اللہ خیر کرے اس قوم کا ،قربانی کے نام پر بھی ؟

مشرف شمسی
عید الاضحٰی سات جون کو بھارت کے زیادہ تر حصے میں منائی جائے گی۔عید الاضحٰی کو قربانی کا تہوار بھی کہا جاتا ہے ۔اس تہوار کے موقع پر ہر ایک صاحب حثیت مسلمان پر قربانی واجب ہے ۔جس کی جو حثیت ہوتی ہے اس حساب سے مسلمان جانوروں کی قربانی دیتے ہیں ۔کوئی مسلمان منہگے بکڑے کی قربانی دیتا ہے تو کوئی بڑے میں حصہ لے لیتا ہے ۔یہاں قانونی طور پر اجازت دی گئی جانور کی بات ہو رہی ہے ۔ممبئی اور اس کے اطراف میں ایسے لاکھوں مسلمان ہیں جو بکرے کی قربانی کی حثیت نہیں رکھتے ہیں لیکن قربانی کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ ان میں کچھ تو اپنے گاؤں میں کسی رشتےدار کو پیسے بھیج کر حصے میں قربانی کرا لیتا ہے ہاں ممبئی میں بڑے کی قربانی جان پہچان والے مل کر کرتے ہیں تو وہاں تک معاملہ ٹھیک ہے لیکن اصل مسئلہ شروع ہوتا ہے ممبئی اور اس کے اطراف میں قربانی یا عید الاضحٰی کا مہینہ شروع ہوتے ہی مساجد کے سامنے یا مسلم محلے کے چوراہے یا کارنر پر الگ الگ مدرسے کا ٹیبل نظر آنے لگتے ہیں جس پر بینر لگا ہوا ہوتا ہے کہ ممبئی میں قربانی چھ ہزار یا ساڑھے چھ ہزار لکھا ہوا دیکھ رہا ہوں ۔اس قربانی میں قربانی کا پیسہ دینے والوں کو گوشت بھی دی جاتی ہے ۔اس قربانی کی بھی اپنی ایک حقیقت ہے لیکن اصل کھیل بنا گوشت کی قربانی کا ہے۔دراصل اسی بینر پر بنا گوشت کی قربانی کے ایک حصہ کی قیمت 1600 اور 1800 لکھا مل جائے گا۔آپ پوچھیں گے کہ یہ قربانی کہاں ہوتی ہے تو زیادہ تر بہار کے سیمانچل ضلعوں میں قربانی دئیے جانے کی بات کریں گے ۔میرا روڈ کے سیکٹر گیارہ نمبر میں لگے ایسے ہی ایک مدرسہ کے ٹیبل پر چلا گیا ۔اس ٹیبل پر بنا گوشت کے 1800 کا حصہ لکھا ہوا تھا ۔میں نے ٹیبل پر موجود تقریباً تیس سال کے مولوی نما شخص سے پوچھا کہ یہ 1800 والا حصہ کہاں ہوتا ہے تو اس نے کہا بہار میں کرتے ہیں ۔پھر میں نے پوچھا بہار میں کہاں ہوتا ہے تو اس نے کہا کہ کشن گنج میں ہوتا ہے ۔میں نے پھر پوچھا کہ قربانی تو ہوتا ہے نہ ۔ یہ سن کر وہ غصے سے لال پیلا ہو گیا اور کہا کہ آپ کیسی بات کر رہے ہیں؟ پھر میں نے کہا کہ مطلب قربانی ہوتا ہے اس نے کہا ،ہاں۔میں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پھر کشن گنج میں جانور خریدنے کے لیے اور قربانی کو انجام دینے کے لئے مدرسے کا کوئی ذمےدار تو وہاں ہوگا ؟ کیونکہ اب تو عید الاضحٰی کا وقت کافی قریب آ چکا ہے ۔اُسنے کہا کہ ہاں وہاں ہمارے ذمےدار موجود ہیں اور کچھ جانوروں کی بھی خریداری ہو چکی ہے۔تو پھر میں نے کہا کہ آپ کے پاس اینڈروئیڈ فون ہے اُن ذمےدار سے ویڈیو کال پر میری بات کرا دیں اور خریدے جانوروں کو بھی دیکھا دیں۔یہ سنتے ہی ٹیبل پر بیٹھے موصوف کے دماغ کا پارہ آسمان پر چڑھ گیا اور کہنے لگا کہ مجھے آپ کے قربانی کا پیسہ لینا ہی نہیں ہے ۔آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے تو پھر کہیں اور دیکھ لیں۔دراصل اس مدرسہ کے مولوی کا غصّہ اور ساتویں آسمان پر چلا جاتا اگر وہ میرا اگلا سوال سن لیتا۔لیکِن وہ آئیں بائیں شائیں بکتا رہا اور اسی درمیان گیارہ نمبر کی مسجد کے امام مولانا اکرام صاحب کی گزر وہاں سے ہو رہی تھی اتفاق سے اُنکی نظر میرے پر پہلے پڑی تو اُنہونے مجھے سلام کر دیا اور اس ٹیبل والے بندے نے دیکھ لیا تو اس کا دماغ تھوڑا نارمل ہوا۔آخری سوال جو پوچھنے کا موقع نہیں ملا وہ یہ ہے کہ ہر کسی کے رشتےدار یا پہچان والے امیر و غریب ہر ایک شہر میں ہوتے ہیں اور نہ بھی ہوں تو بھی پوچھیں کہ جس شہر میں آپ قربانی کرا رہے ہیں وہاں میرے بھی رشتےدار اور پہچان والے ہیں برائے مہربانی قربانی کرانے والے کا نام ،فون نمبر اور جس شہر میں جہاں قربانی ہو رہی ہوگی اس کا تھوڑا پتہ بتا دیں وہ رشتے دار وہاں جا کر گوشت لے لیں گے ۔