتماعی قربانی کا نظم کیا جاتا ہے ، خاص کر بڑے جانوروں کی قربانی تو زیادہ تر اسی طرح ہوتی ہے ، ایسی صورت میں اگر حصہ لینے والوں کی تعداد کے لحاظ سے ایک ہی قیمت کے جانور خرید کرلئے جائیں اور ان کی قربانی کردی جائے ، ہر جانور سے متعلق حصہ لینے والوں کا نام نہیں لیا گیا تو کیا اس طرح قربانی درست ہوجائے گی ؟(جاوید احمد، حافظ باب نگر)
جواب :- بہتر صورت تو یہ ہے کہ ہر جانور کے ساتھ نام متعین کردیا جائے اور ذبح کرتے وقت ان کا نام ذکر کردیا جائے ، یا کم سے کم ان کی نیت کرلی جائے ؛ لیکن اگر قربانی کے حصص کے لئے نام لکھائے جاچکے تھے اور ان ہی کی طرف سے قربانی کی نیت سے جانور خرید کرلئے گئے ، یا جانور پہلے خریدے جاچکے تھے اور شرکائِ قربانی کی تعداد کے لحاظ سے قربانی کی نیت سے جانور مذبح میں لایا گیا اور قربانی کی نیت سے ان کو ذبح کردیا گیا ، تعیین نہیں گئی کہ کونسا جانور کن کی طرف سے ذبح کیا جارہا ہے ؟ تب بھی قربانی درست ہوجائے گی : ’’ اشتری سبعۃ نفر سبع شیاہ بینھم ، ولم یسم لکل واحد منھم شاۃ بعینھا فضحوا بھا کذلک ، فالقیاس أن لا یجوز وفی الاستحسان یجوز‘‘ ۔ (ہندیہ : ۵؍۳۵۳، کتاب الاضحیہ ، باب الثامن فیما یتعلق بالشرکۃ فی الضحایا)
پورے گھر کی طرف سے ایک قربانی کافی نہیں
سوال:- آج کل سوشل میڈیا پر یہ بات چل رہی ہے کہ ایک پورے خاندان کی طرف سے ایک قربانی کافی ہوجائے گی ، ہر فرد کے لئے الگ سے قربانی واجب نہیں ، اس مسئلہ میں صحیح حکم کیا ہے؟(ذوالقرنین، سلطان شاهی)
جواب :- قربانی ایک عبادت ہے ، ٹھیک اسی طرح جیسے نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ عبات ہے ، اور عبادتیں انفرادی حیثیت میں واجب ہوتی ہیں ، ایک شخص کی نماز و روزہ یا حج و زکوٰۃ پورے گھر یا پورے خاندان کی طرف سے ادا کافی نہیں ہوگا ؛ اس لئے یہ کہنا کہ ’ ایک شخص کی قربانی اس کے پورے گھر کی طرف سے ادا ہوجائے گی ‘ درست نہیں ، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا : ’’عن أبی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : من وجد سعۃ فلم یضح فلا یقربن مصلانا‘‘ (مسند احمد بن حنبل : ۳؍۳۲۱ ، حدیث نمبر : ۸۲۵۶) ’’ جو شخص گنجائش رکھتا ہو ، پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے‘‘ — آپ صلی الله علیه وآله وسلم کے اس ارشاد سے صاف معلوم ہوا کہ قربانی ہر صاحب استطاعت پر شخصی حیثیت میں واجب ہوتی ہے ، حضرت حسین بن علیؓ سے روایت ہے : ’’ قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : من ضحی طیبۃ بھا نفسہ محتسباً لأضحیتہ کانت لہ حجابا من النار ‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی ، حدیث نمبر : ۲۷۳۶)’’ رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا : جو شخص خوش دلی کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے قربانی کرے گا ، تو یہ قربانی اس کے لئے دوزخ سے پردہ بن جائے گی ‘‘ — اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ ما عمل ابن آدم یوم النحر عملاً أحب إلی اﷲ عزوجل من إھراقۃ دم ، وإنہ لیأتی یوم القیامۃ بقرونھا وأظلافھا وأشعارھا‘‘ (ابن ماجہ ، کتاب الاضاحی ، باب الاضاحی واجبۃ اُم لا ؟ حدیث نمبر : ۳۱۲۶) ’’ قربانی کے دن قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو محبوب نہیں اور قربانی کرنے والا شخص قیامت کے دن اس کے سینگ ، ناخن اور بال لے کر حاضر ہوگا ‘‘ — غرض کہ یہ اور مختلف دوسری حدیثیں ہیں ، جن میں انفرادی حیثیت میں قربانی کا حکم دیا گیا ہے ، یا قربانی کے عمل کی فضیلت ذکر کی گئی ہے ، اسی طرح حضرت جابر سے روایت ہے کہ : ہم لوگوں نے حدیبیہ میں اونٹ اور گائے کی قربانی سات سات افراد نے مل کر کی ، ( سنن ترمذی ، کتاب الاضاحی ، باب الاشتراک فی الاضحیۃ : ۱؍۲۷۶ ، حدیث نمبر : ۱۵۳۸) یہ حدیث صاف بتاتی ہے کہ ایک جانور کی قربانی سات گھر والوں کی طرف سے نہیں ؛ بلکہ سات افراد کی طرف سے کی گئی ، مشہور تابعی امام شعبیؒ سے منقول ہے :’’ أدرکت أصحاب محمد صلی اﷲ علیہ وسلم وھم متوافرون کانوا یذبحون البقرۃ والبعیر عن سبعۃ‘‘ (المحلی ، کتاب الاضاحی : ۶؍۴۷ ، مسئلہ نمبر : ۹۸۴) ’’ ہم نے رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم کے بہت سے صحابہ کو دیکھا ہے کہ وہ سات افراد کی طرف سے ایک گائے یا ایک اونٹ کی قربانی کیا کرتے تھے ‘‘ — ظاہر ہے کہ آپ صلی الله علیه وآله وسلم خود بھی قربانی فرمایا کرتے تھے ؛ لیکن آپ کے ساتھ ساتھ حضرت فاطمہ ؓ نے بھی قربانی کی ہے اور اس موقع پر آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے ان کو تلقین فرمائی کہ اے فاطمہ ، اپنی قربانی کے پاس موجود رہو کہ اس جانور کے خون کے پہلے قطرے کے ساتھ تمہارے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے : ’’ یا فاطمۃ ! قومی إلی أضحیتک فاشھدیھا فإنہ یغفر لک عن اول قطرۃ تقطر من دمھا کل ذنب عملتیہ‘‘ (مستدرک حاکم ، کتاب الاضاحی ، حدیث نمبر : ۷۵۲۴) —غور کیجئے کہ ایک تو حضور صلی الله علیه وآله وسلم کے قربانی کرنے کے باوجود حضرت فاطمہؓ نے بھی قربانی کی ، دوسرے : رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم نے اس کو خاص حضرت فاطمہ کی قربانی قرار دیا نہ کہ ان کے پورے گھر کی ؛ اس لئے ایسی عبادت جو سال بھر میں ایک ہی واجب ہوتی ہے ، میں تساہل کو راہ نہ دینا چاہئے اور جو شریعت کا حکم ہے ، اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے ۔
اگر مکان بنانے کی زمین ہے تو کیا اس پر قربانی واجب ہے ؟
سوال:- میرے پاس ذاتی مکان نہیں ہے ، میں کرایہ کے ایک مکان میں رہتا ہوں ، بڑی مشکل سے ایک زمین حاصل کی ہے ؛ تاکہ اس پر مکان بناؤں ، اس زمین کی قیمت مقدار نصاب کو پہنچ جاتی ہے ، اس کے علاوہ میرے پاس کوئی زائد مال نہیں ہے تو کیا ایسی صورت میں مجھ پر قربانی واجب ہوگی ؟ (امیر معاویه، شیخ پیٹ)
جواب :- مکان بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے ، اگر کسی شخص کے پاس مکان نہ ہو تو مکان کے لئے خریدی ہوئی زمین جس پر ابھی تعمیر نہیں ہوئی ہے بھی اس کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے ، جیساکہ اگر کوئی شخص کاشت کار ہو ، یہی اس کا ذریعۂ معاش ہو اور اس کے پاس اتنی ہی زمین ہو کہ جس سے اس کی ضروریات خورد و نوش پوری ہوتی ہوں تو اس کو حاجت اصلیہ یعنی بنیادی ضرورت کا درجہ دیا گیا ہے : ’’وعلی ھذا الکرم والأرض ولا یعتبر ما قیمتہ نصاحب من قوت شھر بلا خلاف عندنا‘‘ ( مجمع الانہر : ۱؍۳۳۵ ، باب صدقۃ الفطر ، دارالکتب العلمیۃ ، بیروت ) — البتہ جتنی زمین ضروری حد تک مکان کے لئے مطلوب ہے ، اگر اس سے زیادہ زمین ہو اور وہ زیادہ حصہ نصاب زکوٰۃ کی قیمت کو پہنچ جاتا ہو تو پھر قربانی واجب ہوگی : ’’ ولو کان لہ دار واحدۃ یسکنھا وفضلت عن سکناہ یعتبر الفاضل إن کانت قیمتہ نصابا‘‘۔(مجمع الانہر :۱؍۳۳۴، کتاب الزکوٰۃ ، باب صدقۃ الفطر ، دارالکتب العلمیہ ، بیروت )
