خوفناک اور درد ناک ہوائی حادثہ!

مولانا محمد قمرالزماں ندوی
استاذ مدرسہ نورالاسلام کنڈہ پرتابگڈھ یوپی
آج مورخہ 12/ جون 2025ء بروز جمعرات دوپہر کے وقت قریب ڈیڑھ بجے احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے قریب جہاز کے پرواز کرنے کے دو تین منٹ بعد ہی جو خوفناک ،دردناک اور افسوس ناک حادثہ پیش آیا، اور جو تصویریں سامنے آرہی ہیں، اس نے دل دہلا دیا، ذہن و دماغ کو متاثر کیا اور موت کی حقیقت کو اور واضح کردیا کہ انسان موت کے سامنے کس قدر کمزور اور بے بس ہے ۔
آج کے حادثہ پر پورا ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے سبھی حساس اور درد مند انسان دکھی ہیں اور سب کے دل و دماغ پر اس حادثہ کا بے حد اثر ہے ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ انسان نکلا ہی انس سے ہے ،ایک دوسرے کے درد اور تکلیف پر وہ کراہنے اور بے چین ہونے لگتا ہے ۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
اور جو سچا اور ہمدرد انسان ہوتا ہے اور جس کے اندر انسانیت اور مانوتا ہوتا ہے اس کی تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
جو لوگ انسان کی مصیبت اور تکلیف پر پریشان اور بے چین نہیں ہوتے ، یا جنہیں انسانوں کی تکلیف و مصیبت پر ترس اور رحم نہیں آتا وہ انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا ۔
ذرا اندازہ کیجئے کہ حادثہ میں جان بحق ہونے والے ان مہلوکین کے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں پر کیا گزر رہی ہوگی ؟ خبر یہ بھی ہے کہ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجئے روپانی بھی اس جہاز پر سوار تھے ،وہ اپنی بیٹی سے ملنے لندن جارہے تھے ۔
حادثہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ۔
یہ ائیر انڈیا کا بوئنگ 787 تھا۔
جو انڈین ریاست گجرات کے شہر احمد آباد کے ائیر پورٹ سے آج دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب اڑا تھا۔ 625 فٹ کی بلندی پر موجود اس جہاز کو رن وے کو چھوڑے ابھی صرف دو منٹ ہوئے تھے کہ ائیر کنٹرول روم کو پائلٹ کی طرف سے مے ڈے کی آخری کال موصول ہوئی۔ پھر رابطہ کٹ گیا اور کاک پٹ میں ہمیشہ کے لیے خاموشی چھا گئی۔
طیارے میں عملے سمیت 242 مسافروں میں سے 169 انڈین 53 برطانوی اور 7 پرتگالی اور ایک کینڈین شہری سوار تھے۔ یہ لندن جا رہے تھے، جانے کیا کیا خواب، کتنے منصوبے عزائم ،اور دلوں پر کتنے بوجھ اور ذمے داریاں لیکر۔۔ کچھ لندن واپس پلٹ رہے ہوں گے، کچھ پہلی دفعہ لندن دیکھنا چاہ رہے ہوں گے۔ ٹکٹ خریدتے،بر وقت ائیر پورٹ پہنچتے، اپنوں سے الوداعی گلے ملتے اور لندن اترنے کے بعد کے منصوبے بناتے وقت ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ ابھی صرف دو منٹ میں جب جہاز چھ سو فٹ کی بلندی پر ہوگا تو وہ ہمیشہ کیلئے یوں گرے گا کہ پھر ان مسافروں کے لاشے ہی اٹھیں گے۔ وہ بھی دوسروں کے کندھوں پر۔
جاتے جاتے جہاز میڈیکل کی بلڈنگ کے کینٹین میں لنچ کرتے وقت ان لوگوں کی بھی زندگی لے گیا، جو اس جہاز پر سوار بھی نہیں تھے۔جہاز ائیرپورٹ کے باہر واقع ڈاکٹرز کے ہاسٹل پر گرا۔ یہ جانے کہاں کہاں سے میڈیکل پڑھنے آئے ہوئے سٹوڈنٹ تھے، جو میڈکل پڑھ رہے تھے تاکہ دوسروں کی جانیں بچا سکیں۔ مگر یہ خود کو بھی نہ بچا سکے۔( خبر کی تفصیل یوسف سراج کی وال سے)
یہی اس زندگی کی حقیقت ہے، ایسے حادثے اور واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور
یہ بتاتے ہیں کہ انسان کی زندگی کتنی ناپائیدار ہے، بلکہ وہ پانی کا ایک بلبلا ہے۔
انسان کی بہت کچھ ہونے سے کچھ نہ ہونے تک اتنی سی اوقات ہے۔
موت اور زندگی کی حقیقت اور اس کا فلسفہ ہر وقت اور ہمیشہ سامنے رہنا چاہیے اور اس کا استحضار بھی رہے کہ نہ جانے کس جگہ ،کب اور کس حالت میں زندگی کی شام ہو جائے، اور ہم موت کی آغوش میں پہنچ جائیں اور ہمارا خواب اور ہماری تمنائیں اور آرزوئیں ادھوری ہی رہ جائیں، بہر حال موت ایک اٹل اور بدیہی حقیقت ہے ، بس موت کے آنے کے اسباب و عوامل الگ الگ ہوتے ہیں ۔
زندگی اور موت کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ایک غیر مسلم شاعر نے کیا پتے کی بات کہی ہے کہ
زندگی کیا ہے عناصر کا ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا
اس کے باوجود اسرائیل و امریکہ جیسے اپنے کو سوپر سمجھنے والی جیسی طاقت اور وہاں کے سیاست دان ایسے ہی انسان کے خاتمے کیلئے جنگوں میں اتنا بارود اور اسلحہ پھونکتے ہیں، انسان تو ایسے ہی مر جاتا ہے،کبھی حضر میں ، کبھی سفر پر، کبھی بستر پر اور کبھی غزہ میں بھوک سے۔۔ پھر آخر کیوں انسان کو مارنے کیلئے جنگوں پر اربوں ڈالر پھونک دئیے جاتے ہیں ؟
اس حادثہ کی اعلیٰ سطحی جانچ بھی ہونی چاہیے اور کہاں کمیاں اور خامیاں تھیں، اس کو بھی معلوم کرنا چاہیے اور اس میں کوتاہی کرنے والے عملہ سے بھی باز پرس ہونا چاہیے اور حکومت و عملہ کو نظام شہری ہوا بازی کو مزید چست اور فعال بنانا چاہیے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے حادثات نہ پیش آئیں ۔
Comments are closed.