اب نہ ایسا حسین آئے گا، اب نہ ایسی عبادتیں ہوں گی

 

تحریر: ابوشحمہ انصاری

سعادت گنج، بارہ بنکی

 

محرم کا چاند جب طلوع ہوتا ہے تو فضا میں ایک عجیب سی خاموشی اتر آتی ہے۔ جیسے وقت تھم سا گیا ہو، دلوں میں لرزہ طاری ہوگیا ہو، پھر آنکھیں خودبخود نم ہونے لگتی ہیں۔ اسلامی سال کا آغاز جس سانحے کی یاد کے ساتھ ہوتا ہے، وہ دنیا کے تمام مظلوموں، سچائی کے متلاشیوں، اور عبادت کے عاشقوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ وہ کربلا جہاں ریت بھی جلتی تھی، پیاس بھی سوال کرتی تھی، اور جہاں آسمان نے وہ منظر دیکھا جو قیامت تک نہ بھولا جا سکے گا۔

یہ محض ایک معرکہ نہیں، بلکہ صدیوں پر محیط ایک روحانی انقلاب کا آغاز تھا۔ حسین ابن علی رضی اللہ عنہ نے صرف وقت کے یزید کو للکارا نہیں، بلکہ ہر دور کے ظالم کو یہ پیغام دے دیا کہ سچائی سر کٹوا سکتی ہے، سر جھکا نہیں سکتی۔ کربلا کے میدان میں جو کچھ پیش آیا، وہ قربانی کی اس معراج کو بیان کرتا ہے جس کی نظیر نہ پہلے تھی نہ بعد میں ملے گی۔ یہی وہ لمحہ ہے جب بندگی، وفا، صبر، رضا، اخلاص، اور عشق نے اپنے بلند ترین مقام کو چھو لیا۔

امام حسین رضی اللہ عنہ نے جب مدینے سے رختِ سفر باندھا، تو یہ دنیاوی حکمت عملی نہیں، بلکہ روحانی بصیرت تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا انجام کیا ہوگا، مگر ان کا عزم اس بات پر قائم تھا کہ اگر دین کو بچانے کے لیے میری قربانی درکار ہے تو میں خود کو اور اپنے اہل و عیال کو بھی نچھاور کر دوں گا۔ ان کے خیموں میں قرآن کی تلاوت تھی، راتوں کو سجدے تھے، اور دن میں صبر و استقلال۔ ان کی عبادت صرف محراب و منبر تک محدود نہیں تھی، بلکہ ہر لمحہ، ہر فیصلہ، اور ہر قدم پر بندگی کا رنگ نمایاں تھا۔

محرم کی مجالیس، حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے محاسن کا تذکرہ اور ان کی شان میں مناقب و سلام پیش کرنا محض کسی رسم کی بجا آوری نہیں ہے، بلکہ روحانی وابستگی کا حقیقی مظہر ہے –

یہ وہ مواقع ہیں جو ہمیں جھنجھوڑ کر یاد دلاتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے اگر ہماری زبان کانپتی ہے، تو کیا ہمارا کردار بھی ویسا ہی کانپتا ہے جب ہمیں حق پر کھڑا ہونا پڑے؟ کیا ہم نے وہ عبادتیں اپنائیں جو حسین رضی اللہ عنہ نے سکھائیں؟ کیا ہم نے راتوں کو جاگ کر اپنے رب سے وہ تعلق قائم کیا جیسا تعلق کربلا کے قافلے کا تھا؟

آج کے دور میں عبادت اکثر ایک رسم بن چکی ہے۔ نیت کا خلوص، دل کی حاضری، روح کا خشوع ،سب کچھ کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہم عبادت کرتے ہیں، مگر عبادت میں وہ لرزہ، وہ تعلق، وہ جذبہ باقی نہیں رہا جو امام عالی مقام کے سجدہ گاہ پر بہتے لہو میں نظر آتا ہے۔ وہ سجدہ جس میں سر کٹ گیا، لیکن بندگی کا سفر نہ رکا، وہ نماز جس کا آخری رکوع قربانی بن گیا، وہ اذان جس کے بعد قافلہ کٹتا چلا گیا۔ وہی اصل عبادت ہے۔

