شراب کی شرعی حرمت اور انسانی صحت پر اس کی  غلط اثر انگیزی

انوار الحق قاسمی
(ترجمان جمعیت علماء روتہٹ نیپال)
  شراب کیا ہے ؟ شراب رجس یعنی گندگی اور انسانی صحت کے لیے زہر ہلاہل ہونے کے ساتھ، خوشگوار اور پُرسکون معاشرے کو پراگندگی اور جہنم میں تبدیل کرنے والی ایک  نہایت ہی اثر انگیز شیطانی توشہ ہے۔شراب بلاسبب بغض وعداوت اور جھگڑے کا ایک مؤثر ترین آلہ ہے۔ شراب مال ضائع کرنے والی اور عقل کو ختم کردینے والی نہایت ہی مہلک سامان ہے۔شراب بندوں کو اپنے معبود کی یاد اور طاعات سے دور رکھنے والی  نہایت ہی فعال ملعون شیئ ہے۔ شراب یقیناً تمام بڑے مفاسد اور برائیوں کی اساس اور جڑ ہے،اسی لیے اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ وسلم-نے اسے ام الخبائث اور ام الفواحش قرار دیا ہے۔
شراب کو عربی زبان میں ‘خمر’کہتے ہیں،جس کے معنی’ کسی چیز کو ڈھانپ دینے اور چھپا دینے کے’ ہے اور اس کا استعمال خاص طور پر’ نشہ آور مشروبات ‘کے لیے ہوتاہے؛کیوں کہ یہ عقل کو ڈھانپ دیتے ہیں۔ خمر میں وہ تمام مشروبات اور اشیاء شامل ہیں،جو عقل کو متاثر کرتی ہیں،خواہ انھیں جس چیز سے بھی تیار کیا گیا ہو۔حضرت عبد اللہ بن عمر- رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے رسول- صلی اللہ علیہ و سلم- نے فرمایا:
"ہر نشہ آور چیز ‘خمر’ (شراب) ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ جس نے دنیا میں شراب پی اور توبہ کیے بنا اس کی لت لے کر مر گیا، وہ آخرت میں اسے پینے سے محروم رہے گا”۔ [صحيح مسلم – 2003]
اللہ کے نبی- صلی اللہ علیہ و سلم- نے بتایا کہ عقل کو غا‎ئب کر دینے والی ہر چیز خمر اور نشہ آور شیئ ہے۔ خواہ کھانے کی چیز ہو، پینے کی چیز ہو، سونگھنے کی چیز ہو یا کچھ اور۔ ساتھ ہی یہ کہ نشہ لانے والی اور عقل کو غا‎ئب کرنے والی ہر چیز کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور اس کے استعمال سے منع کیا ہے۔ کم ہو یا زیادہ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ -رضی اللہ عنہا-سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے شہد کی شراب (الْبِتْعِ) کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا: ”ہر پینے والی چیز جو نشہ آور ہو، حرام ہے“۔ [صحیح] – [متفق علیہ]
نبی کریم ﷺ سے شہد کی شراب پینے کا حکم دریافت کیا گیا، تو آپ ﷺ نے ایک ایسا جواب مرحمت فرمایا، جو عام نوعیت کا حامل اور اس جیسے ہر مسئلے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے، جس کا لب لباب یہ ہے کہ عنوان اور تعبیرات کی تبدیلی سے حقائق نہیں بدل سکتے، جب تک کہ معنی اور حقیقت ایک ہو۔ لہٰذا ہر وہ پینے والی چیز جو نشہ آور ہو، حرام ہی ہوگی؛ چاہے کسی بھی چیز سے اسے تیار کیا گیاہو۔
  خدائے متعال نے اسلامی شریعت میں جن چیزوں کو تدریجی طور پر اور حکیمانہ اسلوب میں حرام قرار دیا ہے،ان میں ایک شراب کی حرمت ہے۔ شراب کو اللہ تعالیٰ نے تین مراحل میں حرام کیا ہے۔
