علماء کی بصیرت اور نوجوانوں کی ذمہ داری

از:- جاوید اختر حلیمی قاسمی
ہندوستان میں مسلم قیادت ایک نازک دور سے گزر رہی ہے، خاص طور پر اس وقت جب فرقہ وارانہ طاقتیں پوری شدت سے سرگرم ہیں اور وقف، یونیفارم سول کوڈ، مدارس، مسلم پرسنل لا، مساجد، اور حتیٰ کہ مسلم ناموں تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسے میں سنجیدہ علمی قیادت کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم نے یہ جو کہا کہ "وقف قانون کو انتخابی ہتھیار نہ بنایا جائے” — یہ بات محض ایک سیاسی جملہ نہیں بلکہ ایک فقہی، شرعی اور حکیمانہ رائے ہے۔ مولانا کی عمر، تجربہ، اور علمی مقام اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم ان کے الفاظ کو عام تبصرہ سمجھنے کے بجائے گہرائی سے سمجھیں۔ سمیع اللہ خاں جیسے نوجوانوں کا جذبہ اپنی جگہ قابلِ تحسین ہو سکتا ہے، مگر جذبات اگر حکمت سے خالی ہوں تو نقصان دہ ہو جاتے ہیں۔ وہ ہر معاملے پر تبصرہ کرتے ہیں، ہر جلسے میں تقریر کرنا چاہتے ہیں، ہر پوسٹ پر ردعمل دینا چاہتے ہیں — مگر کیا وہ اس بات پر بھی غور کرتے ہیں کہ ان کے تبصرے سے امت میں انتشار بڑھتا ہے یا وحدت پیدا ہوتی ہے؟ فیصل رحمانی صاحب کی قیادت میں حالیہ جوش و خروش اس وقت تک محدود اور ناپائیدار رہے گا جب تک کہ اس کی بنیاد دینی حکمت، علمی فہم، اور اجتماعی مصلحت پر نہ ہو۔ وقف بل کی مخالفت ہو یا کسی اور مسئلہ پر احتجاج — ہر کام کا ایک شرعی دائرہ اور سیاسی تناظر ہوتا ہے۔ اور ان دونوں کا امت کی اکثریت کے مفاد سے جُڑا ہونا ضروری ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ بہار میں مسلمان صرف 16-17 فیصد ہیں، اور ان کی ووٹ کی طاقت کسی بڑی سیاسی پارٹی کو اقتدار سے گرانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اویسی صاحب جیسے حضرات جب بہار میں ستر سیٹوں پر لڑنے کا اعلان کرتے ہیں، تو وہ دراصل بی جے پی کی حکمتِ عملی کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اگر ان کی نیت خیر ہو بھی تو نتیجہ خیر پر منتج نہیں ہوتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جیسے اصحابِ علم کی بصیرت کو ماننا پڑے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ بعض اوقات خاموشی، تحمل اور پیچھے ہٹ جانا ہی اصل حکمت ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر بعض شرائط مان لیں، اگرچہ صحابہ کرام کو وہ بھاری لگیں۔ مگر وہی صلح بعد میں فتح مکہ کی راہ ہموار کرنے کا ذریعہ بنی۔ آج ہمیں بھی اسی مزاج کی ضرورت ہے۔ جو کام سمیع اللہ خاں جیسے نوجوانوں کو مناسب لگے، وہ ضرور کریں۔ مگر یاد رکھیں کہ بڑوں کے موقف پر تنقید کرنے کے بجائے، ان کے فہم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ جو لوگ صحافت، تقریر یا تحریر میں سرگرم ہیں، ان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ ملت کو جوڑنے والا بیانیہ تشکیل دیں، نہ کہ اپنے آپ کو لیڈر بنانے کی دوڑ میں ملت کے زخموں پر نمک چھڑکیں۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب جیسے بزرگوں کی مخالفت سے شہرت تو مل سکتی ہے، لیکن برکت نہیں۔
ادب، علم اور بصیرت کے بغیر کوئی تحریک دیرپا نہیں ہو سکتی۔
Comments are closed.