ساٹھی میں امارت شرعیہ کا عظیم الشان اجلاس: حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کی قیادت میں مارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے کا عہد

ساٹھی (مغربی چمپارن)، 16 جون:
امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کا اہم اجلاس آج حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب، امیر شریعت بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کی صدارت میں شمس ٹیچرس ٹریننگ کالج، کٹہری، ساٹھی، ضلع مغربی چمپارن میں منعقد ہوا۔ امیر شریعت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب دامت برکاتہم نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ:ساٹھی کی سرزمین کی دینی و تعلیمی خدمات کی ایک سو سالہ تاریخ ہے۔ بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ نے 1921 میں امارت شرعیہ کے قیام کے بعد اس علاقہ کو اپنی دعوتی و تنظیمی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ ان کی کاوشوں سے اس خطے میں مدارس کا جال بچھا اور دینی شعور نے جنم لیا۔انہوں نے فرمایا کہ:مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں نے 2010 سے ساٹھی کی اس عظیم روایت کو باقی رکھا ہے۔ میں نے ادارے خود قائم نہیں کیے، بلکہ نوجوانوں کو مشورہ دیا، وہی نوجوان محنت سے آج اعلیٰ تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں۔ نہ چندہ مانگا، نہ دوسروں پر انحصار کیا۔حضرت امیر شریعت نے اس موقع پرفرمایا کہ:حضرت مولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے آل انڈیا ملی کونسل قائم کی تھی، رمضان سے پہلے مجھے اس کا قائم مقام صدر بنایا گیا، میں خود کو اہل نہیں سمجھتا، مگر ذمہ داری سپرد کی گئی ہے تو اسے بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش کروں گا۔اب آپ حضرات نے امارت شرعیہ کی اہم ترین ذمہ داری مجھے دی ہے تو میں عہد کرتا ہوں کہ اس کو بھی بھرپور دیانت و اخلاص سے نبھاؤں گا۔حضرت امیر شریعت نے وقف ایکٹ 2023کے سلسلے میں فرمایاکہ:جب 3 اگست 2024 کو اس بل کی خبر ملی تو ہم نے 5 اگست کو ممبرانِ پارلیمنٹ کے ساتھ اہم میٹنگ کی، جس کے نتیجے میں یہ معاملہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا؛ مگر افسوس کہ یہ کمیٹی بھی حکومتی دباؤ میں رہی اور بل کو ایکٹ کی شکل دی گئی۔یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور امارت شرعیہ کی طرف سے بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ حضرت مولانا شبلی صاحب نے وکالت نامہ پر دستخط کر کے دیا ہے۔ اس وقت امارت شرعیہ کو آپ سب کے تعاون کی سخت ضرورت ہے۔اخیر میں حضرت امیر شریعت نے فرمایا:جس طرح تحریک آزادی میں چمپارن کی سرزمین سے ملک کو روشنی ملی تھی، آج بھی اسی سرزمین سے نئی رہنمائی ابھرے گی۔ ہمیں صرف ایمانداری، یکجہتی اور عزم کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔
ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ مولانا محمد شبلی القاسمی نے فرمایا کہ ساٹھی کی سرزمین پر ایمان، علم اور قیادت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے حضرت امیر شریعت مولانا انیس الرحمن قاسمی کی سرپرستی میں قائم اداروں کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور انہیں علم و تقویٰ، اخلاص و حکمت کا پیکر قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ حضرت امیر شریعت کا دورِ نظامت امارت شرعیہ کے لیے ایک انقلابی باب تھا، جس میں تعمیری ترقی، دعوت، تعلیم اور تنظیمی استحکام کی بنیادیں مضبوط ہوئیں۔ امارت کے ذیلی اورتعلیمی وتکنیکی ادارے حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ اورحضرت مولاناسید نظام الدین صاحبؒ کی مخلصانہ نگرانی میں انہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔مولانا شبلی نے افسوس ظاہر کیا کہ گزشتہ تین سالوں میں امارت شرعیہ ایسے ہاتھوں میں چلی گئی تھی، جن میں نہ دینی اہلیت تھی، نہ ملکی وابستگی۔ یہی وجہ ہے کہ 20 مارچ اور 22 مئی 2025 کو اراکینِ امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ ٹرسٹ وارباب حل وعقد اوراراکین شوریٰ نے متفقہ طور پر جناب احمد ولی فیصل رحمانی کو ان کے تمام عہدوں سے معطل ومعزول کر دیا اور حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کو بحیثیت امیر شریعت(چیئرمین ٹرسٹ) منتخب کیا گیا۔آخر میں انہوں نے کہا کہ الحمد للہ! امارت شرعیہ اب دوبارہ اپنے وقار پر لوٹ رہی ہے، اور ملت شریعت کی روشنی میں ایک بار پھر مستحکم قیادت کے زیر سایہ رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو فتنوں، انتشار اور ذاتی مفاد سے محفوظ رکھے۔
معروف دینی ادارہ مدرسہ محمودیہ سروٹ کے مہتمم مولانا کلیم اللہ صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ علم کا مقصد محض معلومات حاصل کرنا نہیں، بلکہ حق کے ساتھ کھڑے ہونا اور اہلِ حق کو ان کا حق دلانا ہے۔ اگر کسی کو اس کا حق نہ دیا جائے تو یہ دینی خیانت اور منافقانہ رویہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن و سنت کی روشنی میں دین کی امانت کو اہل تک پہنچانا ضروری ہے۔ مولانا کلیم اللہ نے حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کو امیر شریعت کے منصب کے لیے اہل، متقی اور بصیرت مند شخصیت قرار دیتے ہوئے ان کی حمایت کو اہلِ علم کی دینی ذمہ داری بتایا۔
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی، صدر آل انڈیا ملی کونسل بہار نے امارت شرعیہ، اس کے تاریخی کردار، امیر شریعت کے اوصاف اور مولانا انیس الرحمن قاسمی کی سیرت وبصیرت پر خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام محض عبادات کا دین نہیں؛ بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو اجتماعی نظم، امیر کی اطاعت اور قیادت کو اہمیت دیتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ امارت شرعیہ کا قیام علما کی اسی اجتماعی فکر کا نتیجہ ہے اور حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی اس کے لیے نہایت موزوں اور باصفات رہنما ہیں۔ ان کی قیادت تقویٰ، علم، فہم و فراست اور اخلاص کا پیکر ہے۔ انہوں نےفتاویٰ علمائے ہند جیسے علمی کارنامے انجام دیے اور عملی زندگی میں سادگی و للہیت کی روشن مثال ہیں۔
مدرسہ عائشہ نورچک کے بانی و ناظم مولانا محمد حسنین قاسمی نے کہا کہ حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی علم، حلم اور صالحیت کی حامل شخصیت ہیں، جنہوں نے دینی و عصری تعلیم کے امتزاج سے ملت کو فائدہ پہنچایا۔ ان میں امیر شریعت کے تمام اوصاف پائے جاتے ہیں اور انہوں نے مشکل حالات میں یہ منصب قبول کیا، جو ان کی دینی بصیرت کا ثبوت ہے۔ موجودہ دور میں ان کی قیادت امت کے لیے نعمت ہے، اور ان کا ساتھ دینا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہم ان کی اطاعت اور مکمل تعاون کا عہد کرتے ہیں۔
خادم القرآن والسنۃ، مولانا محمد شاہد ناصری حنفی (بانی ادارہ دعوۃ السنۃ، مہاراشٹر) نے کہا کہ حضرت مولانا سید نظام الدینؒ اور حضرت مولانا ولی رحمانیؒ کے انتقال کے بعد امارت شرعیہ بحران کا شکار ہو گئی، اور ایک غیر اہل شخص کو امیر شریعت بنایا گیا جس کا دینی پس منظر کمزور تھا۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نمائندوں نے متفقہ طور پر حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کو امیر شریعت منتخب کیا ہے، جو علم، تقویٰ اور قیادت کے اعلیٰ اوصاف سے متصف ہیں۔ ہم ان کی قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے مکمل سمع و طاعت اور دینی مشن کے فروغ کا عہد کرتے ہیں۔