   اول لوگوں کے دلوں میں صرف شراب کی نفرتی تخم  ڈالنے کےلیے شراب کے مفاسد کے بیان پر اکتفا کیا۔دوم شراب، چوں کہ اعمال صالحہ کی صحیح بجاآوری میں مخل تھی اور ہے بھی ؛اس لیے خاص اوقاتِ نماز میں مئے نوشی کو حرام کیا۔ سوم لوگوں میں شراب کی نفرت جاں گزیں ہوجانے اور عبادت کےلیے اس کے سم قاتل ہونے کے عیاں ہوجانے کے بعد رب العالمین نے شراب کو قطعی اور ابدی طور پر حرام قرار دے دیا۔
 جنھیں ہم یکے بعد دیگرے، لف و نشر مرتب کے طریقے پر نوشت کررہے ہیں۔
اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں شراب خوری اور مئے نوشی کا رواج بہت بلند تھا۔ لوگ شراب پانی کی طرح کثرت سے اور وافر مقدار میں پیتے تھے ۔ ان کی ہر محفل،بزم اور سبھا میں کچھ ہو یا نہ ہو ؛مگر شراب ضرور رہتی تھی۔ چوں کہ لوگ مذہب اسلام کی آمد سے قبل شراب کے رنگ میں اچھی طرح اور پختہ کلر کے ساتھ رنگے جاچکے تھے،اس لیے اسلام آنے کے بعد بھی لوگوں میں شراب خوری کی عادت رچی بسی ہی تھی۔ عام لوگوں کے پیشِ نظر ،صرف شراب کا ظاہری مفاد  یعنی وقتی چستی اور مستعدی تھا،جب کہ اس کی لازوال مفاسد کا انھیں کوئی علم تک نہیں تھا؛ مگر صحابہ کرام ؓ میں چند ایسے حضرات بھی تھے،جنہوں نے حلال ہونے کے زمانے میں بھی کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد معدودے  حضرات صحابہ کرام ؓ اجمعین کو ان کے مفاسد کا غایت درجہ احساس ہوا۔ حضرت فاروق اعظم اور معاذ بن جبل اور چند انصاری صحابہ کرام ؓ اجمعین اسی احساس کی بناء پر آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ شراب اور قمار دونوں کی بڑی اور بری خامی یہ ہے کہ یہ انسان کی عقل کو خراب کرنے کے ساتھ مال بھی تباہ و غارت کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے بارے میں آپ کا کیا فرمان ہے؟تو اس سوال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی: یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ١٘ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا.تجھ سے پوچھتے ہیں حکم شراب کا اور جوئے کا کہہ دیں کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور فائدے بھی لوگوں کو اور ان کا گناہ بہت بڑا ہے ان کے فائدے سے۔
  اس پہلی آیت میں شراب اور جوئے سے روکنے کا ابتدائی قدم اٹھایا گیا۔ اور اس میں اس بات پر زور زیادہ دیا گیا کہ شراب اور جوئے میں اگرچہ لوگوں کے کچھ ظاہری فوائد ضرور ہیں؛ لیکن ان دونوں میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں پیدا ہوجاتی ہیں، جو ان کے منافع اور فوائد سے بڑھی ہوئی ہیں اور گناہ کی باتوں سے وہ چیزیں مراد ہیں، جو کسی گناہ کا سبب بن جائیں مثلاً شراب میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ شراب سےعقل وہوش زائل ہوجاتا ہے، جو تمام کمالات اور شرف انسانی کا اصل اصول ہے؛ کیوں کہ عقل ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسانوں کو برے کاموں سے روکتی ہے، جب وہ نہ رہی تو ہر برے کام کے لئے راستہ ہموار ہوگیا۔
