عید قرباں سے ہمیں کیا پیغام ملتا ہے؟

مولانا محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔
استاذ مدرسہ نورالاسلام کنڈہ پرتاب گڑھ یوپی
عید قرباں کی دوگانہ (نماز) سے ہم سب فارغ ہو کر اپنے اپنے گھر لوٹ چکے ہیں ،ایک دوسرے سے ملاقات کے بعد ہم میں سے جو صاحب نصاب ہیں، وہ اپنے اپنے جانوروں کی قربانی میں مشغول ہیں ، آج خیرات و صدقات میں وہ اجر و ثواب نہیں ہے، جو راہ خدا میں جانور کو قربان کرنے میں ہے ، قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے نہیں پاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے خلوص کے ساتھ کئے ہوئے قربانی کو قبول فرما لیتے ہیں، بس شرط یہ ہے کہ یہ قربانی خلوص ،للہیت، دل کے صحیح جذبے اور کیفیت کیساتھ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی اتباع میں ہو ، اور یہ ذہن میں رہے کہ شعار براہیمی کو ہمیں ژندہ رکھنے کے لئے یہ قربانی دینی ہے۔
گوشت تو ہم سال بھر کھاتے ہیں اور جانور تو روز ذبح ہوتے ہیں ،لیکن اس جانور میں اور اس کے گوشت میں عبادت ، خلوص جانثاری اور فدا کاری کے جو جذبات اور عکس ہوتے ہیں،وہ اور دنوں کے جانور اور گوشت میں نہیں پائے جاتے ہیں ۔
قربانی کا اصل پیغام یہ ہے کہ ہمارا مزاج قربانی والا بنے اور ہم دین کی سربلندی اور شریعت کی حفاظت کے لئے سب کچھ لٹا دینے کا اپنے اندر جذبہ محسوس کریں ۔
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے ، ان کی زندگی ابتلاء آزمائش اور قربانی سے بھری پڑی ہے ، قربانی میں ہمیں یہ سبق دیا جاتا ہے کہ ہم بھی مزاج براہیمی اور ذوق خلیلی اپنے اندر پیدا کریں ۔
قربانی تقرب الٰہی کی ایک علامت ہے ،جس میں مومن یہ عہد کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے آگے ہمہ وقت سر جھکانے کے لیے تیار ہے ،اور اس کے حکم پر نفس کو قربان کرنے کے لئے تیار ہے ۔یاد رہے کہ جب تک دل میں خدا کا خوف نہیں ہوگا اور اللہ کی مرضی پر سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا، اس وقت تک قربانی قبول نہیں ہوتی، رسم ادا ہوسکتی ہے ،سنت ادا نہیں ہوتی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں روح والی قربانی درکار ہے ، رسم والی قربانی نہیں ،کیونکہ رسم و رواج والی قربانی سے حالات نہیں بدلتے ،جب تک کہ روح والی قربانی نہ ہو ۔ اور آج سب سے بڑا خلا اور نقص ہمارے اندر یہی ہے کہ ہمارے اندر قربانی کا جذبہ تو ہے ،لیکن وہ قربانی روح سے خالی اور عاری ہے ۔
ایک صاحب دل نے قربانی کے پیغام کو بڑے درد سے بیان کیا ہے ، اسے گوش دل سے پڑھئے اور اندر تک اتارنے کی کوشش کی کیجئے ، وہ صاحب درد لکھتے ہیں:
” اے امت مسلمہ ، عید الاضحی کا یہ بابرکت دن ہمارے سامنے ایک عظیم پیغام لے کر کھڑا ہے۔ یہ دن محض جانور کی قربانی کا نہیں، بلکہ اپنی سب سے عزیز چیز کو اللہ کی رضا کے لیے پیش کرنے کا دن ہے۔ یہ وہ مبارک موقع ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کا عزم کیا، اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کہا: یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ یعنی "اے میرے باپ! جو حکم دیا گیا، اسے پورا کریں۔” یہ قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کی رضا ہر چیز سے بالاتر ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ جب ہم اپنی خواہشات، اپنا نفس، اور اپنی سہولتیں اللہ کے راستے میں قربان کرتے ہیں، تو اللہ ہمیں عزت، کامیابی، اور سربلندی سے نوازتا ہے۔آج، جب ہندوستان سے لے کر عالم اسلام تک ہماری امت پریشانیوں سے گھری ہوئی ہے، یہ قربانی کا پیغام ہمارے لیے ایک للکار ہے۔ ہندوستان میں ہماری شناخت پر حملے ہو رہے ہیں، ہمارے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں، اور پوری دنیا میں ہمارے بھائی بہن معاشی کمزوری، سماجی ناانصافی، سیاسی بے بسی، اور دینی کمزوری کا شکار ہیں۔ لیکن کیا ہم چپ چاپ یہ سب برداشت کریں گے؟ کیا ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے اپنی امت کی زبوں حالی دیکھتے رہیں گے؟ نہیں! یہ وقت خاموشی کا نہیں، یہ وقت غیرت کو جگانے کا ہے! یہ وقت اپنے جذبے کو شعلہ بنانے کا ہے! یہ وقت قربانی دینے کا ہے—ایسی قربانی جو ہماری امت کو دوبارہ سربلند کرے!قربانی کا پیغام اور اس کے فائدے
قربانی کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی سب سے عزیز چیز کو قربان کرنا ایمان کی علامت ہے۔ یہ ہمیں اللہ کے قریب لاتی ہے، ہمارے دل سے خود غرضی اور لالچ کو نکالتی ہے، اور ہمیں دوسروں کے لیے جینا سکھاتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا
یعنی "جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے راستہ نکال دیتا ہے۔”
قربانی ہمیں عظیم مقصد کے لیے جینے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ ہمیں اپنی کمیونٹی کی خدمت کے لیے اٹھنے کی ہمت عطا کرتی ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ جب ہم اپنی ذات سے بلند ہوتے ہیں، تو اللہ ہمیں وہ طاقت دیتا ہے جو پہاڑوں کو ہلا دیتی ہے۔ آج ہمیں اس قربانی کے جذبے کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی امت کی حالت بدل سکیں۔قربانی سے سیکھنے والے سبق اور ہماری ذمہ داریپہلا سبق: نفس پر قابو پاؤ، غیرت کو بیدار کرو!
قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ سب سے بڑی جیت اپنے نفس پر قابو پانا ہے۔ آج ہمارا سب سے بڑا دشمن ہمارا اپنا نفس ہے، جو سستی، کاہلی، حسد، اور تفرقے کی طرف لے جاتا ہے۔ ہندوستان میں ہماری امت مسلکی، لسانی، اور علاقائی اختلافات کی وجہ سے کمزور ہو رہی ہے۔ کیا ہم بھول گئے کہ ہم اس دین کے وارث ہیں جس نے صحراؤں کو جنت بنا دیا تھا؟ قرآن کی یہ آواز سنو:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا
یعنی "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔”
اے امت کے شیر! اپنے نفس کی زنجیریں توڑو! اپنی غیرت کو جگاؤ! اپنے دل سے خوف اور خود غرضی کو نکال دو! یہ وقت چھپنے کا نہیں، یہ وقت میدان میں نکلنے کا ہے! اپنی امت کی عزت کو بحال کرنے کے لیے اٹھو، اور اپنے نفس کی قربانی دو!دوسرا سبق: وقت اور دولت کو اللہ کی راہ میں لگاؤ!
قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اپنا وقت اور دولت اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ آج ہماری کمیونٹی تعلیم سے محروم، معاشی طور پر کمزور، اور سماجی طور پر منتشر ہے۔ عید الاضحی کا گوشت تقسیم کرنا سنت ہے، لیکن اس سے بڑھ کر ہمیں اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو اپنی امت کی بہتری کے لیے وقف کرنا ہوگا۔ اگر تم ڈاکٹر ہو، تو غریبوں کا مفت علاج کرو! اگر تم استاد ہو، تو اپنی گلی کے بچوں کو پڑھاؤ! اگر تم صاحب حیثیت ہو، تو اپنی دولت سے مساجد، مدرسوں، اور فلاحی اداروں کو مضبوط کرو! یہ وقت اپنی ذات کے لیے جمع کرنے کا نہیں، یہ وقت امت کے لیے دینے کا ہے! اپنا وقت، اپنی دولت، اور اپنی ہمت اللہ کی راہ میں قربان کرو، اور دیکھو کہ اللہ تمہیں اس کا کتنا عظیم بدلہ دیتا ہے!تیسرا سبق: جہالت اور تعصب کے اندھیروں کو علم کے نور سے ختم کرو!
