ایئر انڈیا ہوائی جہاز کا درد ناک حادثہ – عبرت کے چند سبق

مفتی امدادالحق بختیار

استاذِ حدیث وشعبہ افتاء جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد – انڈیا

احمد آباد / گجرات میں جمعرات (12-06-2025)کو دوپہر کے وقت ایک درد ناک حادثہ پیش آیا، ائیر انڈیا کی پرواز (فلائٹ اے آئی 171، بوئنگ 8-787 ڈریم لائنر) جو (242) مسافرین کے ساتھ لندن گیٹوک جا رہا تھا، پرواز (Take Off)کرتے ہی، ایئر پورٹ کے قریب ایک میڈیکل ہاسٹل کی عمارت پر گر کر تباہ ہوگیا، سوائے ایک مسافر کے، ہوائی جہاز میں موجود تمام مسافرین، کرو ممبرز ، پائلٹ اور کو پائلٹ، سب کے سب منٹو سکنڈوں میں موت کے منہ میں چلے گئے، ایک لمحے میں موت نے مرد و خواتین، بوڑھے، جوان اور بچےسب کو اپنا شکار بنا لیا، سب ہمیشہ ہمیش کے لیے اتنے درد ناک طریقہ سے اس دنیا کو الوداع کہہ کر چلے گئے۔کچھ ہی لحموں میں ان کی پوری دنیا تباہ ہوگئی، ان کے پیچھے کچھ بچا تو ان کی جلی ہوئی لاشیں اور روتے بلکتے رشتہ دار۔ یہ انتہائی خوفناک حادثہ تھا، جس نے ہر دل کو غمگین اور ہر آنکھ کو نم کیا۔ اس حادثہ سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔

دنیا فانی ہے:

اس حادثہ سے ایک بار پھر یہ کڑوی حقیقت تازہ ہوجاتی ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے، اس دنیا سے ہر ایک کو جانا ہے، کوئی یہاں ہمیشہ کی زندگی لے کر نہیں آیا ہے، یہ دنیا خود بھی فنا (To be destroyed)ہونے والی ہے اور اس میں موجود ہر چیز کو ایک نہ ایک دن فنا ہونا ہے؛ لہذا اگرچہ یہ دنیا بہت پرکشش (Atractive)ہے ، انسان اس کی خوبصورتی اور کشش (Atraction)میں ایسا غافل ہو جاتا ہے، یہاں کی مصروفیات، یہاں کے تعلقات اور یہاں کے کاروبار میں ایسا کھو جاتا ہےکہ بسا اوقات اس کی نقل و حرکت سے لگتا ہے کہ وہ دنیا کے فنا ہونے کو بھول چکا ہے؛ لیکن یہ ایک خطرناک غلطی ہے، جس کا خمیازہ اسے ایسے وقت بھگتنا پڑتا ہے، جب پيچھے مڑنے کے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں۔

دنیا کے بارے میں قرآن نے بالکل صاف کر دیا ہے:

إِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَى ٱلۡأَرۡضِ زِينَةٗ لَّهَا لِنَبۡلُوَهُمۡ أَيُّهُمۡ أَحۡسَنُ عَمَلٗا 7 وَإِنَّا لَجَٰعِلُونَ مَا عَلَيۡهَا صَعِيدٗا جُرُزًا 8 . ترجمہ: ہم نے دنیا کی تمام چیزوں کو اس کے لیے خوبصورتی کا ذریعہ بنا یا ہے؛ تاکہ ہم جانچ سکیں کہ انسانوں میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے، اور یقیناً ہم دنیا کی تمام چیزوں کو ایک ہموار میدان بنا دیں گے۔ سورة الكهف.

يَٰقَوۡمِ إِنَّمَا هَٰذِهِ ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَا مَتَٰعٞ وَإِنَّ ٱلۡأٓخِرَةَ هِيَ دَارُ ٱلۡقَرَارِ 39 . ترجمہ: اے لوگوں! یقینا یہ دنیا کی زندگی چند روز کا سامان ہے اور آخرت ہی باقی رہنے والا گھر ہے۔ سورة غافر.

