قربانی میں تقویٰ کی خوشبو کیوں باقی نہیں رہی؟

️ از: جاوید اختر قاسمی قاسمی
قربانی، محض ایک جانور کا ذبح کرنا نہیں بلکہ ایک روحانی عمل ہے، جو خالصتاً اللہ کے لیے محبت، اخلاص، اور تقویٰ کے جذبے سے لبریز ہونا چاہیے۔ قرآن مجید کی وہ آیت ہمیشہ سامنے رکھنی چاہیے:
"لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ”
(سورہ الحج: 37)
"اللہ کو نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں، نہ ان کے خون، بلکہ اسے تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔”
مگر سوال یہ ہے کہ آج ہماری قربانیوں میں وہ تقویٰ، وہ روحانیت، وہ خوشبو کیوں باقی نہیں رہی جو اس عمل کا اصل مغز تھا؟
قربانی اب ایک "سماجی اسٹیٹس” کا مظاہرہ بن چکی ہے۔ جانور کی قیمت، وزن، نسل، اور خوبصورتی کو اس طرح نمایاں کیا جاتا ہے کہ گویا ہم عبادت نہیں، نمائش کر رہے ہوں۔
وہ عمل جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت، فدائیت، اور اللہ کے حکم پر مکمل سر تسلیم خم کی علامت تھا، آج نمائش، ریاکاری، اور تصویروں کا میلہ بن چکا ہے۔
جہاں کہیں سوشل میڈیا پر "قربانی کے جانور کے ساتھ سیلفی”، "ہماری بکرا پارٹی”، "سب سے مہنگا بیل” جیسے عنوانات دکھائی دیتے ہیں، وہاں سوال اُٹھتا ہے کہ
کیا یہ عمل اللہ کے لیے ہے یا لوگوں کی واہ واہ کے لیے؟
جب نیتوں میں کھوٹ آ جائے، تو عمل میں برکت اور روحانیت کہاں باقی رہتی ہے؟
تقویٰ کا مطلب صرف داڑھی، ٹوپی، اور ظاہری پرہیزگاری نہیں، بلکہ یہ دل کی وہ کیفیت ہے جس میں بندہ ہر عمل میں اللہ کو دیکھنے والا، جاننے والا اور اس کے حکم کے تابع محسوس کرے۔
قربانی اگر تقویٰ کے جذبے سے خالی ہو، تو وہ صرف ایک "ذبح” ہے، عبادت نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جائے:
1. ایک حصہ غریبوں کے لیے،2. ایک حصہ رشتہ داروں کے لیے،3. ایک حصہ اپنے لیے
مگر آج صورتِ حال یہ ہے کہ غریبوں کو دینے سے پہلے تصویریں کھینچی جاتی ہیں، اور کچھ کو تو صرف ہڈیاں یا چربی بھیجی جاتی ہے۔
ایسی قربانی میں عدل و احسان کہاں؟ اور تقویٰ کہاں؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے، یہ اطاعت اور تسلیم و رضا کی انتہا تھی۔
آج ہماری قربانیوں میں وہ جذبہ، وہ فداکاری، اور وہ اخلاص باقی کہاں؟
جانور خریدتے وقت نرمی، برداشت، صبر، اور سخاوت کہاں ہے؟
اللہ کے لیے کچھ "چھوڑنے” کا جذبہ کہاں ہے؟
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قربانیاں اللہ کے دربار میں قبول ہوں اور ان میں تقویٰ کی خوشبو محسوس ہو تو ہمیں درج ذیل باتوں پر عمل کرنا ہوگا:
نیت کی درستگی: ہر عمل صرف اللہ کے لیے ہو۔ ریاکاری سے اجتناب: سوشل میڈیا پر نمود و نمائش نہ ہو۔ غریبوں کا حق: دل کھول کر مستحقین کو دیں سنتِ ابراہیمی کی یاد: اطاعت، قربانی، فدائیت کا جذبہ پیدا کریں۔
نفس کی قربانی: خود کو بدلنے، خواہشات پر قابو پانے کی نیت کریں۔
اے اللہ! ہماری قربانیوں میں تقویٰ کی خوشبو پیدا فرما، اور ہمیں قربانی کی اصل روح سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین۔
Comments are closed.