قربانی ہمیں بتاتی ہے کہ اپنی کمزوریوں کو قربان کرو اور طاقت حاصل کرو۔ آج جہالت ہماری امت کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ہمارے بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم سے محروم رکھنا ہماری سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اپنے بچوں کو قرآن سکھاؤ، لیکن ساتھ ہی سائنس، ٹیکنالوجی، اور جدید علوم سے بھی آراستہ کرو تاکہ وہ دنیا میں سر اٹھا کر چلیں! جہالت کے اندھیروں کو علم کے نور سے ختم کرو!
اور ہاں، ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک میں ہمیں تعصب اور نفرت کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔ اپنے عمل سے دکھاؤ کہ اسلام امن، محبت، اور رواداری کا دین ہے۔ اپنی زبان سے نفرت نہیں، محبت پھیلاؤ! اپنے کردار سے نفرت کی دیواروں کو گراؤ اور محبت کے پل بناؤ! یہ قربانی کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی تنگ نظری کو قربان کریں اور اپنی امت کو عزت اور وقار سے روشناس کرائیں۔چوتھا سبق: ایمان کو مضبوط کرو، اللہ کی مدد مانگو!
قربانی کا سب سے عظیم سبق یہ ہے کہ ایمان ہی ہماری اصل طاقت ہے۔ آج ہمارا ایمان دنیاوی فتنوں کی وجہ سے کمزور پڑ رہا ہے۔ ہماری نمازیں کمزور ہو رہی ہیں، ہمارے کردار پر دھبے لگ رہے ہیں۔ لیکن یاد رکھو، اللہ کی مدد اسی وقت آتی ہے جب ہم اپنے ایمان اور عمل کو درست کرتے ہیں۔ قرآن پاک کی یہ آواز سنو:
إِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّیٰ یُغَیِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِھِمْ
یعنی "اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔”
اپنی نمازوں کو مضبوط کرو، اپنے کردار کو سنوارو، اپنے دل کو اللہ کی طرف موڑو۔ جب تمہارا ایمان مضبوط ہوگا، تو کوئی طاقت تمہیں شکست نہیں دے سکتی!آخری للکار: امت کے لیے جیو، امت کے لیے مر جاؤ!
اے امت مسلمہ کے جانبازو! عید الاضحی ہمیں للکار رہی ہے کہ اپنی ذات سے نکلو اور اپنی امت کے لیے جیو! قربانی کا یہ جذبہ ہمارے اندر غیرت، ہمت، اور عزم بھرے۔ یہ وقت بیٹھنے کا نہیں، یہ وقت اٹھنے کا ہے! یہ وقت خاموشی کا نہیں، یہ وقت اپنی آواز بلند کرنے کا ہے! اپنی امت کی سربلندی کے لیے اپنا وقت، اپنی دولت، اپنا علم، اور اپنا ایمان قربان کرو! آؤ، اس عید پر عہد کریں کہ ہم اپنی امت کی عزت کو بحال کریں گے۔ ہم اپنے بچوں کو علم دیں گے، اپنی کمیونٹی کو مضبوط کریں گے، اور اپنے کردار سے دنیا کو دکھائیں گے کہ اسلام امن و محبت کا دین ہے!
اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم قربانی کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ ہمارا عزم ہو، یہ ہماری للکار ہو، یہ ہماری امت کی پکار ہو!اللہ اکبر! اللہ اکبر! لا إله إلا اللہ واللہ اکبر!”
Comments are closed.