قربانی صرف اللہ کے لئے کریں!

 

✍️امجد صدیقی

 

قربانی سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے، خواہ وہ کسی بھی چیز کی قربانی ہو، اللہ تعالی سے محبت کے دعوے کرنے والوں کے لئے قربانی کوئی انوکھا اور غیر متعارف عمل نہیں ہوتا ہے،بلکہ مومن کی ابتداء تا انتہا مکمل زندگی قربانی سے عبارت ہوتی ہے،جسے آنکھ اور دل والے احساس کرنے کے ساتھ دیکھ بھی لیتے ہیں، لیکن جنہیں معرفت الہی حاصل نہیں ہوتی،وہ عین وقت قربانی نہ دے کر تاویل کر کے نکل جاتے ہیں ! ذوالحجہ کا مہینہ حج کے مہینے کے ساتھ جانوروں کو اللہ کے راستے قربان کرنے کا بھی مہینہ ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو اللہ کے نذدیک خون بہانے سے زیادہ کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے ! اس حدیث پر لبرلوں اور غیروں کی پوری جھنڈ ٹوٹ پڑی ہے اور ہمیشہ پڑتی ہے ! کہا جاتا ہے کہ خون بہانا کیونکر پسندیدہ عمل ہوسکتا ہے؟ یہ عقلی اور طبعی ناپسندیدہ عمل ہے؟ پھر بھی اس بے جاسوال کے لاکھوں عقلی جوابات دئے گئے ہیں اور ہمیشہ دئے جاتے ہیں، میں تو صرف اتنا کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ ہمیں اللہ کی طرف سے خون بہانے کا حکم ہے، سو میں بہاتا ہوں ! ہمیں اللہ سے عشق ہے ،اس کے رسول سے محبت ہے اور ہم اپنے حبیب کے لئے خود بھی قربان ہوسکتے ہیں اور جانوروں کو بھی قربان کر سکتے ہیں ! ہمیں کسی معقول وجہ اور فطری اصول کی ضرورت نہیں ہے ! فطری اصول آپ وضع کرتے ہیں؟ معقول وجہ صرف آپ اور آپ جیسوں کے لئے درست ہوتی ہے! دنیا میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو آپ کی معقولیت کو غیر معقولیت سمجھتے ہیں،اور کتنے ایسے لوگ ہیں جن کی معقولیت آپ کے نذدیک غیر معقول ہوتی ہے؟اور پھر ہم دنیا کے اصول کے پابند نہیں ہیں ،ہم نے عقلی اصول کو شرعی اصول پر نہ کل ترجیح دی تھی اور نہ آج دیں گے ،ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی ہیں، ان کے دیوانے ہیں ، وہ جو کہیں گے وہ ہم بنا اصول کے کر گزریں گے اور جس سے منع کریں گے وہ لاکھ معقول ہونے کے باجود ہم نہیں کر سکتے !

قربانی کا مفہوم بہت وسیع ہے، ہم پیدا ہی اس لئے ہوئے کہ وقت بوقت اللہ اور اس کے رسول کے لئے قربانی پیش کرتے رہیں، یہ عید تو ہمیں قربانی کے ریہرسل اور یاد دہانی کے لئے آتی ہے ،تاکہ مسلمان جس طرح سال میں ایک مرتبہ جانوروں کو قربان کرے اسی طرح مسلمانوں میں اللہ کے لئے تمام چیزوں کی قربانی کا جذبہ بیدار اور متحرک ہو،

لیکن افسوس کہ عید الاضحی کو فقط جانور قربان کرنے اور گوشت کھانے کا ایک مخصوص دن بنا دیا گیا ہے، اور وہ بھی اللہ کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کے لئے ، پڑوس میں اپنی حیثیت بڑھانے کے لئے،

