تلنگانہ کی کانگریسی حکومت میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے

 

تحریر : عماد عاقب مظفر پوری

 

119 رکنی تلنگانہ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 30 نومبر 2023 کو منعقد ہوئے تھے، نتائج کا اعلان 3 دسمبر 2023 کو کیا گیا تھا ۔
119 رکنی اسمبلی میں انڈین نیشنل کانگریس کو 64 نشستیں ملیں ، اور اسے 45 نشستوں کا فائدہ ہوا ، اس کے لیڈر انمولا ریونت ریڈی نے سات دسمبر کو وزیر اعلی کے عہدے کا حلف لیا ۔
جب کہ دو ہزار چودہ سے تلنگانہ پر حکومت کرنے والی جماعت بھارت راشٹرا سمیتی ( جو27/ اپریل 2001 سے پانچ اکتوبر 2022 تک تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کے نام سے تھی ) کو صرف 39 نشستیں ملیں اور اسے 49 نشستوں کا نقصان ہوا ،
افسوس کی بات یہ ہے ، ان دونوں بڑی پارٹیوں سے کوئی بھی مسلمان ممبر اسمبلی نہیں بن سکا ، کانگریس نے چھ اور بھارتیہ راشٹریہ سمیتی نے تین مسلم امیدوار اتارے تھے ۔جن میں کانگریس کے پانچ اور بھارتیہ راشٹریہ سمیتی کے دو امیدوار مجلس اتحاد المسلمین کے امیدواروں کے مقابل تھے ، مجلس نے کل نو امیدوار اتارے تھے جن میں ایک ہندو امیدوار راجیندر نگر سے تھا جو کامیاب نہیں ہوا۔
مجلس نے اپنی پرانی ساتوں نشستیں برقرار رکھیں ،
کانگریس نے مشہور کرکٹر اظہر الدین صاحب کو ان کے رہائشی حلقے جوبلی ہلز سے امیدوار بنایا تھا مگر وہ بھی ہارگئے ، اس حلقے میں سوا تینتیس فیصد مسلمان ہیں۔ وہاں سے ان کے مقابلے میں مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار راشد فیروز الدین صاحب تھے ۔ وہ بھی ہارگئے ، اور بھارت راشٹرا سمیتی کے ماگنتھی گوپی ناتھ کامیاب ہوئے ہیں،
مسلمانوں کی نمائندگی دکھانے کے لیےاسمبلی انتخابات کے ایک ماہ بعد ہی کانگریس کی ریونت ریڈی حکومت نےستائیس جنوری 2025 کو گورنر تلنگانہ سے اردو روزنامہ سیاست کے نیوز ایڈیٹر عامر علی خاں کو ممبر لیجسلیٹو کونسل (ایم ایل سی ) بنانے کی سفارش کی تھی ، اور عامر علی خان نے 16 اگست 2024 کو ایم ایل سی کے طور پر حلف لیا تھا ۔ مگر ان کی بطور ایم ایل سی حلف برداری کے دس ماہ گزرنے کے بعد بھی انہیں وزیر نہیں بنایا ،
پہلے خیال تھا کہ کانگریس کے ایک پرانے قائد، سابق ریاستی کابینی وزیر اور دین پسند مسلمان تہتر سالہ محمد علی شبیر صاحب کو ایم ایل سی بناکر وزیر کابینہ بنایا جائے گا ، مگر انہیں ایم ایل سی بھی نہیں بنوا گیا ۔
ریونت ریڈی حکومت میں فی الحال پندرہ وزراء ہیں ، تین وزراء کی مزید گنجائش ہے ، کسی اسمبلی کے پندرہ فیصد ارکان ہی وزیر بن سکتے ہیں ، اس قانون کے حساب سے 119 رکنی تلنگانہ اسمبلی کے اٹھارہ فیصد ارکان ہی وزیر بن سکتے ہیں ، چالیس رکنی تلنگانہ لیجسلیٹو کونسل کے ارکان بھی وزیر بنائے جاسکتے ہیں ،
تلنگانہ میں مسلمان بارہ اعشاریہ انہتر ( 12.69) فیصد ہیں تلنگانہ وزارت میں 2.28 مسلمانوں کا حق ہے ، پندرہ رکنی وزارت میں بھی دو مسلمان وزیر ہونے چاہئیں ۔
تلنگانہ کی کانگریسی وزارت میں مسلم نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان کانگریس کے خلاف عدم اعتماد میں اضافہ ہورہا ہے ۔

عامر علی خان، اردو روزنامہ سیاست کے نیوز ایڈیٹر ہیں ، وہ بھارتیہ راشٹریہ سمیتی ( بی آر ایس) حکومت کے وعدے کے مطابق 12 فیصد ریزرویشن کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والی تحریک میں سب سے آگے رہے ہیں۔
عامر علی خان کے نام کی سفارش تلنگانہ وزراء کی کونسل (کابینہ) نے 13 جنوری 2024 کو ہندوستان کے سب سے بڑے اردو روزناموں میں سے ایک ‘سیاست’ کی سماجی، اقتصادی، فلاحی اور تعلیمی سرگرمیوں کے اعتراف میں کی تھی اور 27 جنوری کو جاری کردہ گزٹ نوٹیفکیشن کے تحت انہیں ایم ایل سی کے طور پر مقرر کیا گیا تھا جسے گورنر نے منظور کیا تھا ۔ عامر علی خان نے 16 اگست 2024 کو ایم ایل سی کے طور پر حلف لیا۔
حیدرآباد شہر میں اسمبلی کے کل چوبیس حلقے ہیں ، جن میں سے سات مسلم اکثریتی ہیں اور ان ہی ساتوں حلقوں سے مجلس اتحاد المسلمین دو ہزار نو سے کامیاب ہورہی ہے ، اس کے حیدرآباد سے دو ایم ایل سی بھی ہیں ۔