گائے کی قربانی
سوال:- آپ کو معلوم ہے کہ مہاراشٹر میں نہ صرف گائے ؛ بلکہ تمام بڑے جانوروں کے ذبیحہ پر امتناع عائد ہے اور گائے کے سلسلے میں تو ظلم و زیادتی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ، ان حالات میں گائے کی قربانی کا کیا حکم ہے ؟ (محمد شاداب، ملك پیٹ)
جواب :- گائے کے حلال ہونے کی صراحت قرآن مجید میں بھی موجود ہے ، ( انعام : ۱۴۳) اور حدیثیں تو اس سلسلے میں بکثرت ہیں ؛ بلکہ گائے بیل کی قربانی کا ذکر بھی حدیث میں موجود ہے ، کہ آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے ایک گائے کو سات افراد کی طرف سے کافی قرار دیا ، ( سنن ترمذی ، حدیث نمبر : ۱۵۳۸) — اس لئے اُصولی طورپر مسلمانوں کے لئے یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ ان کے لئے گائے کا گوشت یا گائے کی قربانی کو ممنوع قرار دیا جائے ؛ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حلال کیا ہو ، نہ مسلمان اس کو حرام کرسکتا ہے اور نہ اس کے حرام کئے جانے کو قبول کرسکتا ہے ؛ لیکن امن و امان کو قائم رکھنا بھی ضروری ہے ، یہ بھی ضروری ہے کہ نفرت کا ماحول پیدا نہ ہونے پائے ، نیز اس ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے قانون کا احترام بھی ضروری ہے ، اس پس منظر میں ہمیں ایک طرف قانون کی خلاف ورزی سے اجتناب کرنا چاہئے ، دوسری طرف پُر امن طریقہ پر قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے بیف سے متعلق قانون میں تبدیلی کی کوشش کرنی چاہئے ؛ البتہ مسلمانوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگرچہ قانون شکنی سے بچتے ہوئے ہم گائے کی قربانی سے بچیں گے ؛ لیکن کسی چیز کے قانونی طورپر ممنوع ہونے کی وجہ سے وہ حرام نہیں ہوجاتی ؛ کیوںکہ حلال و حرام کا فیصلہ کرنا حکومتوں کا حق نہیں ہے ، احکم الحاکمین کا حق ہے ۔
ایصالِ ثواب کے طورپر کئی افراد کی طرف سے ایک حصہ
سوال:- اگر اپنے کئی بزرگوں کی طرف سے قربانی کرنی ہو ، مثلاً : والد ، والدہ ، دادا ، دادی ؛ لیکن اتنے حصے لینے کی گنجائش نہ ہو تو مجھے کس کو ترجیح دینا چاہئے ؟ (محمد عرفان، معین آباد)
جواب :- ایصالِ ثواب کے طورپر جو قربانی کی جاتی ہے ، وہ نفل قربانی ہے ، اس میں ایک قربانی کئی افراد کی طرف سے بھی کی جاسکتی ہے؛ کیوںکہ رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم نے دو مینڈھے ذبح کئے ، ایک : اپنی طرف سے اور اپنی آل کی طرف سے ، اور دوسرا : پوری اُمت کی طرف سے ، (سنن ابن ماجہ ، عن ابی ہریرہ ، باب اضاحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث نمبر : ۳۱۲۲) — چنانچہ ایصالِ ثواب کے سلسلے میں یہ عمومی اُصول ہے کہ ایک عمل کا ایصال کئی افراد کو کیا جاسکتا ہے مشہور فقیہ اور مصلح حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒنے بھی یہی فتویٰ دیا ہے ۔ ( دیکھئے : امداد الفتاویٰ : ۳؍۵۷۳)
بڑا جانور خریدے اور بعد میں لوگوں کو شریک کرلے
سوال:- اگر کوئی شخص قربانی کی نیت سے بڑا جانور خرید کرے ، اس وقت اور لوگوں کو شریک کرنے کی بات ذہن میں نہیں تھی ، بعد میں کچھ اور حضرات مل گئے تو کیا ان کو قربانی میں شریک کرسکتا ہے؟(نادر حسین، مهدی پٹنم)
