عالمی یوگا ڈے: ایمان کا امتحان یا جسمانی ورزش کا فریب؟

 

از قلم: محمد فرقان

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

اس وقت دنیا میں ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت تہذیبی یلغار کو فروغ دینے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ انسان کی شناخت، اس کی تہذیب، اس کی مذہبی وابستگی اور اس کے عقائد کو ملیا میٹ کر کے اسے ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے کا کام کیا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ”عالمی یوگا ڈے“ (International Yoga Day) ہے، جسے ہندوتوا نظریے کی حامل حکومت کی تجویز پر اقوام متحدہ نے منظور کیا، اور ہر سال 21/جون کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اگرچہ اسے صحت، ورزش اور جسمانی فٹنس (Physical Fitnes) کے نام پر پیش کیا جاتا ہے، مگر درحقیقت اس کی جڑیں خالصتاً ایک مخصوص مذہب اور عقیدے سے جڑی ہوئی ہیں، جس کا مقصد آہستہ آہستہ غیر ہندو قوموں خصوصاً مسلمانوں کو ایک برہمنی نظام فکر و عبادت کی طرف مائل کرنا ہے۔

یوگا صرف ایک جسمانی مشق نہیں بلکہ برہمن ویدک مذہب (Brahmanical Vedic Religion) کا ایک بنیادی جزو ہے۔ قدیم ہندو متون جیسے ”یوگا سوترا“ (Yoga Sutras) اور ”بھگوت گیتا“ (Bhagavad Gita) میں یوگا کو ”موکش“ (Moksha) یعنی نجات کے راستے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یوگا کے مختلف آسن دراصل ہندو دیوی دیوتاؤں کے سامنے جھکنے، ان کی پرستش کرنے اور جسم و روح کو برہمن (ہندو عقیدے کے مطابق کائناتی روح) سے ملا دینے کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ متنازع اور اسلام کے اصولوں کے بالکل منافی ”سوریہ نمسکار“ ہے، جو سورج کو دیوتا مان کر اس کے سامنے جھکنے، اس کی حمد و ثنا بیان کرنے اور اس کی پرستش پر مبنی ہوتا ہے۔ اس میں جو منتر پڑھے جاتے ہیں، وہ سراسر شرکیہ ہیں اور انسان کو توحید کے راستے سے ہٹا کر شرک کی گہرائیوں میں لے جاتے ہیں۔