اس آیت میں صاف طور پر شراب کو حرام تو نہیں کہا گیا ،مگر اس کی خرابیاں اور مفاسد بیان کردیئے گئے کہ شراب کی وجہ سے انسان بہت سے گناہوں اور خرابیوں میں مبتلا ہوسکتا ہے گویا اس کے ترک کرنے کے لئے ایک قسم کا مشورہ دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بعض صحابہ کرام ؓ اجمعین تو اس مشورہ ہی کو قبول کرکے اسی وقت شراب کو چھوڑ بیٹھے اور بعض نے یہ خیال کیا کہ اس آیت نے شراب کو حرام تو کیا نہیں، بل کہ مفاسد دینی کا سبب بننے کی وجہ سے اس کو سبب گناہ قرار دیا ہے، ہم اس کا اہتمام کریں گے کہ وہ مفاسد واقع نہ ہوں، تو پھر شراب نوشی میں کوئی حرج نہیں ،اس لئے پیتے رہے یہاں تک کہ ایک روز یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے صحابہ کرام میں سے چند اپنے دوستوں کی دعوت کی، کھانے کے بعد حسب دستور شراب پی گئی اسی حال میں نماز مغرب کا وقت آگیا،سب نماز کے لئے کھڑے ہوگئے، تو ایک صاحب یعنی حضرت علی ـرضی اللہ عنہ -کو امامت کے لئے آگے بڑھایا، انہوں نے نشہ کی حالت میں جو تلاوت شروع کی تو سورة قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ کو غلط پڑھا اس پر شراب سے روکنے کے لئے دوسرا قدم اٹھایا گیا اور یہ آیت نازل ہوئی يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى (43: 4) یعنی اے ایمان والو تم نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ!۔
اس میں خاص اوقات نماز کے اندر شراب کو قطعی طور پر حرام کردیا گیا، باقی اوقات میں اجازت رہی ،جن حضرات صحابہ کرام ؓ اجمعین نے پہلی آیت نازل ہونے کے وقت شراب کو نہ چھوڑا تھا،وہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت شراب کو مطلقاً ترک کردیا کہ جو چیز انسان کو نماز سے روکے اس میں کوئی خیر خوبی نہیں ہوسکتی ،جب نشہ کی حالت میں نماز کی ممانعت ہوگئی، تو ایسی چیز کے پاس نہ جانا چاہئے جو انسان کو نماز سے محروم کردے؛مگر چونکہ علاوہ اوقات نماز کے شراب کی حرمت صاف طور پر اب بھی نازل نہیں ہوئی تھی، اس لئے کچھ حضرات اب بھی اوقات نماز کے علاوہ دوسرے اوقات میں پیتے رہے، یہاں تک کہ ایک اور واقعہ پیش آیا۔اور وہ واقعہ یہ ہے کہ عتبان بن مالک نے چند صحابہ کرام ؓ اجمعین کی دعوت کی، جن میں سعد بن ابی وقاص بھی تھے کھانے کے بعد حسب دستور شراب کا دور چلا،نشہ کی حالت میں عرب کی عام عادت کے مطابق شعر و شاعری اور اپنے اپنے مفاخر کا بیان شروع ہوا،سعد بن ابی وقاص نے ایک قصیدہ پڑھا جس میں انصار مدینہ کی ہجو اور اپنی قوم کی مدح وثناء تھی اس پر ایک انصاری نوجوان کو غصہ آگیا اور اونٹ کے جبڑے کی ہڈی سعد کے سر پر دے ماری،جس سے ان کو شدید زخم آگیا۔حضرت سعد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس انصاری جوان کی شکایت کی اس وقت آں حضرت ﷺ نے دعاء فرمائی۔ اللہم بین لنا فی الخمر بیاناً شافعاً: یعنی یا اللہ شراب کے بارے میں، ہمیں کوئی واضح بیان اور قانون عطاء فرمادیجئے، اس پر شراب کے متعلق تیسری آیت سورة مائدہ کی مفصل نازل ہوگئی، جس میں شراب کو مطلقاً حرام قرار دے دیا گیا آیت یہ ہے:
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ * اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ (91: 5) یعنی اے ایمان والو !بات یہی ہے کہ شراب ،جوا، بت اور جوئے کے تیر یہ سب گندی باتیں اور  شیطانی کام ہیں، سو اس سے بالکل الگ الگ رہو ،تاکہ تم کو فلاح ہو،شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے آپس میں بغض اور عدوات پیدا کردے اور اللہ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو کیا اب بھی باز آؤ گے۔
