محمد سعیدی:گمان تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

🖋️ـــ احمد بن نذر
لفظ یا چند الفاظ کا مرکب ہے:”ناقابل تلافی نقصان“،یہ نیا ہے
نہ غیر مانوس،پہلی بار دیکھا نہ پہلی بار سنا،عام تحریروں میں بھی پڑھا اور شخصی مضامین میں بھی،یہ عام بھی ہے اور سوانحی مضامین میں پائمال بھی،بار بار لکھا اور برتا گیا،اس قدر کہ رفتہ رفتہ تقریباً ہر تعزیتی تحریر کا ایک حصہ سا ہو گیا،مگر اس لفظ کی گہرائی اور معنویت کا اندازہ اپنے محسن،بہی خواہ،سرپرست،مشیر،رہ نما،استاذ،مہربان ”مولانا محمد سعیدی“کے اچانک رخت سفر باندھ لینے کی خبر کلفت اثر سے ہوا۔
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی
مظاہر علوم وقف،پہلے ہی صف اول کے اساتذہ سے یکےبعد دیگرے اس تیزی سے محروم ہوتا گیا کہ ابھی ایک کی تعزیت کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ دوسرے نے سلام الوداع کہہ کے رخصت لی،ایک حادثے سے سنبھلنے نہ پائے تھے کہ دوسرے سانحے نے دستک دے دی،فقیہ الاسلام مفتی مظفر حسین کے بعد شیخ الادب مولانا اطہر حسین،علامہ عثمان غنی،مولانا رئیس الدین بجنوری،مولانا نثار احمد مظاہری،مولانا محمد یعقوب سہارن پوری،اور جانے کون کون اور کیسی علمی ہستیوں نے آنکھیں موند لیں کہ پہلے ہی مظاہر علوم کے در و بام اپنی اس محرومی پر نوحہ کناں تھے،درس گاہیں غم و یاس کی تصویر بنے اپنے زمزموں اور ہمہموں سے آباد کرنے اور رکھنے والوں کو خموشی کی چادر اوڑھتے اور تانتے دیکھتی رہیں،قدموں کی دھمک اور لفظوں کی کھنک سے فضاؤں کو معمور و مسحور کرنے والے لہجوں کو سکوت کے صحرا میں گم ہونے کی شاہد بنتی رہیں۔
مگر ان کے بعد بھی ”محمد سعیدی“ایک ایسا نام تھا،ایک ایسا شخص تھا،ایک ایسی ذات تھی کہ جس کے دم سے آس کا چراغ کا روشن،امیدوں کی لو قائم اور آرزوؤں کی دنیا باقی تھی،یوں محسوس ہوتا تھا کہ اکابر کی امانت ان کی روایتوں کے امین اور پاک باز و معمار ساز ہاتھوں میں ہے۔اکابر کی صحبتوں سے مجلی ٰ ہونے والے قلوب،ان کی زیارت سے مشرف ہونے والی نگاہیں اور مصافحے سے معنبر ہونے والے دست ہائے بخت رسا مطمئن تھے کہ:
جس بزم میں ساغر ہو نہ صہبا ہو نہ خم ہو
رندوں کو تسلی ہے کہ اس بزم میں تم ہو
لیکن:
آئی خزاں چمن میں،گئے دن بہار کے
ہائے ہائے! وائے وائے! یا اسفاہ!ایسے اتنی جلدی،اتنا اچانک،یک بارگی،لحظہ بھر میں،یک بہ یک مظاہر کی مسند اشک بار اور منصب سوگوار ہو جائےگا،یہ تصور ذہن کے کسی دور دراز گوشے اور کونے کھدرے میں بھی نہ تھا،نہ ہو سکتا تھا اور نہ ہی ہونا چاہیے تھا۔
چشم ہائے تخیل وا ہیں،مظاہر کے علمی جہان میں ایک ماتم بپا ہے،ذرہ ذرہ مصروف آہ و بکاء ہے،یہ نقصان وہ ہے کہ جس کی بھرپائی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی،خسارہ ایسا کہ کتاب زندگی کے گوشوارے کا حاصل ہے۔جگہیں،مناصب،عہدے پُر کر لیے جاتے ہیں کہ یہی رسم دنیا ہے،لیکن وہ خلاء جو رہ گیا،مظاہر میں بھی اور ہمارے دل و نگاہ میں بھی،شاید کبھی بھر نہ پائے۔
ایک ہو کا عالم ہے،ایک ایسا سناٹا جہاں بہت دور تک قدموں کے چاپ کا امکان بھی نہیں ہے،ایک بے انت اندھیرا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا ہے،بدلیاں ہیں لیکن تیرہ بھی تار بھی،ظلمتوں کا صحرا ہے جہاں نخل تمنا ہری ہونے کا خیال بھی مضحکہ خیز ہے،ہموم کا ایک جنگل ہے جہاں کی ویرانیاں بال کھولے سو رہی ہیں،وہ اداسیاں ہیں کہ شہر علم سائیں سائیں کر رہا ہے۔
ذہن کام کر رہا ہے نہ عقل ساتھ دے رہی ہے،شعور کا کچھ پتہ ہے نہ سوچ اپنے اختیار میں ہے،دماغ کی پرتیں منجمد سی لگ رہیں اور دل کی دنیا میں اتھل پتھل مچی ہوئی ہے،ایسے میں کوئی کیا لکھے؟کیا کہے؟کیا بولے؟بس دکھی من سے بادل ناخواستہ وہی کہنا پڑ رہا ہے،جس کا حکم ہے،کہ ہم اسی امر کے مامور،اسی حکم کے محکوم اور اسی فرمان کے مسئول ہیں:
”آنکھ اشک بار ہے،دل رنجور ہے مگر زبان سے ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے رب کو پسند ہے،بے شک اے محمد! ہم آپ کی جدائی سے غمگین ہیں۔“
Comments are closed.