شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے !

مولانا محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725
انسان کے اندر مال سے محبت فطری ہے اور وہ اس کا شدید حریص اور متمنی رہتا ہے ، قرآن مجید نے انسان کی اس فطرت کو یوں بیان کیا ہے ،، انہ لحب الخیر لشدید،، بیشک وہ مال کا بہت ہی حریص ہے ، یہاں خیر سے مراد مال ہے ، انسان کی مال سے محبت اور مال کی خواہش اور اس سے اس کی حرص و طمع صرف مٹی ہی پوری کرسکتی ہے ، یعنی جس دن وہ قبر میں چلا جائے گا ، ورنہ حال تو یہ ہے ایک وادی مل جائے تو وہ دوسری وادی کی تمنا کرنے لگتا ہے ۔
آج مادیت کا زمانہ ہے ، لوگ مادیت کے پیچھے اس طرح دیوانہ ہیں اور اس کو پانے کے لئے اس قدر بے چین ہیں کہ اس کو حلال و حرام کی بھی تمیز نہیں ہے اور اس کو یہ معلوم ہی نہیں رہتا کہ مال کمانے اور اس کو حاصل کرنے کے بھی کچھ شرائط اور اصول و ضوابط ہیں ،اس کے کچھ حدود و قیود ہیں ۔
یاد رہے کہ مال بھی انسان کے پاس ایک امانت ہے ،وہ اصلا اس کی ذاتی ملکیت نہیں ہے ،اصل مالک تو اس کا، اللہ تعالیٰ ہی ہے ، اسی لئے انسان کو مکلف بنایا گیا ہے کہ مال سے شدید محبت اور حرص کے باوجود، وہ اپنے مال میں سے محتاج و سائل کا حق بھی مختص کرے اور عزیز و اقارب کا بھی خیال رکھے، کار خیر میں صرف کرے ، اس میں سے کچھ کو اپنے لئے صدقئہ جاریہ بنائے ،نیز اگر صاحب نصاب ہے تو حولان حول یعنی سال گزرنے کے بعد اس میں سے ڈھائی فیصد غریبوں اور محتاجوں کو دے ۔
یہ قرآنی حکم ہے اور شریعت کا دیا ہوا گائڈ لائن ہے ۔ اس کا فائدہ کیا ہوگا کہ اس کے مال میں برکت ہوگی اور باقی سارا بچا ہوا مال پاک ہو جائے گا ۔
اب اگر کسی شخص کو یہ خیال آئے کہ اگر صدقہ اور خیرات کروں گا اور اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکال دوں گا ،تو میں مفلس اور محتاج ہو جاؤں گا اور حق تعالیٰ کی تاکید سن کر بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ہمت نہ ہو اور ذہن اس کی طرف مائل نہ ہو اور دل چاہے کہ اپنا مال خرچ نہ کرے اور وعدئہ الہی سے اعراض کرکے وعدئہ شیطانی پر طبیعت کو میلان اور اعتماد ہو تو اس کو یقین کرلینا چاہیے کہ یہ مضمون اور خیال شیطان کی طرف سے ہے ،یہ نہ کہے کہ شیطان کی تو ہم نے کبھی صورت نہیں دیکھی ،حکم کرنا تو درکنار رہا، اور اگر یہ خیال دل میں پیدا ہوکہ صدقہ و خیرات سے گناہ بخشے جائیں گے اور مال میں بھی ترقی اور برکت ہوگی تو جان لے کہ یہ مضمون اللہ کی طرف سے آیا ہے ، اور خدا کا شکر کرے اور اللہ کے خزانے میں کمی نہیں ،سب کے ظاہر و باطن نیت و عمل کو خوب جانتا ہے ۔
ہمارے ایک فاضل دوست محمد صابر ندوی نے اس آیت کی روشنی میں انسانی نفسیات کا بہت اچھا تجزیہ کیا ہے، اس مضمون کو ملاحظہ فرمائیں اور ہم سب اپنا جائزہ لیں –
"اس دنیا میں جب انسان پر خدا کی رحمت کا سایہ فگن نہ رہے، اور وہ شیطانی اعمال سے دوچار ہو، تو اسے سب سے بڑا خطرہ فقر، غریبی کا لگا رہتا ہے، ویسے دنیا کا اصل محور مادیت بن چکا ہے، دو بالشت پیٹ کی بھوک مٹانے، اور خشک گلے کی پیاس بجھانے کیلئے انسان کیا کچھ نہیں کرتا ہے، رشتے، ناتے اور اپنے پرائے کی قربانی تو ہے ہی خود کی زندگی بھی دو بھر میں ڈالے رہتا ہے، آپ نے انشورنس کے بارے میں سنا ہوگا؟ بالخصوص زندگی کا انشورنس، یہ دراصل وہی انسان کا مادی ڈر یے، جو اسے عدم پر خود کو ترجیح دینے کیلئے آمادہ کردیتا ہے، آج کو کل کی فکر اور خطرات و خدشات میں ڈال کر دل مردہ کردینے پر مجبور کردیتا ہے، دنیا کے ایک بڑے حصے نے انسان کے اسی ڈر کو تجارت بنا لیا ہے؛ بلکہ آج جن مارکیٹ کا دور ہے اور جسے سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، وہ عموما اسی قبیل سے ہیں، انسان کو غریبی کا خوف دیا جائے، اسے کشمکش میں مبتلا کیا جائے اور اپنی دکان چلائی جائے، غور کیا جائے تو معلوم ہوگا؛ کہ یہ صرف ایک سوچ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسی بلا ہے جس کے اندر خواہی نہ خواہی ہر طبقہ مبتلا ہے، دیندار گروہ اگرچہ کم ہو؛ لیکن اس سے محروم نہیں، رہی وہ جماعت جسے خدا سے برائے نام تعلق ہے یا بالکل بھی نہیں ہے وہ سب اس میں گلے سے زیادہ یا کہا جائے کہ سراپا شرابور ہیں۔
قرآن کریم نے اس حقیقت پر بخوبی روشنی ڈالی ہے، اور اس راز سے پردہ اٹھایا ہے، کہ آخر انسان کے اندر ایسی سوچ کہاں سے پیدا ہوتی ہے، سورۃ بقرہ میں ہے” اور شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے،اور بے حیائی پر آمادہ کرتا ہے، اور اللہ اپنے پاس مغفرت اور انعام کا تم سے وعدہ کرتا ہے، اور اللہ ہی وسعت والا اور خوب باخبر ہے”(بقرہ: ۲۶۸) یہ آیت صاف طور سے اس بات پر دلیل ہے کہ فقر کا خوف شیطانی عمل ہے، یہ اس کی طرف سے ہے جو خدا سے دشمنی رکھتا ہے، جو اس کے بندوں کو بھٹکانے اور راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کرتاہے، جس نے وعدہ کر رکھا ہے؛ کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے دور کر دے گا، اس کے اندر عبادت ختم کر دے گا اور قیامت کے دن کافروں کی تعداد میں اضافہ کا باعث بنے گا، جو مردود ہے، ملعون ہے، جو جنت سے دھتکارا ہوا اور انسانیت کا دشمن ہے، اسی طرح آیت کریمہ کا اگلا حصہ جس کے اندر بے حیائی پر اکسانے کی بات کی گئی ہے، دراصل یہ بھی فقر کا لازمہ ہے، اس آیت کو پڑھ کر پوری مغرب دنیا کی بے حیائی اور خصوصی طور سے صنف نازک کا بے تحاشا استحصال نظروں کے سامنے آجاتا ہے، یہی ہے جس نے عورتوں کو ننگا کردیا، معاشرے کو تباہ کردیا، عزت و لحاظ پامال کر دئے گئے اور انسانی بستی تجارت کی منڈی بن گئ، جہاں انسان کا جسم بکتا ہے، اس کی راحت بکتی ہے، اس کا سکون بکتا ہے، اس کا رواں رواں بکتا ہے۔
قرآن کریم کی خاصیت یہ ہے کہ یہ صرف بیماری نہیں بلکہ علاج بھی تجویز کرتا ہے، چنانچہ قرآن کریم نے اس کا علاج بھی بتایا ہے، وہ کہتا ہے کہ رب کریم کو ہی وسعت والا مانا جائے، یہ جان لیا جائے کہ رزق اسی کے ہاتھ میں ہے اسی کے دم سے انسانوں کی بستی آباد ہے، زندگی اور موت اسی کے نام سے ہے، وہ باخبر ہے وہ سمیع ہے بصیر ہے، ساتھ ہی تم نے یہ مان لیا تو اللہ تمہیں دو چیزیں دے گا، سب سے پہلی چیز یہ کہ تمہاری مغفرت کردے گا، یہ انعام کرنے کے بعد ہوگا، اور یہی انعام سب سے بڑا انعام ہے، جس سے کوئی بھی نوع انسان اپنی زندگی کی مراد پا سکتا ہے، اور دوسرا انعام جس کا تعلق دنیا سے وہ ہے (فضل) یعنی حلال رزق دستاب کردے گا، تم محنت کرو گے، وہ تمہیں کھلائے گا، تمہارے رزق کی ذمہ داری خدا پر ہے وہ سب کو کھلاتا ہے تم کو بھی کھلائے گا، اس نے پیدا کیا ہے تو مرنے تک کا بندوبست بھی کرے گا، ایسا ہر گز نہیں کہ وہ تم سے بے خبر ہے اور تمہاری ضروتوں کو سمجھتا اور سنتا نہیں ہے۔ بلکہ وہ تم سے تمہارے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، تمہارے دل کی ہر دھڑکن اس کی نگاہ میں ہے، غم نہ کھاو!! اللہ پر اعتماد رکھو!! اپنے دل کو تھامے رکھو!!! فقر کا خوف نہ رکھو اس کے چکر میں بے حیائی میں مبتلا ہوکر اپنی آخرت بلکہ قرآن کی زبان میں مغفرت اور فضل کو تباہ نہ کرو "!!!!!
Comments are closed.