اب تو ایسا عمل شروع ہوگیا ہے کہ لوگ قربانی صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے کر رہے ہیں، ہماری پہچان اور تعلق کے ایک حاجی صاحب ہیں ! وہ کہ رہے تھے کہ میں نے ساٹھ ہزار کا جانور لیا ،لیکن میری بیوی کو پتا چلا کہ ان کے ہمسایہ نے ایک لاکھ کا جانور خریدا ، پھر مانو میری بیوی کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ،حیران پریشان ہوکر مجھے طعنہ دینے لگ گئی کہ وہ ہمارے پڑوسی جس کی ایک کوڑی کی حیثیت نہیں ہے اور ایک لاکھ کی قربانی کر رہا ہے ،ہمیں تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئے! یہ ہمارے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ تہذیب یافتہ معاشرے کا حال ہے ،بلکہ گھر گھر کا یہی حال ہے ! ایسی قربانیاں، ثواب کے بجائے گناہ کے باعث ہوتی ہیں! ایسی عبادتوں کو اللہ منھ پہ مار دیتا ہے ! اللہ تعالی کا صاف فرمان ہے کہ ، تمہاری قربانی کا نہ گوشت مجھ تک پہونچتا ہے اور نہ خون ‘ بلکہ صرف تمہارا تقوی پہونچتا ہے ،تمہاری نیت پہونچتی ہے ،تم کس نیت سے جانور قربان کر رہے ، تم کس مفاد میں مال خرچ کر رہے ہو، وہ سب اللہ جانتا ہے، یہ بات بھی مسلم ہے کہ اسلام میں کوئی بھی عبادت خلوص کے بنا اہمیت نہیں رکھتی ہے،چاہے آپ قائم اللیل ہو یا صائم النہار، اگر خلوص نہیں ہے تو اللہ کی نظر میں آپ کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہے ! عبادت کی روح خلوص اور للہیت ہے، اور روح کے بغیر صرف جسم کسی کام کا نہیں ہوتا!

خدا را آپ اپنی محنت اور خون پسینے کی کمائی کو دکھاوے میں ضائع نہ کریں؟ آپ اپنی قربانی کو خالص اللہ کے لئے کریں ؟

لوگوں کا کیا ،وہ بھی آپ ہی کی طرح اسی ذات کے حکم کی تعمیل میں قربانی کرتا ہے کوئی اچھا کہے یا برا۔ آپ کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے !اگر آپ باحثییت ہیں تو قربانی کریں ورنہ کوئی بات نہیں ! آج کل دیکھا یہ جا رہا ہے کہ قرض دار ہیں ،گھر میں نوبت فاقہ کشی تک پہونچی ہوئی ہے ،پھر بھی قرض لے کر قربانی کر رہے ہیں !یہ شریعت کے مزاج و مذاق کے خلاف ہے ! آپ گھر کی دوسری ضرورتوں کو ترجیح دیجئے، جب آپ کی حیثیت نہیں ہے تو قربانی بھی آپ کے ذمہ نہیں ہے، آپ کو ایسی صورت حال میں شریعت نے پابند نہیں کیا ہے، شریعت آپ کے لئے بوجھ نہیں ہے ،بلکہ شریعت کے نفاذ سے تو سہولتیں فراہم ہوتی ہیں !

اسی طرح سے قربانی کرنے والا مکمل طور پر جانور کا مالک ہوتا ہے! وہ پورا گوشت اپنے ہی استعمال میں لائے تو کوئی حرج نہیں ہے ،البتہ غرباء و مساکین اسی طرح اعز واقارب میں تقسیم کرنا پسندیدہ عمل ہے !

اخلاقی طور پہ بہتر یہ ہے کہ جو بے حیثیت ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں کر رہے ہیں ،ان تک گوشت پہونچا دیا جائے ، تاکہ عید کی خوشیاں ہر ایک کو برابر حاصل ہوں ، قربانی میں تقوی مقصود و مطلوب ہے ،بلکہ تمام عبادتوں میں خلوص ہی مقصود ہے ! البتہ قربانی جیسی عبادت میں دکھاوے اور ریاکاری آسانی سے داخل ہوگئی ہے ،جسے دور کرنا ہر ایک کی انفرادی ذمہ داری ہے !

اللہ تعالی ہمیں قربانی میں خلوص عطا فرمائے آمین

Comments are closed.