شراب کی حرمت کا حکم پاتے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اطاعت شعاری اور تعمیل حکم کا،جو جذبہ دیکھاگیا،وہ نہایت ہی حیرت انگیز اور ایک بڑا معجزہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر -رضی اللہ عنہ -کا بیان ہے کہ جب مدینہ کی گلیوں میں  آپ- صلی اللہ علیہ وسلم -کے ایک منادی نے شراب کی حرمت کا اعلان کیا کہ ‘ اب شراب حرام کردی گئی ہے’تو جس کے دست میں جو برتن شراب کا تھا،اسے وہیں پھینک دیا،جس کے پاس کوئی شراب کا پیالا،جام ،سبو اور خم تھا،اس کو گھر سے باہر نکال کر توڑڈالا ۔ روایات میں ہے کہ اعلان حرمت کے وقت جس کے ہاتھ میں جام شراب لبوں تک پہنچا ہوا تھا،اس کو وہیں سے اس نے پھینک دیا۔ جس طرح برسات کے موسم میں نالیوں میں برسات کا پانی کثرت سے بہتا ہے،بعینہ اسی طرح اس دن شراب بہہ رہی تھی۔ مدینہ کی گلیوں کی مدت مدید تک یہ صورت رہی ہے کہ جب کبھی بھی بارش ہوتی ،تو شراب کی بو اور کلر مٹی میں نکھر جاتا۔
امتثال حکم میں ایک صحابی رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- کا جذبہ اطاعت و فرماں برداری نہایت ہی قابل رشک ہے۔وہ قابل قدر صحابی رسول شراب کی تجارت کرتے تھے اور ملک شام سے شراب درآمد کیا کرتے تھے،اتفاقا اس زمانے میں ابھی ساری رقم جمع کرکے ملک شام سے شراب لینے کے لئے گئے ہوئے تھے اور جب یہ تجارتی مال لے کر واپس ہوئے، تو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ان کو اعلان حرمت کی خبر مل گئی۔ جاں نثار صحابی نے اپنے پورے سرمائے اور محنت کی حاصلات کو، جس سے بڑے نفع کی امیدیں لئے ہوئے آرہے تھے اعلان حرمت سن کر اسی جگہ ایک پہاڑی پر ڈال دیا اور خود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا کہ اب میرے اس مال کے متعلق کیا حکم ہے اور مجھ کو کیا کرنا چاہئے ؟ آں حضرت ﷺ نے فرمان خداوندی کے مطابق حکم دے دیا کہ سب مشکیزوں کو چاک کرکے شراب بہادو!فرماں بردار محب خدا و رسول نے بلا کسی جھجک اور کش مکش کے اپنے ہاتھ سے اپنا پورا سرمایہ زمین پر بہادیا۔یقینا تعمیل ارشاد میں صحابہ کرام کا ایک ایک فرد گل سر سبد کی حیثیت رکھتا تھا۔
    لوگ کہتے ہیں کہ ” عادت چاہے جس چیز کی بھی ہو ،اس کا ترک اور چھوڑنا انسان پر نہایت ہی شاق گزرتاہے اور شراب اور نشےکی عادت کا چھوڑنا،تو اور گراں ہوتا ہے،بایں ہمہ صرف اللہ کےایک فرمان پر شراب کو قطعی طور پر چھوڑ دینا اور پہلے خانہ دل میں شراب سے جس درجہ کی  وارفتگی تھی، حرمت کے بعد ،اس سے کئی گنا مضاعف  نفرت و بیزاری کا سینے اور دماغ میں جاں گزیں ہوجانا،یہ بس صحابہ کرام کے حصے ہی  کی بات تھی۔حکم کی بجا آوری و فرماں برداری کی ایسی مثال نہ پہلے تاریخ میں کبھی ملی ہوگی اور نہ ہی آئندہ کبھی ملے گی۔