پھر دیکھیے کِتنے کا نقاب اترتا ہے ۔شاید ایک کا بھی نہیں بچے گا ؟کیونکہ 1600 اور 1800 میں آج کی تاریخ میں بھارت کے کسی کونے میں دس بارہ ہزار میں بڑے کا جانور نہیں مل سکتا ہے ۔ممبئی اور اس کے آس پاس کے مدارس کے منتظم یہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ بنا گوشت والی رسید لے کر قربانی کے بعد ایک بھی شخص مدرسہ سے سوال کرنے آ جائے کہ اس نے جو پیسے دیئے اُسکی قربانی کہاں ہوئی وہ بتائیں اور تصفّیٖ بخش جواب نہیں ملا تو وہ شخص اگر پولیس اسٹیشن چلا گیا تو یہ معاملہ فراڈ کے زمرے میں آتا ہے اور جس طرح کا ماحول چل رہا ہے یہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ایسے میں پولیس کاروائی کرتی ہے تو کہا جائیگا کہ پولیس مسلمانوں کے مذہبی معاملوں میں دخل دیتی ہے ۔
میں ایسا اسلئے کہتا ہوں کہ 2013 یا 2014 کی بات ہوگی میرے اخبار کی آفس میرا روڈ میں واقع نیا نگر کے شمس مسجد کے سامنے روشن شاپنگ سینٹر میں تھی۔بقر عید کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور روشن شاپنگ سینٹر کمپاؤنڈ کے باہر بھی قربانی کے حصے کا ٹیبل ایک مدرسہ کا لگا ہوا تھا ۔ساڑھے چار یا پانچ شام کے بج رہے تھے۔میں آفس سے نکل کر بلڈنگ کے گیٹ پر یوں ہی کھڑا ہو گیا جہاں گیٹ کے باہر ٹیبل لگا ہوا تھا ۔تب 700 روپئے میں ممبئی سے باہر بنا گوشت کی قربانی لکھا ہوا تھا ۔میں جب گیٹ پڑ کھڑا تھا تبھی ایک شخص آیا اور پوچھا بنا گوشت کی قربانی کتنے کی ہے تو ٹیبل پر بیٹھے مدرسے کے لڑکے نے کہا 700 روپئے۔وہ شخص جیب سے پیسے نکالا اور اس پیسے کو گنا پھر کہا ایک حصہ کا رسید دے دیں اور اس نے 700 روپئے مدرسے کے لڑکے کو دیا ۔رسید لیتے وقت اس شخص نے کہا کہ مجھے تو دو حصے لینے تھے لیکِن میرے پاس 1100 ہی روپئے ہیں .700 روپئے دے دیے اب 400 روپئے بچا ہے اس میں تو دوسرا حصہ نہیں ہوگا۔ٹیبل پر بیٹھا مدرسہ کے لڑکے نے کہا نہیں ہوگا۔وہ تھوڑی دور گیا تو مدرسہ کی ٹیبل پر بیٹھے لڑکے نے اسے آواز دے کر بُلایا اور اس شخص سے کہا ویسے تو 400 میں حصہ ہوتا نہیں ہے لیکن میں آپ کے لئے 400 میں حصہ کر دیتا ہوں اور اس سے 400 روپئے لے لیے اور رسید دے دیا۔میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا لیکن میں کسی اور سوچ میں گم تھا۔رسید لے کر وہ شخص جب چلا گیا تو اچانک میرا دھیان اس سارے واقعے پر گیا اور تب میں نے ٹیبل پر بیٹھے لڑکے سے مدرسہ کے مہتم کا نمبر لیا اور اُنہیں سارے واقعے کی جانکاری دئ تو انہوں نے کہا کہ صرف ہم ہی نہیں کون سا مدرسہ قربانی کرتا ہے ۔پھر شمس مسجد کے سامنے لگے کئی مدارس کے ٹیبل سے اُنکے انتظام کار کا نمبر لیا اور تقریباً پانچ سے چھ مدارس کے مہتمم سےبات کی لیکِن کسی کا جواب تسفی بخش نہیں تھا اور کسی نے قربانی کہاں ہوتا ہے اسکا پتہ نہیں بتایا۔بلکہ سب نے ایک دوسرے کا پول کھولنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ۔میں نے پوری خبر پہلی خبر کے فرنٹ پیج پر شائع کر دیا ۔خبر شائع ہونے کے بعد کئی عام لوگوں نے خبر کی سچائی کو لے کر فون کیا لیکِن ایک بھی مدرسہ کے انتظامیہ کا فون نہیں آیا۔حالانکہ پانچ چھ مدارس کے نام باقاعدہ خبر میں لکھے ہوئے تھے۔لیکِن یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔
حج و عمرہ کے نام پر جعل سازی ،زکواۃ کے لئے جعلی رسیدیں اور اب قربانی کے نام پر جعل سازیاں ،آخر ہم کہاں روکیں گے ۔حالانکہ سبھی ایسے نہیں ہوتے ہیں لیکِن جو ایسے نہیں ہوتے ہیں وہ لوگ مذہب کی آڑ میں دھوکہ بازی کو دیکھ کر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی انہی کے صف میں شامل ہوتے ہیں ۔اللہ خیر کرے اس قوم کا ۔
Comments are closed.