کربلا ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ عبادت صرف ایک عمل نہیں بلکہ ایک موقف ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب شبیہِ مصطفیﷺ، اپنے چھوٹے بچوں، نوجوان بھائی، بھتیجوں اور اصحاب کے ساتھ حق کی راہ میں کٹتا ہے اور کہتا ہے،میں کسی بھی قیمت پر ظلم و فسق کی تائید نہیں کر سکتا۔ کربلا کا ہر شہید گویا یہ پیغام دے رہا ہے کہ عبادت کا حق ادا تب ہوتا ہے جب تمہارے سامنے دنیا کی آسائشیں ہوں، زندگی کا فریب ہو، اور تم پھر بھی رب کو چن لو۔

آج جب ہم امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی کو یاد کرتے ہیں تو ہماری آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں؛ لیکن یہ آنسو ہمارے کردار میں تبدیلی نہیں لاتے،صرف جذبات کی تسکین بن کر رہ جاتے ہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ کا غم دل میں ہو اور زبان جھوٹ بولے، ہاتھ ظلم کو برداشت کرے، آنکھ فحش مناظر دیکھے، اور قدم گناہ کی طرف بڑھیں ۔ تو یہ کیسا تعلق ہے؟ کیسی عقیدت ہے؟ اور کیسی یاد ہے؟

محرم ہمیں صرف ایک تاریخی واقعہ یاد دلانے نہیں آتا، بلکہ یہ ایک موقع ہوتا ہے کہ ہم اپنے اندر جھانکیں۔ ہم اپنے طرزِ عبادت، اپنی زندگی کے اصول، اپنے معاشرتی رویوں کو امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیغام کی کسوٹی پر پرکھیں۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم صرف نعرے لگا رہے ہیں یا واقعی اس پیغام کو اپنی عملی زندگی میں سمو بھی رہے ہیں۔

یہ وہ ایام ہیں جن میں روح کو جھنجھوڑنے والا ہر لمحہ ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے کہ ہم اپنی عبادتوں کو نئی روح عطا کریں۔ وہ عبادت جو شب بیداری ہو، عاجزی ہو، جو اخلاص ہو، جو دنیا کے خوف سے آزاد ہو، جو بندگی کی معراج ہو۔ لیکن آج کی دنیا میں عبادت صرف نماز کے چند ارکان میں محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سجدہ ہے، مگر دل غافل ہے۔ تلاوت ہے، مگر روح غیر حاضر ہے۔ دعا ہے، مگر یقین ندارد۔

اب نہ وہ سجدے رہے، نہ وہ شب زندہ داریاں، نہ وہ آہیں، نہ وہ زاری، نہ وہ قربانی کا حوصلہ، نہ وہ وفا کا دم۔ اب نہ ویسے قافلے نکلتے ہیں، نہ ویسی ماٸیں اپنے بیٹے قربان کرتی ہیں، نہ ویسا حسین رضی اللہ عنہ آئے گا، نہ ویسی عبادتیں ہوں گی۔ وقت بدل چکا ہے، دنیا تیز ہو چکی ہے، لیکن کربلا کی وہ سچائیاں آج بھی دلوں پر دستک دے رہی ہیں۔

ہمیں اب خود کو بدلنا ہوگا۔ صرف حسین رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کافی نہیں، ان کی راہ پر چلنا بھی ضروری ہے۔ صرف آنکھوں کو نم کرنا کافی نہیں، دل کو بیدار کرنا بھی لازم ہے۔ اگر ہم نے کربلا سے یہ سبق نہ لیا، تو ہم تاریخ کے تماشائی تو بن جائیں گے، مگر راہی نہیں۔

محرم، ہر برس ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی روح کی گرد جھاڑیں، اپنی نیتوں کو خالص کریں، اپنی عبادتوں کو زندہ کریں، اور اپنی زندگی کو حسینی بنائیں۔ یہی اصل پیغام ہے، یہی اصل بندگی ہے، اور یہی اصل فریضہ.

 

Comments are closed.