كُلُّ مَنۡ عَلَيۡهَا فَانٖ 26 وَيَبۡقَىٰ وَجۡهُ رَبِّكَ ذُو ٱلۡجَلَٰلِ وَٱلۡإِكۡرَامِ 27 . ترجمہ: روئے زمین کی ہر چیز فنا ہوگی اور رب ذو الجلال والاکرام کی ذات باقی رہے گی۔ سورة الرحمن.

موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں:

اس ہوائی جہاز میں بیٹھے شاید کسی پیسنجر (Passenger)کو یہ خیال نہیں گزرا ہوگا کہ چند منٹ بعد میری موت آنے والی ہے، میں اپنی زندگی کے آخری مرحلہ اور آخری اوقات میں ہوں، میری زندگی مکمل ہو چکی ہے اور اب کچھ دیر بعد ہی جسم فنا جائے گا اور روح رخصت ہو جائے گی، اسی طرح ان کو رخصت کرنے (See Off)والے رشتہ داروں، دوست، احباب اور متعلقین میں سے بھي شاید کسی کو یہ خیال نہیں گزرا ہوگا کہ یہ ان کی آخری ملاقات ہے، اسی طرح جس میڈیکل ہاسٹل کی بلڈنگ پر جہاز گرا ہے، اس میں موجود کسی ڈاکٹر اور میڈیکل کے طالب علم کو بھی معلوم نہیں ہوگا کہ اب ان کی زندگی کا (The End) ہونے والا ہے؛ لیکن دنیا نے غم اور افسوس کے سایہ میں دیکھا کہ موت آئی اور بھیانک شکل میں آئی اور جتنوں کی زندگی مکمل ہو چکی تھی، اس نے سب کو اپنا شکار بنا لیا، جس کی زندگی پوری نہیں ہوئی تھی، وہ کراماتی طور پر صحیح سالم اور محفوظ رہا۔

موت کے بارے میں اسلام کا تصور قرآن نے پیش کیا ہے:

كُلُّ نَفۡسٖ ذَآئِقَةُ ٱلۡمَوۡتِۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ أُجُورَكُمۡ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِۖ فَمَن زُحۡزِحَ عَنِ ٱلنَّارِ وَأُدۡخِلَ ٱلۡجَنَّةَ فَقَدۡ فَازَۗ وَمَا ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَآ إِلَّا مَتَٰعُ ٱلۡغُرُورِ 185 . ترجمہ: ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور یقینا تمہیں تمہارے کاموں کا بدلہ قیامت کے دن دیا جائے گا، پھر جس کو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخلہ مل گیا، تو وہ یقیناً کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکہ کا سامان ہے۔آل عمران.

وَلَن يُؤَخِّرَ ٱللَّهُ نَفۡسًا إِذَا جَآءَ أَجَلُهَاۚ وَٱللَّهُ خَبِيرُۢ بِمَا تَعۡمَلُونَ 11 . ترجمہ: اور اللہ تعالی ہر گز مؤخر نہیں کرتا، کسی جاندار کو، جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے اور اللہ تعالی تمہارے کاموں سے پورا باخبر ہے۔ سورة المنافقون.

وَمَا كَانَ لِنَفۡسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذۡنِ ٱللَّهِ كِتَٰبٗا مُّؤَجَّلٗاۗ. ترجمہ: کوئی جاندار اللہ کے حکم کے بغیر نہیں مر سکتا، ہر ایک کا مقررہ وقت لکھا ہوا ہے۔ آل عمران: 145.