*افسوس ناک پہلو*
نومبر دو ہزار تیئیس کے تلنگانہ اسمبلی انتخابات کے نتائج کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اقتدار میں آنے والی انڈین نیشنل کانگریس اور اقتدار کھونے والی بھارتیہ راشٹرا سمیتی کے مسلم امیدواروں میں سے ایک بھی کامیاب نہیں ہواہے،

*کانگریسی مسلم امیدواروں کی حالت*
کانگریس نے چھ مسلم امیدوار اتارے تھے، جن میں سے پانچ مجلس اتحاد المسلمین کے امیدواروں کے مقابل تھے، چار تو ایسی سیٹیں تھیں ، جو مجلس کی پرانی سیٹیں ہیں،

جوبلی ہلس اسمبلی نشست دو ہزار نو سے ہے اور وہاں کبھی بھی مجلس کامیاب نہیں ہوئی ہے، وہاں مجلس کے راشد فیروز الدین صاحب مشہور کرکٹر اور کانگریسی امیدوار محمد اظہر الدین سے مقابلہ کر رہے تھے، وہ دونوں ناکام ہوگئےہیں، اور
بھارت راشٹر سمیتی کے ماگنتھی گوپی ناتھ کامیاب ہوئے ہیں، وہ دو ہزار چودہ اور اٹھارہ میں بھی کامیاب ہوئے تھے،
اگر مجلس یہاں اپنا امیدوار نہ اتارتی تو بہت اچھا ہوتا ،
کانگریس کے ایک پرانے قائد، سابق ریاستی کابینی وزیر اور دین پسند مسلمان تہتر سالہ محمد علی شبیر صاحب کی ہار بھی افسوسناک ہے، وہ نظام آباد اربن سے کانگریس کے امیدوار تھے، وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھنپال سوریہ نارائنن گپتا سے پندرہ ہزار تین سو ستاسی ووٹوں سے ہار گئے ہیں، گپتا کو پچھتر ہزار دو سو چالیس (40.82%) ووٹ ملے ہیں جب کہ شبیر صاحب کو انسٹھ ہزار آٹھ سو ترپن (32.47%) ووٹ ملے ہیں، دو ہزار چودہ اور اٹھارہ میں اسی حلقے سے کامیاب ہونے والے بھارت راشٹر سمیتی کے بگلا گنیش گپتا کو چوالیس ہزار آٹھ سو انتیس (24.32%) ووٹ ملے ہیں، اس سیٹ سے اس سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کبھی کامیاب نہیں ہوئی تھی، یہاں سے انیس سو باون اور ستاون میں کانگریس کے ٹکٹ پر محمد داور حسین کامیاب ہوئے تھے، اس کے بعد سے اب تک یہاں کوئی مسلمان کامیاب نہیں ہوسکا ہے، اس حلقے میں سوا اکتالیس فیصد مسلمان ہیں ۔
پرانے حیدر آباد شہر کی سات نشستوں پر ہی مسلمان اکثریت میں ہیں ، وہاں باون تا بیاسی فیصد مسلمان ہیں ، اور وہیں سے مجلس کے امیدوار دو ہزار نو سے کامیاب ہوتے ہیں، دیگر حلقوں سے کسی مسلمان کا کامیاب ہونا آسان نہیں ہے،

*بھارت راشٹر سمیتی کے مسلم امیدواروں کی حالت*
بھارت راشٹر سمیتی نے تین مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا، دو مجلسی امیدواروں کے مقابل تھے جن کی کامیابی کی کوئی امید نہیں تھی،
مگر نظام آباد کے بودھن اسمبلی حلقے سے سیٹینگ ممبر اسمبلی محمد شکیل عامر کی کامیابی کی امید تھی، وہ کانگریسی امیدوار سدرشن ریڈی سے تین ہزار باسٹھ ووٹوں سے ہار گئے ہین، دو ہزار چودہ اور اٹھارہ میں محمد شکیل عامر نے سدرشن ریڈی کو ہرایا تھا، اس حلقے میں اٹھائیس فیصد مسلمان ہیں ۔
مسلم امیدواروں سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ستائیس نومبر 2023 کو لکھا میرا مضمون ” تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں کسے ووٹ دیں ” پڑھیں

*حیدرآباد کے مسلمانوں سے گذارش*
آئندہ اسمبلی انتخابات میں حیدرآباد کے سات مسلم اکثریتی اسمبلی حلقوں کے رائے دہندگان کو چاہیے کہ وہ کم ازکم دو یا تین پر انڈین نیشنل کانگریس یا بھارتیہ راشٹر سمیتی کے مسلم امیدواروں کو کامیاب کرائیں تاکہ ان دونوں پارٹیوں میں سے کسی کی حکومت بننے پر وزارت میں بھی مسلمانوں کو بآسانی نمائندگی مل سکے ۔ اور مجلسی لیڈران بھی ہار کے خوف سے کچھ کام کریں ۔

*ریونت ریڈی حکومت سے ہمارا مطالبہ*
تلنگانہ کی ریونت ریڈی حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ جلد از جلد محمد علی شبیر صاحب کو ایم ایل سی بنایا جائے اور عامر علی خاں صاحب اور محمد علی شبیر صاحب کو کابینہ درجے کا وزیر بنایا جائے ۔

Comments are closed.