ایران اسرائیل جنگ ہماری صفوں کو بکھرنے نہیں دے!

 

شمع فروزاں

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی

صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لئے جو دین ِحق بھیجا ہے، اس کی بنیادی خصوصیت ہے :عدل، عدل کے معنی ہیں: ہر ایک کے ساتھ انصاف، حق کو قبول کرنا اور ظلم سے نفرت، چاہے وہ کسی انسان یہاں تک کہ جانور یا اللہ تعالیٰ کی کسی اور مخلوق کے ساتھ ہو، یہ در اصل انسان کی فطرت کی آواز ہے؛ اسی لئے ایک شریف انسان ظلم کو دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے اور اس کا دل بے چین ہو جاتا ہے، اگر انسان اس کیفیت سے محروم ہو جائے تو اس کے اور درندہ کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جائے گا، یہ فرد سے لے کر قوم اور حکومت تک سبھوں کے اخلاق وکردار کو تولنے کا معیار ہے؛ اس لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف اسلوب میں کم سے ۳۰؍ مقامات پر قرآن میں عدل کا حکم دیا ہے، کم ہی کسی اور عمل کی اس درجہ تاکید کی گئی ہے۔

مسلمانوں کو خاص کر ہر شخص اور ہر مخلوق کے ساتھ عدل سے کام لینے اور ہر مظلوم کو ظلم سے بچانے کا حکم فرمایا گیا ہے؛ اگرچہ اس میں مسلمان اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے؛ لیکن مسلمانوں کے ساتھ انسانی رشتوں کے علاوہ ایک دینی رشتہ بھی ہے؛ اس لئے مسلمانوں کو خصوصی طور پر اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں عدل وانصاف سے کام لینے، اس پر ظلم کرنے سے بچنے اور اس کو ظلم سے بچانے کی تعلیم دی گئی ہے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

المسلم اخوا المسلم لا یظلمہ، ولا یسلمہ من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ، ومن فرج عن مسلم کربۃ فرج اللہ عنہ بھا کربۃ من کرب یوم القیامۃ، ومن ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ (مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، حدیث نمبر: ۲۵۸۰)

ترجمہ: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس پر ظلم ہوتا ہوا چھوڑ دیتا ہے، پھر جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت میں کام آئے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کو پوری فرما دیں گے، اور جو شخص کسی مسلمان سے کوئی مصیبت دور کردے اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو دور فرما دیں گے اور جو مسلمان کسی مسلمان کی غلطی کو ڈھانپ دے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ کو ڈھانپ دیں گے۔

مسلمانوں میں یہ مزاج ہمیشہ قائم رہنا چاہئے؛ مگر افسوس کہ آج اُمت اس جذبۂ اُخوت سے محروم ہوتی جا رہی ہے، بالخصوص عالمی سطح پر مسلمانوں کی صورت حال نہایت افسوس ناک اور انجام کے اعتبار سے تباہ کن ہے، اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد عالم اسلام پارہ پارہ ہوگیا، اس کو چھوٹی چھوٹی بے وزن اور بے اثر ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا گیا، اور مغرب نے ایک منصوبہ کے تحت ان کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ آج وہ اپنے ملکی مسائل کا فیصلہ بھی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے، اشیاء کے تبادلہ کے لئے کون سی کرنسی استعمال کریں، اپنے ملک میں صنعتوں کو کس حد تک فروغ دینا ہے، ان کی زمین میں جو قدرتی خزانے ہیں، ان کو کس حد تک نکالنا ہے، اور کس قیمت میں فروخت کرنا ہے، کن ملکوں سے دوستی رکھنی ہے اور کن ملکوں کی دشمنی میں خواہی نخواہی شامل ہونا ہے؟ ان سب میں وہ مغربی طاقت کے دست نگر ہیں، یوں تو پوری امت مسلمہ اس صورت حال سے گزر رہی ہے؛ لیکن اس سلسلہ میں سب سے ابتر صورت حال عالم عرب کی ہے، اور شاید ان کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا ہے؛ کیوں کہ خلافت عثمانیہ کو توڑنے اور اسرائیل کو قائم کرنے میں اہل مغرب نے ان ہی کو آلۂ کار بنایا تھا، اور آج تمام عرب حکومتیں مغرب اور اسرائیل کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو مجبور ہیں، عجمی مسلم ممالک جیسے ترکی، افغانستان، ملیشیاء وغیرہ تو کم سے کم زبان کھولتے ہیں؛ لیکن اِن ملکوں میں زبان کو حرکت دینے کی جرأت بھی نہیں ہے، اوران کو ایسا زہر دے دیا گیا ہے کہ ان کی غیرت وحمیت بھی دم توڑ چکی ہے۔