موت کہیں اور کسی بھی حال میں آ سکتی ہے:

ہمیں اس حادثہ سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ موت کسی بھی حال میں آسکتی ہے؛ ضروری نہیں کہ آپ ہاسپیٹل کے بیڈ پر ہوں، آپ میدان جنگ میں ہوں، آپ بڑھاپے کی عمر میں ہوں، آپ پریشانی اور تنگ دستی کی زندگی میں ہوں، آپ کے پاس جدید سہولیات کی کمی ہو، تب ہی موت آئے۔ اس حادثہ میں دیکھیں کہ ایئر پورٹ پر اور ہوائی جہاز میں اتنے کثیر افراد کی موت ہوئی ہے، ائیر پورٹ جہاں دنیا کی چمک دمک اپنے شباب پر ہوتی ہے، جہاں ہر چیز میں تازگی اور زندگی نظر آتی ہے، جہاں انسان اپنی امیدوں، شوق اور آرزو ں کی دنیا میں اڑنے لگتا ہے، جہاں مایوسی، ناامیدی اور نقصان کا تصور بھی نہیں ہوتا، اسی کے ساتھ ہوائی جہاز اور وہ بھی بوئنگ کمپنی کا، جس کی ٹکنالوجی، ایڈوانس لیول کی ہے، ائیر لائنز کی فیلڈ میں یہ کمپنی پوری دنیا میں اپنا ایک نام، مقام اور اعتماد رکھتی ہے اور اس جہاز کو آپریٹ (Operate)کرنے والے بھی ماہر ترین اور تجربہ کار پائلٹ اور کو پائلٹ کی ٹیم موجود ہے، دنیا کی یہ تمام سہولیات ایک طرف تھیں؛ لیکن جب موت آئی ، تو کچھ کام نہ آيا، ہر چیز بے بس اور فیل ہوگئی، لمحوں میں سب کچھ تباہ ہوگیا: سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ۔

کتاب ہدایت موت کے بارے میں کہتی ہے:

قُلۡ إِنَّ ٱلۡمَوۡتَ ٱلَّذِي تَفِرُّونَ مِنۡهُ فَإِنَّهُۥ مُلَٰقِيكُمۡۖ. ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ جس موت سے تم بھاگ رہے ہو، وہ تمہیں ضرور پکڑے گی۔ سورة الجمعة:8.

أَيۡنَمَا تَكُونُواْ يُدۡرِككُّمُ ٱلۡمَوۡتُ وَلَوۡ كُنتُمۡ فِي بُرُوجٖ مُّشَيَّدَةٖۗ ترجمہ: تم جہاں کہیں بھی رہو، موت تمہیں پکڑ لے گی؛ چاہے تم مضبوط ترین قلعوں میں کیوں نہ رہو۔ سورة النساء: 78.

دنیا کی پلاننگ سے پہلے آخرت کی پلاننگ کریں:

اس ہوائی جہاز میں بیٹھے مسافرین، جو اپنے خوابوں کو لے کر، یوروپین شہر لندن کے لیے روانہ ہوئے تھے، انہوں نے اپنے مستقبل کے لیے کیا کیا نہ خواب دیکھے ہوں گے، انہوں نے اپنی آنے والی زندگی کے لیے بہت سی پلاننگ کی ہوں گی، لندن پہنچنے کے بعد کیا کرنا ہے، لندن میں رہتے ہوئے کیا کرنا ہے، پھر اپنے وطن اور اپنے گھر والوں کے لیے کیا کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ، چنانچہ مسافرین میں ایک ایسی خاتون بھی تھی، جو اپنی سرکاری ملازمت سے استعفی دے کر، اپنے شوہر اور تین معصوم بچوں کے ساتھ لندن رہنے کے لیے جا رہی تھی، اسے کیا پتہ تھا کہ اس کی یہ آرزو ایئر پورٹ کے قریب ہی دم توڑ دے گی، نہ وہ رہے گی، نہ معصوم بچے رہیں گے، نہ شوہر رہے گا اور نہ لندن کا خواب رہے گا، اس کے علاوہ بھی پتہ نہیں کتنی آرزئیں اور کتنے خواب تھے، جنہیں اس حادثہ نے پورا ہونے سے پہلے ہی چکنا چور کر دیا۔