اسلام ایک خالص توحیدی مذہب ہے، جس کی بنیاد ”لا الٰہ الا اللہ“ پر ہے۔ مسلمان صرف اللہ کے سامنے جھکتا ہے، اور صرف اسی کو سجدہ کرتا ہے۔ نہ وہ سورج، چاند، ستارے، درخت یا پتھر کو معبود مانتا ہے اور نہ ہی ان کے سامنے جھکتا ہے۔ قرآن نے واضح طور پر کہا: ”۔وَلا تَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ“ (سورہ ہود، آیت 133) یعنی ”ظالموں کی طرف جھکاؤ بھی نہ اختیار کرو، ورنہ تمہیں بھی آگ پکڑ لے گی۔“ لہٰذا جو بھی انسان اسلامی عقیدے پر مضبوطی سے قائم ہے، وہ کسی صورت یوگا جیسی مشرکانہ رسموں میں شرکت نہیں کر سکتا۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا ہے کہ: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“ (سنن أبی داود) یعنی ”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، قیامت کے دن اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔“ یہ حدیث اس بات پر کھلی دلیل ہے کہ مسلمانوں کے لیے غیر مسلم اقوام کی مذہبی رسومات، تہوار، اور عبادات میں کسی قسم کی شرکت یا مشابہت جائز نہیں ہے۔ یوگا اور سوریہ نمسکار نہ صرف ہندوانہ عبادات کا حصہ ہیں بلکہ انہیں ”روحانی ورزش“ (Spiritual Exercise) کے طور پر پیش کر کے مسلمانوں کو فریب میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ وہ انجانے میں بھی ان مشرکانہ اعمال کا حصہ بن جائیں۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دین کی بنیادوں کو مضبوط کریں، توحید کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھیں، اور اپنے بچوں کو بھی اس فکری حملے سے بچائیں۔ افسوس کہ آج کچھ اسکول، کالج اور سرکاری ادارے اپنے طلبہ کو یوگا کے لیے مجبور کرتے ہیں، اور بعض مسلمان والدین محض لاعلمی یا معاشرتی دباؤ کے تحت اپنے بچوں کو ان پروگراموں میں بھیج دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ صرف ایک شرکت نہیں بلکہ ایمان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ جو شخص دانستہ طور پر یوگا یا سوریہ نمسکار جیسی مشرکانہ رسومات میں شامل ہوتا ہے، وہ درحقیقت اپنے عقیدے کی بنیاد کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ”ہم تو صرف ورزش کے طور پر یوگا کرتے ہیں، ہمیں اس کی مذہبی حیثیت سے کوئی لینا دینا نہیں۔“لیکن اسلام کی نظر میں کسی عمل کی نیت سے زیادہ اس کی ماہیت اور اصل حیثیت بھی دیکھی جاتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص اگر کعبہ کی طرف منہ کر کے سجدہ کرے تو وہ عبادت ہے، لیکن اگر وہی عمل کسی بت یا سورج کی طرف رخ کر کے کیا جائے، تو وہ عبادت نہیں بلکہ شرک بن جائے گا، چاہے نیت کچھ بھی ہو۔ اسی طرح یوگا کی اصل حیثیت چونکہ ایک مذہبی رسم ہے، اس لیے اسے ورزش کا نام دینا محض خود فریبی ہے۔ علمائے کرام اور فقہائے اسلام نے یوگا کے بارے میں واضح فتوے دیے ہیں کہ چونکہ یہ ہندوانہ مذہب سے جڑا ہوا عمل ہے، لہٰذا اس میں شرکت یا اس کو اپنانا ناجائز و حرام ہے۔ ام المدارس دارالعلوم دیوبند اور دیگر بڑے اسلامی ادارے متعدد بار یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ یوگا کی ترویج دراصل ایک برہمنی ایجنڈے کا حصہ ہے اور اس سے مسلمانوں کو ہر قیمت پر بچنا چاہیے۔ ان فتوؤں کی روشنی میں ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ خود بھی ان چیزوں سے بچے اور دوسروں کو بھی روکے۔

آج ہمارے معاشرے میں دینی شعور کی کمی، میڈیا کے پروپیگنڈے، اور تعلیم یافتہ طبقے کی غفلت کے باعث مسلمانوں کے گھروں میں بھی یوگا کو فیشن اور صحت کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔ حتیٰ کہ بعض مسلمان ٹی وی چینلز پر یوگا سیکھتے اور سکھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ نہ صرف دین سے دوری کی علامت ہے بلکہ ایک سنگین گمراہی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جسمانی صحت کی بہت ساری شکلیں اور متبادل ورزشیں موجود ہیں، جیسے واک (Walking)، جاگنگ (Jogging)، سائیکلنگ (Cycling)، تیراکی (Swimming) وغیرہ، جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اور مسلمانوں کے لیے سب سے جامع اور پاکیزہ ورزش، نماز ہے، یہ مسلمان کے لیے صرف عبادت نہیں بلکہ کامل ورزش بھی ہے۔ اس سے بڑھ کر صحت بخش اور روح افزا مشق دنیا میں کوئی نہیں۔ تو پھر آخر ہم کیوں ان مشرکانہ رسومات کا سہارا لیں، جو ہمارے ایمان کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں؟ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