اس کی ایک واضح مثال عرب اور اسرائیل قضیہ ہے، اسرائیل چاروں طرف سے عرب ملکوں سے گھِرا ہوا ہے، ان ہی ملکوں سے اسرائیلی جہاز گزرتے ہیں، وہ پڑوسی عرب ملکوں سے زور زبردستی سے پینے کا پانی حاصل کرتا ہے، فلسطینیوں پر کھلا ہوا ظلم کرتا ہے، بین الاقوامی قوانین کو تار تار کر رہا ہے، جب چاہتا ہے پڑوسی ملکوں پر بمباری کرتا ہے، اس کے ظلم کی وجہ سے فلسطینی فاقہ سے مر رہے ہیں، ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگ شہید ہو چکے ہیں، جن انسانی حقوق کی امریکہ اور یورپ دہائی دیتا ہے، یہاں ہر دن ان کو پامال کیا جاتا ہے؛ لیکن فلسطین کے پڑوسی کسی مسلمان ملک کو یہ توفیق نہیں کہ وہ کم سے کم فلسطین کے مظلوموں کے لئے اپنی سرحدیں کھول دیں، ان میں سے صرف اردن اور مصر اپنی سرحدیں کھول دیتے اور خلیجی ممالک اپنی ضائع ہونے والی غذائیں فلسطین میں پہنچا دیتے تو اس طرح ان کی جانیں نہیں جاتیں اور اسرائیل کے حوصلے اتنے بلند نہیں ہوتے، اب ایک مدت کے بعد یہ خوش آئند پہلو سامنے آیا ہے کہ ایران نے اسرائیل کو ظلم سے روکنے کی کوشش کی ہے اور اس میں اس کو کسی قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے، بجائے اس کے کہ عالم عرب اس جنگ میں ایران کے ہم نوا ہوتے اور اپنے مشترک دشمن اسرائیل کو جھکنے پر مجبور کرتے، صورت حال یہ ہے کہ یہ سب اسرائیل کو تحفظ دے رہے ہیں، سارے عرب اور خلیجی ممالک اسرائیلی فضائیہ کے لئے اپنی فضاء فراہم کر رہے ہیں، اور ایران کی طرف سے جو میزائیل اسرائیل کی طرف جاتے ہیں، ان کو روکنے میںاسرائیلیوں کی مدد کر رہے ہیں، یہ کس قدر شرمناک بات ہے!

’’عذر ِگناہ بدتر از گناہ‘‘ کے مصداق اب کچھ لوگ اس کو شیعہ سنی نزاع کا عنوان دے کر ایران کو مجرم قرار دینے اور عرب پڑوسیوں کو بے قصور قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ نہایت افسوس ناک بات ہے، یہ لڑائی شیعہ سنی کی لڑائی نہیں ہے، یہ ظالم اور مظلوم کی لڑائی ہے، اسرائیل کھلا ہوا مجرم ہے، اور فلسطین سے لے کر ایران تک پوری مسلم قوم واضح طور پر مظلوم ہے، اور فلسطینیوں پر تو ایسا ظلم کیا جا رہا ہے کہ شاید تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملے، جس نے نازیوں کی طرف سے ہونے والے یہودیوں کے ظلم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے؛ اس لئے ضرورت ہے کہ مسلمان اس صورت حال کو محسوس کریں، اس موقع پر شیعہ اور سنی اختلاف کو اُبھارنا مغرب کی سازش اور مغرب کے آلہ کار منافقین کی کوشش ہے۔

کچھ لوگ شیعہ سنی ایجنڈے کو طاقت پہنچانے کے لئے یہ کہہ رہے ہیں کہ جب فلسطین پر ظلم ہو رہا تھا تو اس وقت ایران نے کیا کچھ کیا؟ یہ ایک معقول سوال ہے؛ مگر سوال یہ ہے کہ عرب ملکوں کا جو فلسطینیوں سے دوہرا رشتہ ہے، ایک اسلامی اخوت کا اور دوسرا عربیت کا، انھوں نے اس سلسلہ میں کیا قدم اُٹھایا؟ ایران اور اس کی ہم نوا طاقتوں نے تو فلسطین قائدین کو پناہ دی، لبنان اور یمن نے ان پر میزائل داغے، ان بزدلوں سے تو یہ بھی نہیں ہو سکا، حقیقت یہ ہے کہ کہ فلسطین سے بے اعتنائی برتنے کے مجرم سبھی مسلم ممالک ہیں؛ لیکن اس سلسلہ میں فلسطین کے پڑوسی عرب ممالک اور پٹرول کی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک سب سے بڑے مجرم ہیں، اللہ تعالیٰ کے یہاں تو ان کو حساب دینا ہی ہوگا؛ لیکن دنیا میں بھی بے وزنی، ناطاقتی اور رسوائی کی شکل میں ان کو اس کی سزا مل ہی رہی ہے، اور مستقبل میں بھی ملتی رہے گی۔