مولانا فضیل احمد ندوی نے ملت کی زبوں حالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ساختیاتی اور اخلاقی اصلاح کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ محض جذباتی نعروں سے کچھ نہیں ہوگا، جب تک ہم اپنی سماجی ساخت، دینی تربیت اور نظم و ضبط کو درست نہ کریں۔ اگر تعلیمی ادارے اور قیادت خلوص نیت سے خود احتسابی اختیار کریں، تو ملت کی حالت بدلی جا سکتی ہے۔
مدرسہ اسلامیہ، بتیا کے صدر مولانا فیض احمد قاسمی نے کہا کہ حق کی پہچان اور اس کا ساتھ دینا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ امارت شرعیہ ملت کا دینی و اجتماعی اثاثہ ہے، جس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔ انہوں نے حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کی قیادت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان کے ساتھ کھڑے ہوکر دینی و سماجی چیلنجز کا سامنا کرنا چاہیے۔
معروف عالم دین مولانا قاسم ندوی تیل پوری نے کہا کہ امارت شرعیہ صرف ایک تنظیم نہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کی دینی شناخت اور شرعی قیادت کی علامت ہے۔ اس کا تحفظ ہم سب کی شرعی و ایمانی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی نہ صرف اس منصب کے اہل ہیں بلکہ انہوں نے مشکل حالات میں یہ ذمہ داری قبول کر کے ملت پر بڑا احسان کیا ہے۔
دربھنگہ کے معروف عالم دین مولانا حاجی نثار احمد قاسمی نے کہا کہ اپنے علاقے میں تعلیمی و سماجی خدمات انجام دینا کسی فردِ واحد کی شہرت سے زیادہ اہم ہے۔ امارت شرعیہ کے اکابرین نے کبھی ذاتی مقبولیت کے لیے نہیں بلکہ ملت کی اصلاح اور ادارے کی خدمت کے لیے کام کیا۔ انہوں نے حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کی قیادت کو قومی و بین الاقوامی سطح پر معتبر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت ہے کہ تمام اختلافات کو فراموش کر کے ہم حضرت امیر شریعت کی قیادت میں متحد ہوکر امارت شرعیہ کو اس کے اصل مقام تک پہنچائیں۔
حضرت مولانا ازہرمدنی سلفی نے حضرت امیر شریعت کی قیادت کو وامارت شرعیہ ااورملت کے لیے نیک فال قراردیا۔
دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ مولانا محمد سجاد قاسمی نے کہا کہ حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی ایک عبقری اور ہمہ جہت شخصیت ہیں، جنہوں نے علم، فقہ اور تفسیر میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ان کا امیر شریعت بننا امت کے لیے رحمت و نعمت اور اللہ کی خاص عنایت ہے۔ ہم اہلِ چمپارن اس فیصلے پر خوشی و اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔
قاضی شریعت حضرت مولانا عبدالحق قاسمی نے اعلان بیعت کیا اورحضرت کے ہاتھوں پر سمع وطاعت کا عہد لیا۔
اجلاس کا آغازمولانا اعجازاحمد قاسمی پروفیسر شمس ٹیچرس ٹریننگ کالج کی تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا،جب کہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر شمیم قمر ریاضی نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دی، جنہوں نے پورے پروگرام کو عمدگی کے ساتھ آگے بڑھایا۔انہوں نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہاکہ امیر شریعت کوئی معمولی منصب نہیں ہے،یہ وہ منصب ہے، جو امت کے اتحاد کو اسلامی تعلیمات کا نفاذ،شریعت مطہرہ کے بالادستی کا علم بردار ہے،ان ساری خوبیوں ست آراستہ وپیراستہ حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کی شخصیت ہے،جو ہمیں حضرت امیر شریعت کی صورت میں اللہ نے قبول فرماکر عطا کیا ہے۔
Comments are closed.