یوگا کی رسمیں شرک کا پیغام ہیں

مسلم ہے وہی جو توحید کا غلام ہے

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یوگا ڈے کو مرکزی، ریاستی اور ضلعی سطح پر سرکاری تعاون کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اسکولوں، کالجوں، دفاتر اور دیگر اداروں تک میں اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اگر مسلمانوں کو اس میں شرکت پر مجبور کیا جائے تو یہ مذہبی آزادی پر کھلی چوٹ ہے، جسے ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کا آئین ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور کسی مذہبی رسم میں شرکت نہ کرنے کا حق دیتا ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی مسلمان بچہ یا طالب علم یوگا میں شرکت پر مجبور کیا جاتا ہے تو والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں، اسکول انتظامیہ کو تحریری شکایت دیں اور آئینی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے اپنے بچوں کے ایمان کی حفاظت کریں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایمان اللہ تعالیٰ کی سب سے قیمتی نعمت ہے۔ اگر ایمان محفوظ رہا تو سب کچھ محفوظ ہے، اور اگر ایمان چلا گیا تو کچھ بھی باقی نہ رہا۔ دنیا کی وقتی کامیابی، معاشرتی قبولیت، یا وقتی آرام کبھی بھی ہمارے ایمان کا بدل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو دینی شعور دینا ہوگا، انہیں توحید کا مفہوم سکھانا ہوگا، اور ہر اس چیز سے دور رکھنا ہوگا جو ان کے ایمان کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ لہٰذا تمام اہل ایمان پر فرض بنتا ہے کہ وہ پوری بصیرت، ایمانی غیرت اور دینی شعور کے ساتھ اس حقیقت کو دل و جان سے تسلیم کریں کہ یوگا اور سوریہ نمسکار محض جسمانی ورزش نہیں، بلکہ درحقیقت ایک ایسی مذہبی رسم ہے جس کی جڑیں خالص مشرکانہ عقائد میں پیوست ہیں، اور جو اسلام کے توحیدی عقیدے سے سراسر متصادم ہے۔ ایسے اعمال میں شرکت نہ صرف مسلمانوں کے ایمان کے لیے خطرناک ہے، بلکہ رفتہ رفتہ یہ عمل ان کے عقیدے کو مجروح کر کے انہیں فکری گمراہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم خود بھی ان ہندوانہ رسومات سے مکمل علیحدگی اختیار کریں، اپنے بچوں کو اس کے فتنوں سے محفوظ رکھیں، اور اپنے اہلِ خانہ، دوستوں، تعلیمی اداروں اور پورے معاشرے کو بھی اس فکری یلغار کے خطرات سے آگاہ کریں، خاص طور پر علماء، ائمہ و خطباء حضرات اپنے خطاب جمعہ اور جلسوں میں اس پر روشنی ڈالیں۔ یہ محض ایک انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم تعلیمی اداروں، سرکاری محکموں، اور حکومتی پالیسی سازوں کے سامنے پُرامن مگر جرأت مندانہ انداز میں احتجاج کریں، آئینی دائرے میں رہتے ہوئے آرٹیکل 25 کے تحت اپنے مذہبی حقوق کا دفاع کریں، اور اس بات پر زور دیں کہ کسی بھی قوم کو اس کے مذہب کے خلاف کسی رسم یا عبادت میں شریک کرنے پر مجبور کرنا نہ صرف آئینی جرم ہے بلکہ انسانی حقوق کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم نیند سے بیدار ہوں، مصلحت کی چادر کو جھاڑ کر کھڑے ہوں، اور اپنی نسلوں کے ایمان و عقیدہ کو ہر اس چیز سے بچائیں جو ان کے دین کے لیے زہر قاتل ہے۔ یہ وقت بے حسی، لاپرواہی یا خاموشی کا نہیں، بلکہ بیداری، شعور، اور اقدام کا ہے۔ کیونکہ ایمان ایک ایسی دولت ہے کہ اگر وہ سلامت ہے تو دنیا کی ہر محرومی معمولی لگتی ہے، اور اگر ایمان چلا جائے تو دنیا کی ساری کامیابیاں اور عزتیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ایمان کی حفاظت دنیا کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے، اور اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان پر استقامت عطا فرمائے، باطل تہذیبوں کے دھوکوں سے محفوظ رکھے، اور ہر دور کے فتنوں سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو سلامت رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔

جھکنے نہ پائے سجدہ غیر میں پیشانی

یہی تو شان ہے ملت کی، یہی ایمانی

(مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر ہیں)

Comments are closed.