اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا*اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا : علامہ اقبال

کاشف حسن
لیکچرر جامعہ اسلامیہ کیرلا
امریکی حملہ، جو بظاہر "خالی احاطوں” پر ہوا ہے، اور جہاں حملہ ہوا ہے، وہاں کی زندگی اُس پاس کی زندگی کی طرح روزمرہ کی ہے، ابھی حقیقت چھن کر آنی باقی ہے، لیکن پہلا ردِ عمل یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل ایک سفارتی چال تھی، جس کا مقصد صرف اسرائیلی دباؤ کو کم کرنا تھا، بلکہ امریکہ کو کسی براہِ راست زمینی ردِ عمل سے بچانے کا بہانہ بھی تراشنا تھا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ حملہ امریکہ کی اُس نئی حکمتِ عملی کا حصہ ہو سکتی ہے ، جس میں براہِ راست تصادم کے بجائے پراکسی جنگوں، محدود فضائی کارروائیوں، اور اطلاعاتی مہمات کو فوقیت دی جا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق ایران نے اپنے طور پر نہ صرف اس حملے کی پیشگی اطلاع حاصل کر لی تھی، بلکہ پلانٹ سے جُڑی بہت سی چیزوں کو پہلے ہی دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا تھا۔
اب ایران کے لیے فیصلہ کن موڑ آ چکا ہے۔ بلاشبہ اخلاقی و قانونی طور پر امریکہ کے اڈوں کو نشانہ بنانا ایک جائز اور متناسب اقدام ہوگا، لیکن زیادہ اہم اور نتیجہ خیز راستہ یہ ہوگا کہ ایران اپنی کارروائی کو اسرائیل پر مرکوز رکھے۔ اسرائیل کو براہِ راست اور شدید فوجی نقصان پہنچانے، حمہ مذید شدید ہو یہ عمل نہ صرف ایران کے لیے ایک علامتی فتح ہوگا، بلکہ عالمِ اسلام اور دنیا کے اُن مظلوم طبقات کے لیے بھی حوصلہ افزائی کا سبب بنے گا، جو مغربی استعمار کے جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔
ایران پر امریکی حملے کے بعد خود ایران کے اندر کے مخالفین بھی اب یکجا ہوں گے، اور ایک وحدت پیدا ہو جائے گی۔ ماضی میں حکومت کے ناقدین، اصلاح پسند طبقے اور قوم پرست حلقے جو داخلی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے، اب وطن کے دفاع کے نام پر ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔
یہ منظرنامہ صرف ایران اور اسرائیل یا ایران اور امریکہ تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی تہذیبی کشمکش ہے۔ وہ افریقی و ایشیائی اقوام جو آج بھی مغربی ترقی کے سراب کے پیچھے دوڑ رہی ہیں، انھیں تاریخ کا یہ لمحہ ایک آئینہ دکھا رہا ہے کہ مغرب انہیں کبھی برابری کا مقام دینے کو تیار نہیں ہوگا۔ نہ ٹیکنالوجی، نہ جمہوریت، نہ انسانی حقوق ، کوئی بھی میدان ایسا نہیں جس میں غیر مغربی اقوام کو آزاد فکری، سماجی یا اقتصادی حیثیت میں مغرب جگہ دے سکتا ہے۔ ان اقوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ اس وقت تک حقیقی ترقی حاصل نہیں کر سکتیں جب تک اپنے داخلی تعصبات، غلامانہ ذہنیت، اور اقتدار پرست قیادتوں سے نجات حاصل نہ کریں۔