لہذا اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم دنیا کی پلاننگ (Planning)ضرور کریں؛ لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ہم آخرت کے وطن اور گھر کی پلاننگ کریں، اس لیے کہ وہی ہمارا اصلی وطن ہے اور وہی ہمارا ہمیشہ کا (Permanent) گھر ہے۔

ہماری طرف سے اس میں غفلت پائی جاتی ہے کہ ہم دنیا کی تیاری تو کرتے ہیں؛ لیکن آخرت کی تیاری یا تو بالکل نہیں کرتے، یا رسمی یا بہت معمولی کرتے ہیں، دنیا کی پلاننگ ایسی کرتے ہیں، گویا ہمیں یہیں رہنا ہے اور آخرت سے ایسے غافل ہوتے ہیں، گویا ہمیں وہاں جانا ہی نہ ہو، ہمیں اپنی اس غفلت سے باہر آنا چاہیے۔

رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کو ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: «أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَاشِرَ عَشْرَةٍ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‌مَنْ ‌أَكْيَسُ ‌النَّاسِ، وَأَحْزَمُ النَّاسِ؟ قَالَ: ” أَكْثَرُهُمْ ذِكْرًا لِلْمَوْتِ، وَأَكْثَرُهُمُ اسْتِعْدَادًا لِلْمَوْتِ، قَبْلَ نُزُولِ الْمَوْتِ أُولَئِكَ هُمُ الْأَكْيَاسُ، ذَهَبُوا بِشَرَفِ الدُّنْيَا، وَكَرَامَةِ الْآخِرَةِ» ". ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا میں وہاں موجود دس لوگوں میں سے ایک تھا، چنانچہ ایک انصاری صحابیؓ نے دریافت کیا: اے اللہ کے نبی! سب سے زیادہ عقلمند اور سب سے زیادہ محتاط کون شخص ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو سب سے زیادہ موت کو یاد کرے اور موت آنے سے پہلے سب سے زیادہ موت کی تیاری کرے، ایسے ہی لوگ عقلمند ہیں ، جنہیں دنیا کی شرافت بھی ملی اور آخرت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ (مجمع الزوائد، باب ما جاء في الحزن، 18214)

ایئر پورٹ پر اور فلائٹ میں اللہ سے غفلت:

ایئر پورٹ جہاں ماڈرنیٹی (Modernity)اپنے عروج پر ہوتی ہے، جہاں عریانیت اور بے حیائی کھلے عام ہوتی ہے، خواتین کی ایک بڑی تعداد کم اور چھوٹے کپڑوں میں ہوتی ہیں، جہاں مغربی کلچر (Western Culture)کا غلبہ ہوتا ہے، ایسے موقع پر شیطان بدنگاہی پر اکساتا ہے اور آنکھ اور دل و دماغ سے بہت سے گناہ کرواتا ہے؛ ہمیں ایئر انڈیا فلائٹ حادثہ سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ ہمیں ایئر پورٹ پراللہ کو یاد رکھنا چاہیے، اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنی چاہیے، گناہوں سے پرہیز کرنا چاہیےاور اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے؛ کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ ایئرپورٹ کا آپ کا یہ آخری وزٹ (Visit) ہو، آج کے بعد کبھی ایئر پورٹ آنے کا موقع نہ ملے۔

اسی طرح ہوائی جہاز میں بیٹھتے وقت، پرواز (Take Off) اور اڑان (Fly) کے وقت اور لینڈنگ (Landing) کے وقت کی دعا ضرور پڑھیں ، اللہ کے ذکر اور تسبیحات کا اہتمام کریں؛ کیوں کہ پتہ نہیں : نہ جانے کب زندگی کی شام ہو جائے!

Comments are closed.