جواب :- صرف ارادہ کرنے کی وجہ سے ایسے شخص کے لئے جس پر قربانی واجب ہے ، پورے جانور کی قربانی واجب نہیں ہوجاتی ، ہاں اگر اس نے پورے جانور کی قربانی کی نذر مانی ہو ، یا ایسا شخص ہو جس پر قربانی واجب نہیں ہو ؛ لیکن اس نے اپنی طرف سے پورے جانور کی قربانی کی نیت سے اس کو خرید کرلیا تو ان دونوں صورتوں میں اس پر پورے جانور کی قربانی واجب ہوگی ؛ لہٰذا جس شخص نے قربانی کے ارادہ سے جانور خرید کیا ہے ، اگر وہ صاحب استطاعت ہے اور اس پر پہلے سے قربانی واجب ہے تو اس کے لئے بعد میں مزید چھ لوگوں کو شریک کرنے کی گنجائش ہے : ’’ و إذا اشتریٰ الرجل بقرۃ أو بعیراً یرید أن یضحی بھا عن نفسہ ثم اشترک فیھا ستۃ بعد ذلک ، القیاس أن لا یجزیھم ، ویصیر الکل لحما ، وفی الاستحسان یجزیھم‘‘۔ (تاتار خانیہ ، کتاب الاضحیۃ : ۱۷؍۴۵۱)
بھینس کی قربانی
سوال:- اس سال قانوناً گائے پر پابندی لگ گئی ہے ، کیا ایسی صورت میں بھینس کی قربانی دی جاسکتی ہے ، بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضور صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانے میں بھینس کی قربانی نہیں دی گئی ، وضاحت فرمائیے ؟ (خورشید انور، جالنه)
جواب :- بھینس چوںکہ پالتو جانور ہے ، حلال ہے اور اپنے حجم کے اعتبار سے گائے بیل کے مشابہ ہے ؛ اسی لئے اس کی قربانی جائز ہے، عرب میں بھینس نہیں ہوا کرتی تھی ؛ اس لئے میرے علم کے مطابق رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانے میں بھینس کی قربانی یا بھینس کے ذبیحہ کا ذکر نہیں ملتا ؛ لیکن اندازہ ہے کہ جب روم و ایران کا علاقہ فتح ہوا ہوگا ، اس وقت مسلمانوں نے بھینسوں کی پرورش اور ان کی خرید وفروخت شروع کی ہوگی اور ان کے ذبیحہ اور قربانی کا عمل ہونے لگا ہوگا ؛ اسی لئے حسن بصریؒ جو ایک جلیل القدر تابعی ہیں اور جنھوںنے بہت سے صحابہ کو دیکھا ہے ، انھوںنے فرمایا کہ بھینس ، گائے بیل کے درجے میں ہے : ’’ الجوامیس بمنزلۃ البقر‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ : ۷؍۶۵ ، کتاب الزکوٰۃ ، باب فی الجوامیس تعد فی الصدقۃ ، حدیث نمبر : ۱۰۸۴۸) فقہاء نے بھی صراحت کی ہے کہ گائے یا بیل کی جگہ بھینس کی قربانی کی جاسکتی ہے اور یہ اسی جنس سے ہے ؛ چنانچہ علامہ کاسانیؒ فرماتے ہیں : ’’ الجاموس نوع من البقر بدلیل أنہ یضم ذلک إلی الغنم والبقر فی باب الزکوٰۃ‘‘ (بدائع الصنائع ، کتاب الاضحیۃ : ۴؍۲۰۵) نیز علامہ عبد الرشید طاہر بخاری لکھتے ہیں کہ گائے بیل ہی کی طرح بھینس میں سات حصہ ہوں گے : ’’ الجاموس یجوز فی الضحایا والھدایا استحسانا‘‘ ۔ ( خلاصۃ الفتاویٰ : ۴؍ ۳۱۴)
عیب دار بکرے کی نفل قربانی
سوال:- زید پر قربانی واجب نہیں ہے ؛ لیکن اس نے اس ارادہ سے بکرا پال رکھا ہے کہ وہ بقرعید میں اس کی قربانی کرے گا ؛ مگر اتفاق ایسا ہوا کہ کتے نے اس پر حملہ کردیا اور آدھے سے زیادہ کان کاٹ لیا ، اب اس کو کیا کرنا چاہئے ، جب کہ دوسرا جانور خریدنے کی استطاعت نہیں ؟ ( محمد مبشر، حمایت نگر)
جواب :- زید کے لئے اسی حالت میں اس جانور کی قربانی کردینا جائز ہے ، قربانی کے جانور کا عیب دار نہ ہونا اس وقت ضروری ہے جب کہ واجب قربانی کی جائے ، نفل قربانی کے لئے یہ ضروری نہیں ، اور جس شخص پر قربانی واجب نہیں ، اس کی قربانی نفل قربانی ہے : ’’ ثم کل عیب یمنع الأضحیۃ ففی حق المؤسر یستوی أن یشتریھا کذلک ، أو یشتریھا وھی سلیمۃ فصارت معیوبۃ بذلک العیب لا یجوز علی کل حال ، وفی حق المعسر یجوز علی کل حال ‘‘ ۔ (فتاویٰ تاتار خانیہ : ۱۷؍۴۳۳)
Comments are closed.