اسلام نے ہمیں دو بنیادی باتوں کی تعلیم دی ہے، ایک یہ کہ ہم ظالم کے مقابلہ مظلوم کا ساتھ دیں، دوسرے یہ کہ اگر دو ظالموں اور نامنصفانہ طاقتوں سے سابقہ ہو تو کم تر درجہ کو گوارا کریں اور بڑے دشمن سے دوری اختیار کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جب رومیوں اور ایرانیوں کے درمیان جنگ ہوئی تو مسلمانوں کا جھکاؤ رومیوں کی طرف تھا؛ کیوں کہ وہ توحید کے ، نبوت ورسالت کے اور تصور آخرت کے قائل تھے، اور متعدد باتوں میںوہ مسلمانوں کی سوچ سے اتفاق رکھتے تھے، اس کے بر خلاف ایران کے لوگ مشرکین سے قریب تھے اور کھلے ہوئے شرک میں مبتلا تھے، موجودہ حالات میں یہی رویہ قابل عمل ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان بعض بڑے اختلاف ہیں، خاص کر صحابہ کے بارے میں شیعہ حضرات کی جو سوچ ہے، وہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے، یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ایران کے دارالحکومت تہران میں مندر بھی ہے، چرچ بھی ہے، گرودوارہ بھی ہے اور یہودیوں کی عبادت گاہ بھی ہے، مجوسیوں کا آتش کدہ بھی ہے؛ لیکن اہل سنت کی کوئی مسجد نہیں ہے، میں نے خود یہ منظر تہران میں دیکھا ہے، یہی اعتراض اہل تشیع کو بھی سنی ملکوں پر ہے، خاص کر سعودی عرب پر، جہاں بعض شہروں میں بیس فیصد شیعہ آبادی ہے؛ مگر ان کو اپنے فرقہ کی مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے، یہ غیر معتدل ، نامنصفانہ اور شدت پسندانہ رویہ ہے، جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف کو بڑھاوا دینے کا سبب بن رہا ہے، اس کی ایک مثال ابھی حالیہ رمضان المبارک میں سامنے آئی کہ طالبان حکومت نے اعلان کیا کہ تراویح لازماََ بیس رکعت ہی ہوگی، آٹھ رکعت پڑھنے اور پڑھانے کی اجازت نہیں ہوگی، یہ حقیر خود بیس رکعت تراویح کا قائل ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو لوگ دلائل کی روشنی میں آٹھ رکعت نماز کے قائل ہیں، آپ ان کو بیس رکعت پڑھنے پر مجبورکریں۔

قرآن مجید نے ملے جلے مسلم اور غیر مسلم معاشرہ کے لئے بھی یہ اصول مقرر کیا ہے کہ ہر طبقہ اپنے طریقہ پر عبادت کرے، اور دوسرے کے مذہبی معاملات میں دخل نہیں دے: لکم دینکم ولی دین (الکافرون: ۶) جہاں مسلمانوں کے مختلف فرقہ اور مسالک کے لوگ آباد ہوں، ان کے لئے بدرجہ اولیٰ یہی طریقہ ہونا چاہئے کہ ہر گروہ کو اپنی عبادت گاہ بنانے کی اجازت ہو، اور اپنے اپنے طریقوں پر عبادت کرنے کا حق ہو، جبرواکراہ کے ساتھ وحدت پیدا کرنے کی صورت میں اتحاد کے بجائے انتشار وافتراق پیدا ہو جاتا ہے اور بحیثیت مجموعی ملت کمزور اور بے وزن ہو جاتی ہے۔

نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان مشترکہ امور زیادہ ہیں بمقابلہ اختلافی امور کے، عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت، وحی ، آسمانی کتاب، آخرت کا تصور ، اہل بیت کا احترام، اسلام کے بنیادی فرائض، محرمات اور ممنوعات، ان سب میں اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان کافی یکسانیت پائی جاتی ہے، موجودہ حالات میں اسلام مخالف دشمن طاقتیں چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہو ،وہ اپنے اصل دشمنوں کی طرف سے توجہ ہٹا لیں، اور آپس میں دست وگریباں ہو جائیں؛ اس لئے ہمیں اس پر پوری توجہ رکھنی چاہئے؛ کیوں کہ عالم اسلام میں بھی اور غیر مسلم ممالک میں بھی اس وقت ملت اسلامیہ کو سب سے بڑھ کر اتحاد کی ضرورت ہے، ہمیں اس موقع پر ایران کی پوری اخلاقی مدد کرنی چاہئے، اس کے لئے دعاء کرنی چاہئے اور اختلاف کے باوجود اتحاد کے اصول پر عمل کرنا چاہئے اور ایرانی سربراہوں سے خواہش کرنی چاہئے کہ وہ متوقع جنگ بندی کو ایران اور اسرائیل تک محدود نہ رکھیں؛ بلکہ غزہ کی جنگ بندی کو بھی اس کے ساتھ مربوط کر دیں، اس سے پورے عالم اسلام میں ایران کا وقار بڑھے گا اور مسلمانوں کی وحدت واخوت میں اضافہ ہوگا، کاش! ایسا ہو جائے۔

Comments are closed.