شراب اور دیگر محرمات  کے سلسلے میں صحابہ کرام- رضوان اللہ علیہم اجمعین- کا سخت مخالف عمل اور حالیہ دور کے مسلمانوں کا قریب موافق عمل دیکھ کر اول کے تئیں نہایت خوشی ،جب کہ ثانی کے معاملے میں بڑا صدمہ اور افسوس ہوتاہے۔ لوگ جو کہتے ہیں کہ ” انسان کو جس عمل  سے روکا جاتا ہے ،وہ اس کے کرنے کی طرف مزید راغب ہوتا ہے” یہ موجودہ زمانے کے لوگوں کا کہنا ہے اور مقولہ انھیں پر فٹ آتا ہے؛کیوں کہ صحابہ کرام کی تو  یہ حالت تھی کہ کسی چیز کی حرمت اور ممانعت کے بعد، وہ اس سے از حد درجہ نفرت کیا کرتےتھے،ان میں محرمہ اور ممنوعہ شیئ کے ارتکاب کا کوئی سان گمان اور تصور تک نہیں ہوتاتھا۔ وہ اسی جذبہ اطاعت کی بنا کامیاب تھے اور انھیں ‘رضي الله عنهم و رضوا عنه’ کا خدائی  بڑاتمغا ملا۔ اور آج کل کے مسلمان خسارہ کے شکار،بس اسی لیے ہیں کہ ان میں’ اطاعت شعاری اور امتثال حکم’ کا جذبہ بالکل معمولی ہے یا ہے ہی نہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ‘ صحابہ کرام ایسے پاک طینت لوگ تھے کہ ان کے عمل کو دیکھ کر اور ان کے معاملات سے متاثر ہوکر غیر اسلام اپناتے تھے اور آج کل کے مسلمانوں کی ایک تعداد کے عمل اور رویے کو دیکھ کر غیر اسلام کے قریب ہونے کے بجا مزید دور ہی ہوتے جارہے ہیں اور اس سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ آج بھی کچھ خاصان خدا ہیں کہ جن کی بنا بےشمار اغیار حلقہ ایمان میں شامل ہورہے ہیں۔
  ایک وقت تھا کہ مسلمانوں میں شراب کی نفرت اس قدر تھی کہ غیروں میں مسلمانوں کے تئیں شرابی ہونے کا تصور ہی نہیں تھا اور اب مئے نوشی کے معاملے میں مسلمانوں کی صورت حال نہایت ہی تشویش ناک ہے۔ ہر بستی کے مسلمانوں میں  آئے دن شراب نوشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور شراب خوری کے معاملے  میں جو مزاج اسلام سے پہلے کے لوگوں میں تھا،وہی مزاج اب کے مسلمانوں میں بھی ہونے لگا ہے اور ان کے بھی ذہن و دماغ سے شراب کی شرعی حرمت اور اس کے نقصانات کا علم نکلتا جارہاہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء امت لوگوں میں شراب کی حرمت کا خوب چرچا اور تشہیر کرنے کے ساتھ ،اس کے مفاسد  کے پہلو کو بھی خوب اجاگر کرے ،تاکہ مسلمان شراب خوری سے بچے اور معاشرہ پراگندگی سے پاک ہوسکے۔
   شراب انسانی صحت کےلیے نہایت ہی مہلک  چیز ہے اور اس کا  غلط اثر ڈائریکٹر ہمارے بدن کے  جوہری اعضاء پر ہوتاہے؛اس لیے مناسب ہے کہ یہاں اس کے چند مفاسد کا بطور خاص ذکر کردیا جائے ۔
  شراب نوشی کے کچھ اہم نقصانات کا تذکرہ:جگر کے مسائل: شراب جگر کے لیے زہریلی ہوتی ہے اور جگر کی بیماریوں، جیسے کہ سروسس، کا باعث بن سکتی ہے۔
دل کے مسائل: شراب نوشی دل کی بیماریوں، جیسے کہ دل کے دورے اور فالج، کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔
دماغی مسائل: شراب دماغ کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور یادداشت، توجہ اور فیصلہ سازی کو متاثر کر سکتی ہے۔
کینسر: شراب نوشی کئی قسم کے کینسرز، جیسے کہ منہ، گلے، چھاتی اور جگر کے کینسر، کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔
کمزور مدافعتی نظام: زیادہ شراب نوشی سے مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے، جس سے جسم بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔
جلد کے مسائل: بہت زیادہ شراب پینے سے جلد خشک ہو سکتی ہے اور جھریاں اور لکیریں نمودار ہو سکتی ہیں۔
معاشرتی اثرات:
گھریلو تشدد: شراب نوشی گھریلو تشدد اور بدسلوکی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔
حادثات: شراب نوشی گاڑی چلاتے ہوئے یا کام کرتے ہوئے حادثات کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔
جرائم: شراب نوشی جرائم کی شرح میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔
معاشی مسائل: شراب نوشی مالی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ شراب خریدنے پر پیسے خرچ ہوتے ہیں اور شراب نوشی کی وجہ سے کام چھوٹ سکتا ہے۔
ذہنی مسائل: شراب نوشی ڈپریشن، اضطراب اور دیگر ذہنی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔
دیگر نقصانات:
نیند کے مسائل: شراب نیند میں خلل ڈال سکتی ہے اور نیند کی کمی کا باعث بن سکتی ہے۔
تناؤ: شراب پینے سے وقتی طور پر تناؤ کم ہو سکتا ہے، لیکن اس سے طویل مدت میں تناؤ بڑھ سکتا ہے۔
نشے کی لت: شراب نوشی نشے کی لت کا باعث بن سکتی ہے، جو ایک سنگین مسئلہ ہے۔
  شراب نوشی انسانی صحت کے لیے تباہ کن ہونے کے ساتھ،عبادات اور  طاعات کے لیے بھی یہ  نقصان دہ ہے۔ جب انسان شراب پی لیتا ہے،تو پھر اس میں زمین وآسمان تک کا فرق و امتیاز ختم ہو جاتا ہے اور جس میں زمین کا آسمان کا امتیاز  نہ ہو ،وہ کیا  خاک اپنے خالق کو یاد کرے گا۔ شرابی کی تو  شراب کے نشے میں اتنی عجیب حالت ہوتی ہے کہ وہ خود کو اپنے ماں باپ کو،اپنی اولاد کو ،گاوں کی مرنجان مرنج شخصیات کو انتہائی بیہودہ گالیاں دیتا رہتاہے اور بسا اوقات اپنے رب کو گالی دے دیتاہے۔ اس لیے شراب کسی بھی اعتبار سے انسان کے لیے مفید نہیں ہے۔ شریعت میں اس کی حرمت ان ہی مفاسد کے مد نظر ہوئی ہے۔
شراب نوشی کی عادت سے چھٹکارے کے لیے سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ہوگا کہ اس بری اور حرام عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے ،کیوں کہ  انسان کی قوتِ  ارادی بذاتِ  خود  برائی چھوڑنے کے  لیے سب سے طاقت ور  ذریعہ  ہے۔اس کے  ساتھ  ساتھ   سورہ  مؤمن/غافر کی ابتدائی آیات  {حم (1) تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (2) غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ } [غافر: 1 – 3]  پڑھ کر شراب پینے والے  پر دم کریں۔ اگر وہ خود پڑھ سکتا ہو ،تو وہ یہ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرے، گھر کا کوئی فرد بھی یہ عمل کرکے اس پر پھونک دے، اس کے دم کا پانی بھی اس کو پلایا جائے- ان شاء اللہ- اللہ تعالیٰ اس بری عادت سے ضرور خلاصی عطا فرمائے گا۔
   لوگوں میں بیماری کی کثرت اور قلبی سکون کے فقدان کا ایک بڑا سبب ،ان میں اکثریت کا شرابی ہوناہے۔ لوگ اگر واقعی تنو مندی اور قلبی سکون کے خواہاں ہیں ،تو پھر انہیں معاشرے سے مکمل طور پر شراب کا صفایا کرنا پڑے گا اور شراب سے دوری اور نفرت میں دور صحابہ کو پھر سے واپس لانا پڑے گا، تب جاکر  لوگ پر سکون زندگی گزار سکیں گے اور معاشرہ ہر طرح کی بے حیائیوں اور بد کاریوں سے صاف ہوسکے گا۔

Comments are closed.