روس اور چین، بلاشبہ مغربی استعمار کی منفی روش سے آگاہ ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ براہ راست مغرب سے برسر پیکار نہیں ہیں ، ان کی اپنی ترجیحات اور مفادات ہیں۔ وہ ایران کی مزاحمت سے تو ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن اس مزاحمت کی حمایت کو اپنے اسٹریٹیجک فائدے تک محدود رکھتے ہیں۔ نہ ان کے پاس کوئی مربوط منصوبہ ہے کہ مسلم دنیا یا جنوبی ایشیا کو کیسے ایک آزاد اور خودکفیل بلاک میں تبدیل کیا جائے، اور نہ وہ اپنے دفاعی دائرے سے باہر نکل کر تہذیبی لڑائی کے میدان میں کودنا چاہتے ہیں۔ برصغیر، وسطِ ایشیا، اور خطۂ سبز کے ممالک اب بھی فکری کمزوری، حکومتی جمود، اور عوامی غفلت کا شکار ہیں۔ وہ صرف ردِ عمل دیتے ہیں، منصوبہ بندی نہیں کرتے؛ وہ صرف احتجاج کرتے ہیں، تعمیر نہیں کرتے۔ ایران کی موجودہ پالیسی ان تمام اقوام کے لیے سبق ہے کہ خود اعتمادی، تیاری، اصولی موقف، اور بین الاقوامی مکالمے کے ساتھ کھڑے ہو کر ہی کوئی قوم اپنی آزادی اور عزت کا دفاع کر سکتی ہے۔
ایران نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ اس نے حملے سے قبل ہی یورینیم کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا، اور تمام حساس مواد و معلومات ان کے پاس محفوظ ہیں۔
امریکی حملے کے بعد یران کا پیغام
‘دشمن ایک گمراہ کن فکر میں مبتلا ہے کہ اس نے ہماری ایٹمی تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہے، لیکن ہم نے اس کی سازشوں کو مارچ ہی میں بے نقاب کر دیا تھا۔ ہم نے وقت پر تمام اسٹریٹجک مواد کو محفوظ ٹھکانوں پر منتقل کر دیا تھا۔ یورینیم اب بھی مکمل طور پر ہمارے قبضے میں ہے؛ دشمن صرف دھوئیں پر وار کر رہا ہے
یہ جنگ ہمارے لیے اچانک یا غیرمتوقع نہیں تھی، بلکہ ہم نے اسے پہلے پیشگی معلومات حاصل کر لیا تھا اور پوری تیاری کے ساتھ مقابلے کے لیے ہمہ وقت تیار تھے۔ ہم نے اپنی تلواریں تیز کر لی تھیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ انہیں غلاف سے باہر نکالا جائے
یہ انقلاب کی سرزمین ہے جہاں ہر وار حساب و کتاب سے سوچ سمجھ کر اور یقین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔”
اگر ہم ایک لمحے کے لیے تمام تجزیوں، ایران نواز یا مخالف بیانیوں کو نظرانداز کر کے صرف امریکی و اسرائیلی ذرائع مثلاً فاکس نیوز کے زاویے سے بھی دیکھیں، جہاں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایران کی یورینیم افزودگی کی تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا ہے، تو بھی یہ کسی حتمی یا فیصلہ کن کامیابی کا اعلان نہیں سمجھا جا سکتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کی ایٹمی صلاحیت کا انحصار صرف ایک یا دو تنصیبات پر نہیں، بلکہ اس کی سائنسی و نظریاتی بنیاد پر ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی ادارے تسلیم کر چکے ہیں کہ ایران پہلے ہی 60 فیصد یورینیم افزودگی حاصل کر چکا ہے اور ایٹمی سائنس کا مسلمہ اصول ہے کہ جب کوئی ریاست اس سطح تک پہنچ جائے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے ایٹمی ہتھیار بنانے کے تمام نظریاتی مراحل مکمل کر لیے ہیں۔
یعنی اصل مرحلہ "علم” اور "ریسرچ” کا ہوتا ہے پریکٹیکل نفاذ محض وقت، وسائل اور فیصلہ سازی کا معاملہ رہ جاتا ہے۔
ایران کا ایٹمی پروگرام کسی خفیہ سیل یا چند سائنسدانوں کی محدود کوشش نہیں، بلکہ ایک منظم سائنسی، تعلیمی، عسکری اور صنعتی ڈھانچے پر مبنی ہے، جو ہزاروں ماہرینِ طبیعیات، کیمیا دانوں اور انجینئروں پر مشتمل ہے۔ اس پورے نظام کو "ولایتِ فقیہ” کے تحت ریاستی سرپرستی، نظریاتی پشت پناہی، اور مستقل ادارہ جاتی تحفظ حاصل ہے۔
لہٰذا، چند مخصوص تنصیبات پر حملہ کر کے ایران کو ایٹمی میدان سے نکال دینا، ایک خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔
نصر من الله وفتح قريب.
Comments are closed.